یہ مرغے
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
دسیوں طلبا مرغا بنے ہوئے تھے، بہت
سے بچے ان کے قریب کھڑے تھے، تصویر کے نیچے لکھی تحریر سے واضح ہوتا تھا کہ
یہ بچے احتجاج کے لئے مرغا بنے ۔ وجہ ان کے احتجاج کی یہ بتائی گئی کہ
جنوبی پنجاب کے ایک تاریخی مگر انتہائی پسماندہ قصبے ’اچ شریف‘ کے مضافات
میں ماڈل سکول کبیر خان واقع ہے، جس میں زیرتعلیم بچوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے
قریب اور ٹیچر صرف ایک ہے، مختلف کلاسوں کے ایک سو پچاس بچوں کو ایک ٹیچر
کس طرح پڑھا سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، یہی وجہ ہے کہ بچے
سارا دن کھیل کود کے بعد گھر واپس آجاتے ہیں۔ بہت سے بچے روزانہ کی فراغت
سے تنگ آ کر سکول چھوڑ چکے ہیں، (یا ان کے والدین نے انہیں کسی اور سکول
میں داخل کروا لیا ہے)۔ یہاں ایک اہم ایشو یہ بھی ہے کہ ان بچوں کو مرغا
بننے کا خیال کیسے آیا؟ بچوں کو توسزا دینے کے لئے مرغا بنایا جاتا ہے،
ممکن ہے بچوں نے خود کو سزا ہی دے رکھی ہو کہ جب ان کو کسی نے پڑھانا نہیں،
تو احتجاجاً خود کو سزا دے لیں، شاید کسی کو ان کی تعلیم کا خیال آ جائے؟
احتجاج کے لئے مرغا بننے کی روایت رواج پار ہی ہے، بہت سے عام محکمے نے بھی
اپنے اعلیٰ حکام یا کسی اور رویے کے خلاف احتجاج کرنا ہو تو اکٹھے ہو کر
مرغا بن جاتے ہیں۔ یہ تو معلوم نہیں کہ ان کے مطالبے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
مگر اتنا ضرور ہوتا ہے کہ ان کی تصویر اور خبر اخبارات کی زینت بن جاتی ہے،
اس پر ایکشن کے امکانات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔
یہ مرغا بھی عجیب چیز ہے، اگر کوئی خود مرغا بن جائے تو اسے انوکھے احتجاج
کا نام دے دیا جاتا ہے اور اگر کوئی کسی کمزور کو مرغا بنا دے تو بھی یہ
خبر بن جاتی ہے اور اس خبر پر احتجاج کیا جاتا ہے، اس واقع کومرغا بنائے
جانے والے انسان کی توہین قرار دیا جاتا ہے۔ جس طرح کسی کو مرغا بنانے کے
عمل کو قابلِ گرفت امر تصور کیا جاتا ہے،ا سی طرح خود مرغا بننے کا عمل بھی
قابلِ گرفت ہی ہونا چاہیے۔ جیسے کسی کو ماردینے کی سزا ہے، اور خود کشی
کرنے والے کو بھی مجرم ہی قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح مرغا بنانے والا یا
خود بن جانے والا دونوں قصور وار ہیں۔ اب محکمہ تعلیم کے مقامی افسر کا کام
ہے کہ وہ تحقیق کرے کہ بچے مرغے کیوں بنے؟ اگر وہ خود بنے تو بھی ان کو ان
کے کئے کی سزا ملنی چاہیے، اور اگر انہیں کسی نے ایسا کرنے کی تجویز دی تو
ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔کیا عجیب بات ہے کہ ہمارے اساتذہ بچوں کو
انسان کے بچے تو بنا نہیں سکتے، مرغا بنا نے میں دیر نہیں کرتے۔ یہ تو
احتجاج والے مرغوں کی تصویر ہے، بعض اوقات اوقات ایسے لوگوں کی تصاویر بھی
اخبارات میں شائع ہوتی ہیں جنہیں کسی نے مرغا بنایا ہوتا ہے، کبھی پولیس
والے کسی ملزم (یا سائل) کو مرغا بنا دیتے ہیں، کوئی جاگیر دار اپنے سامنے
بولنے والے، یا گستاخی کرنے والے کو مرغا بنا دیتا ہے، یا ڈاکو گھر والوں
کو یرغمال بنا کر مرغا بنا دیتے ہیں، ان اقسام کے جبری مرغوں کی تعداد بھی
بہت زیادہ ہے۔
اگر مرغا بننے سے اچ شریف کے ماڈل سکول میں تین اور اساتذہ تعینات کر دیئے
جاتے ہیں، ان کے ہاں کلاس روم بھی ضرورت کے مطابق بن جاتے ہیں تو پنجاب بھر
کے دیگر سکولوں کے لئے بھی یہ واقعہ نشانِ منزل ثابت ہو سکتا ہے، سہولتوں
کی کمی والے سکولوں کے بچے سکولوں سے باہر آئیں، بڑی سڑک پر آکر مرغا بنیں،
اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اپنی تصاویر شائع اور نشر کروائیں اور اپنے
سکول کے لئے اساتذہ، کلاس رومز، پینے کا پانی، چاردیواری اور واش روم وغیرہ
کی سہولتیں حاصل کریں۔ تھوڑی سی پریشانی اٹھانے سے بڑی پریشانیوں سے نجات
مل جائے گی۔یا پھر یہ بچے اپنے سکولوں میں کوئی دعائیہ تقریبات منعقد کریں،
اﷲ تعالیٰ سے دعا کر یں کہ وہ حکمرانوں کی ترجیحات کو تبدیل کر دے،
حکمرانوں کے پراجیکٹس کا رخ عوام کی ضرورتوں کی طرف موڑ دے، حکمران کسی بھی
علاقے میں اربوں روپیہ لگانے سے قبل اتنا تو سوچ لیا کریں کہ یہاں کے
باسیوں کی پہلی اور اہم ترجیح کیا ہے؟ انہیں سکول کی ضرورت ہے، ہسپتال کی،
صاف پانی کی یا امن و امان کی؟ ویسے اِن مرغوں کے لئے مشورہ ہے کہ وہ انسان
کے بچے بن جائیں کیونکہ حکومتی اعلانات کے مطابق فلاں سال تک کوئی بچہ سکول
سے باہر نہیں رہے گا، ظاہر یہ اعلان انسان کے بچوں کے لئے ہے ، مرغوں کے
لئے نہیں۔ |
|