تحریر: نور بخاری(کھرڑیانوالہ)
پاکستان کا حصول وقت کی ضرورت بن چکی تھی۔ آزادی کا مقصد تھا کہ ایک ایسا
ملک ہوگا جہاں بطور مسلمان ہم اسلامی احکامات پر عمل کر سکیں گے۔ ملک کو
اسلامی جمہوریہ کے نام سے حاصل تو کر ہی لیا گیا تاہم ملک میں اسلامی اقدار
ہی کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ اس معاملے میں خواتین بہت آگے نکل گئیں۔ اسلامی
اقدار تو دور کی بات ملی اقدار کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔
یہ غیر اسلامی ہندوانہ رسومات کا سلسلہ شادی کے موقعوں پر سر چڑھ کر بولتا
ہے ۔ جہیز کی تیاری میں اتنا کچھ خرچ کردیا جا تا ہے کہ قرض اٹھا نا پڑ
جاتا ہے۔ خواتین جہیز کے معاملے میں سماج میں باتیں نہ بنیں ہر حد چلی جاتی
ہیں۔ خود پر بہت سارا قرض کا بوجھ لاد کر بیٹی کا جہیز ضرور تیار کیا جاتا
ہے ۔ ساتھ میں اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا کہ کہیں برادری اور سسرال میں
باتیں نہ سننی پڑیں۔ پھر مہندی کی رسم ہوتی ہے۔ اس کے بعد دعوتوں کے
معاملات کا دور آتا ہے ۔ جس کا ایک غریب آدمی کم از کم متحمل نہیں ہوسکتا۔
اکثر و بیشتر انہیں حالات کے پیش نظر بیٹیوں کے بالوں میں سفیدی اتر آتی ہے۔
اس سے آگے بات بڑھتی ہے تو کھانے پر آجاتی ہے۔ بیٹی کے باراتیوں کے لیے طرح
طرح کے کھانے کم سے کم بھی تین ڈشز ضرور تیار کی جاتیں ہیں۔ اس پر بھی قرض
اٹھالیا جاتا۔ بہت سے افراد یہاں پر بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے
ہندوانہ رسم و رواج پر عمل کرتے ہیں۔ ٹی وی چینل اور کیبل پر چلتے غیر ملکی
خصوصا بھارتی ڈراموں نے بھی ہمارے معاشرے کی خواتین پر گہرے منفی اثرات
مرتب کیے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک فیشن کہ جنہیں والدین نے دیکھا تک نہیں
ہوتا، اور کبھی سوچا تک بھی نہیں کرنے کی ضد کی جاتی ہے اور معاملہ اس حد
تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ بچیاں والدین سے ہی ناراضگی مول لے لیتی ہیں۔
ایسی ایسی عجیب و غریب فرمائشیں کی جاتی ہیں جن کو کبھی بھی پورا کرنا ممکن
نہیں ہوتا۔ جس کا ہمارے مذہب سے دور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہم نے
ملک کو حاصل کیا تھا کہ ہم اپنی مرضی کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں تاہم
حالات و واقعات مرضی پر تو ہیں مگر اس سے بھی کہیں آگے بڑھ گئے ہیں
قربانیوں کو بھلا کر جن سے آزادی حاصل کی تھی انہیں کی رسوم ورواج پر عمل
درآمد شروع کردیا گیا۔
آزادی حاصل کیے ایک لمبا عرصہ ہو گیا ہے۔ پر ہندوانہ رسم و رواج جوں کے توں
قائم ہیں۔ شادی میں مہندی، بارات، ولیمہ۔۔۔۔ تینوں رسموں میں آپ فضول رسموں
کا زور باآسانی دیکھ سکتے۔۔۔ اور تو اور فضول خرچی بھی زوروں پر ہوتی۔۔۔
پتا نہیں ایسا کیوں ہے۔۔۔؟متوسط طبقے کی بیٹیاں خاموشی سے اپنے ٹوٹے خوابوں
کی کرچیاں لیے پیا گھر سدھار جاتیں۔۔۔اگلے گھر میں اب بہووں کے ساتھ عجیب
سلوک ہوتا۔۔۔ بات بات پر اسے خاندان کے طعنے دئیے جاتے۔۔۔مطلب ہر طرح سے
اسے پریشرآیز کیا جاتا۔۔۔آخر کیوں ہوتا ایسا؟ کوئی جواب دے گا۔۔۔؟ آخر کب
تک ہم اپنی بیٹیوں کے خوابوں کا خون کرتے رہیں گے۔۔۔؟ آخر کب ہندوانہ رسم و
رواج کا خاتمہ ہو گا؟؟؟آخر کب یہ تسلیم کیا جائے گا کہ جہیز اتنا ضروری
نہیں جتنا ضروری تعلیم اور شعور۔۔۔؟آخر کب پاکستان میں اسلامی احکامات نہ
صرف رائج ہوں گے بلکہ عمل بھی ہو گا۔ |