کاش ملک پاکستان آج بھی اسی طرح مستحکم اور
مضبوط ہوتا اور وطن عزیزکی جڑیں کھوکھلی نہ ہوتیں کاش اسلامی جمہوریہ
پاکستان کا ہر فرداپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتا اپنی اپنی ذمہ داریوں کو
بطریقِ احسن سر انجام دیتا وطن عزیز میں قائم ادارے کرپشن جیسی عظیم لعنت
سے پاک ہوتے۔ ہر فرد ملت کا درخشاں کا ستارہ ہوتا ہر چھوٹے بڑے وطن کے باسی
،سیاستدان کے دل کے اندر وطن کی محبت ہوتی ۔پاکستان کا نام ان کے دلوں میں
دھڑکن کی طرح دھڑکتا ۔ غریب ،کسان،مزدور ،دہکان اور محنت مزدوری سے تین وقت
کی بجائے ایک وقت کے کھانے جتنے پیسے کمانے والے کی قدر کی جاتی ۔ دل یہاں
خون کے آنسو رونے لگا ہے سانسیں لڑکھڑا رہی ہے مہنگائی اس نہج پر پہنچ چکی
ہے کہ غریب بمشکل ایک وقت کا کھانہ کھا سکتا ہے میعاری اشیاء ایک عام مزدور
چھوٹے طبقے کے ملازمین کی رسائی سے بہت دور ہیں ۔ یہ غریب کے بچے کسی اچھے
سے سکول میں تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ یہ تمام چیزیں ان کی پہنچ
سے کافی دور ہیں۔ سیکورٹی خدشات یہاں تک ہیں کہ بچوں کو سکول بھیجنے سے دل
ڈرتا ہے ۔ بچوں تک کا بھی احساس نہیں کیا یہ درندگی نہیں ہے ظلم و بربریت
نہیں ہے۔ کہ ان ماؤں کے لخت جگر جو بزرگ والدین کے اکلوتے سہارے تھے جنہیں
تیار کرا کے سکو بھیجا گیا مگر وہ سو گئے۔ اربابِ اختیار سے سوال کرنا
چاہوں گا آخر یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ بچے سکولوں میں محفوظ نہیں ،کبھی
سکول، کبھی بازار،کبھی مسجد، کبھی امام بارگاہ ، کبھی تفریحی پارک پر بم
بلاسٹ ہو رہے ہیں۔آخر کس نے سنبھالنا ہے !لیکن ماسوائے مذمتی بیانات کے کچھ
نہیں کیا جاتا یہاں پر افواجِ پاکستان کا تذکرہ ضروری سمجھ رہا ہوں ملکی
سرحدوں پر مامور فوجی جوان جو بغیر اپنی زندگی کی پروا کیے انتہائی نیک
نیتی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ "ضربِ عضب "جیسا عظیم کارنامہ جس کا
سہرا پاک فوج کے سر ہے کیا ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ فوجی جوانوں کی ذمہ
داری ہے؟ حکمرانوں کو چاہیے کہ ایسی حکمت عملی اپنائی جائے جس سے دہشت
گردوں کا ملک سے مکمل خاتمہ ہو اور مکمل سکون ہو۔اور ملک کی غریب عوام سکھ
کا سانس لے حکمرانوں کے لیے صرف یہ نہیں کہ اسمبلی کے ایوانوں تک آئے اور
پھر اپنے Vip لاجز کو لوٹ گئے ۔ ان کے بعد ہمارے ملک میں لوڈ شیڈنگ اس نہج
پر پہنچ چکی ہے کہ ایک غریب مزدور کسی فیکٹری میں آٹھ یا بارہ گھنٹے مشقت
کرتا ہے اور شام کو مشکل سے ایک یا دو وقت کے کھانے کے پیسے لے کر بچوں کا
پیٹ پالتا ہے اب لوڈ شیڈنگ کے باعث فیکٹری ہی بند رہے تو ان بچوں کا کیا
بنے گا جو اس آس پر بیٹھے ہوتے ہیں کہ شام کو کچھ گھر آئے گا اس کے برعکس
ایک بیوروکریٹ یا حکومتی نمائندہ جنہیں تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں انہیں
خبر ہی نہیں ہوتی کہ بجلی آئی ہے یا گئی ہے جب کہ ایک غریب ، مزدور بجلی نہ
ہونے کے باعث تڑپ رہا ہوتا ہے اس کے بچے بلک رہے ہوتے ہیں حکمرانوں کو
احساس کیوں نہیں ہے۔کیا انہیں چکی میں پستی غریب عوام نظر نہیں آ رہی ہوتی
کیا صرف عوامی مینڈیٹ لینے کے بعد غریب عوام کو بُھلا دیا جائے۔ یہاں کس کس
بات پر رویا جائے؟ کیا دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہوتا ہے!کہ اگر ایک روڈ سے
ملکی حکمران گزر رہا ہو تو روڈ کو دو گھنٹے قبل بند کر دیا جاتا ہو ۔کیا
کسی دوسرے ملک میں بھی ایک ملکی حکمران یا حکومتی نمائیدہ کو اتنا پروٹوکول
دیا جاتا ہے؟ مگر ہمارے ملک میں ایسا ہے اس بات کی پرواہ تک نہیں کہ روڈ
بند ہونے کے باعث ایک مریض بر وقت ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے زندگی کی
بازی ہار بیٹھتا ہے۔یہاں ایک نہیں اس طرح کے کئی واقعا ت ہو چکے ہیں ۔مگر
اس کا سدِباب نہیں کیا گیا۔غریب کی با لکل پرواہ نہیں کی جاتی پروٹوکول کی
صورتِ حال کچھ اس طرح ہے کہ بیس سے زائد گاڑیاں آگے اور اس سے زیادہ پیچھے
پروٹیکشن پر مامور ہوتی ہیں ۔جو سرکاری فیول استعمال کر رہی ہوتی ہیں مگر
پروار نہیں کہ خسارہ بھی ملک کا ہو رہا ہے۔روزگار بالکل ہی نہ ہونے کے
برابر ہے ایک غریب مشکل سے اپنے بچے کو پڑھاتا ہے جب کسی بھی طرح وہ
گریجویشن کر لیتا ہے تو ضعیف ماں باپ کو امید ہونے لگتی ہے۔ اب یہاں NTSآ
چکا ہے۔کسی بھی وجہ سے اگر وہ بچہ جو اچھے نمبروں سے پاس ہو کر NTSدیتا ہے
اور نمبر کم آنے پر یا سیاسی اپروچ نہ ہونے کے باعث رہ جاتا ہے تو پھر جانے
اس ضعیف ماں باپ پر کیا گزرتی ہے۔ ڈگریوں کے ڈھیر لیے اسمبلی کے سامنے اپنا
حق مانگنے پر انہیں گرفتار کر لینا یہ بھی ہمارے لیے لمحہ فکریا ہے حکومتی
پلان اس طرح سے ہونے چاہیے ایک غریب جب پڑھ لکھ جاتا ہے تو اسے روزگاہ مل
سکے تاکہ وہ بزرگ والدین کا سہارا بن سکے ۔ خدارا! بانی پاکستان جناب محمد
علی جناح اور ڈاکٹر علامہ محمداقبال کی انتھک محنتوں کی بدولت حاصل کیے
جانے والے ملک کو تباہی سے بچایا جائے۔ ملک میں ایسی حکمت عملی اپنائی جائے
جس سے تمام مسائل کا حل نکل سکے۔روزگاہ عام ہو، تعلیم عام ہو، انسانی جانیں
محفوظ ہوں ، غریب کا تحفظ ہو۔ میں دعا گو ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے اس وطن
عزیز کو سلامت رکھے اور حکمرانوں کے دل میں غریب عوام کا احساس جگا دے۔
"دردِ دِل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں" |