سورہ التکاثر میں ہے" تم کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے
سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی چاہت نے غفلت میں ڈال دیا ہے یہاں تک کہ تم
قبروں تک پہنچ جاتے ہو ْ "۔آج کے دور میں کیا ہمارامعاشرہ اس آیہ مبارکہ کی
عملی عکاسی نہیں کر رہا ۔آپ اپنے اردگرد کا تجزیہ کرلیں تو آپکو ہر شخص صبح
سے لے کر شام تک اسی تگ و دو میں نظر آئے گا کہ زیادہ سے زیادہ کس طرح حاصل
کرسکوں اور پھر حسد اور کینہ اتنا کہ اک دوسرے کو دیکھ کر اپنی زندگی کا
لائحہ عمل تہہ کیا جا تا ہے کہ اس نے گاڑی لے لی تو میرے پاس بھی ہو اس نے
مکان بنا لیا تو میرے پاس بھی ہو اور پھر اک پر اکتفا بھی نہیں ۔ایک مکان
ہے تو دوسرے کی تگ و دو ۔دوسرا بن گیا تو آگے کا منصوبہ پہلے سے تیار اور
اگر اک کاروبار ہے تو دوسرے کی پلاننگ حتی کہ ہم نے اپنا مقصد حیات ہی اسی
چیز کو بنا لیا جو صرف زاد راہ تھی۔ اور پھر اس وقت تک یہی تگ ودو لگی رہتی
ہےجب تک موت کا جھٹکا نہیں لگ جاتا ۔
اسی مادیت پرستی نے ہمیں اخلاص سے دور کر دیا اور معاشرتی اقدار کو مسخ کر
کے رکھ دیا کسی دور میں مہمان کو رحمت سمجھا جاتا تھا اور اسکی خدمت اپنی
استطاعت سے بڑھ کر کی جاتی تھی۔ لیکن آج یہ اصطلاح اتنی بدل چکی ہے کہ ہوٹل
کے گاہک کو مہمان کہا جاتا ہے اور اس مہمان کی عزت اس وقت تک کی جاتی ہے جب
تک اسکی جیب بھری ہے ۔آج اسی مادیت پرستی نے ہمارے شعور اور ادراک کو نیست
و نابود کرکے رکھ دیاہےاور انسان کو اتنا مصروف کر دیا کہ اسکے پاس اپنی
جوان ہوتی اولاد کیلیے وقت نہیں دولت کی ہوس نے انسان کے گھر اور معاشرہ کو
اک بازار بنا دیا جہاں پر ہر جنس بیچنے اور خریدنے کیلیےپیش ہوتی ہے۔تجزیہ
کریں تو یہ معلوم ہو گا کہ ہمارے معاشرے میں جس جگہ زیادہ مادی ترقی ہے
وہاں اتنی ہی بے حسی اور خود غرضی ہے اور جہاں پہ لوگ آج بھی فطرت سے قریب
اور مادیت سے دور ہیں وہاں پہ آپ کو اخلاص بھی ملے گا محبت بھی ، اقدار اور
معاشرہ بھی ۔
آج سے کچھ سال پہلے نیلم جاتے ہوئے بارش میں ہماری گاڑی پھنس گئی تو وہاں
پہ اک پورا خاندان گاڑی کو نکالنے کیلیے دھکے دینے کیلئے نالے میں گھس گیا
جہاں ہم خود گھستے ہوئے ڈر رہے تھے اور جب کافی تگ ودو کے بعد گاڑی نکل گئی
تو ہم نے جب ان لوگوں کو پیسے دینے کی کوشش کی تو انہوں نے باقاعدہ ناراضگی
کا اظہار کیا ۔مجھے یہ واقعہ بڑے عرصہ بعدتب یاد آیا جب اسلام آباد میں
شدید سردی کی وجہ سے صبح گاڑی نے سٹارٹ ہونے سے انکار کر دیاتو دھکا دینے
والے نے 100روپے اور بیٹری کے ساتھ بیٹری لگا کر سٹارٹ کرنے والےگاڑی والے
نے 200 کا مطالبہ کر دیا۔ اسکے علاوہ آپ کسی ٹورسٹ پوائنٹ پہ چلے جائیں
وہاں راستہ بتانے والا بھی پیسوں کا طلبگار نظر آئے گا آج ہماری معاشرتی
اقدار اس مادیت پرستی نے تباہ وبرباد کردی ہیں کہ کوئی کام مادی منفعت کے
بغیر کرنے والے مفقود ہو چکے ہیں۔ امیر بھی دولت کا پجاری نظر آئےگا اور
غریب بھی دولت کیلے کسی دھوکا دہی سے باز نہیں آئے گا ۔کیونکہ بحثیت مجموعی
ہمارے معاشرے کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے اس سے امیر اور غریب مبرا نہیں ۔ اور
اسی دوڑ میں وہ وقت آئے گا جب موت کا فرشتہ پہنچ جائے گالیکن ہمیں اس وقت
تک ہمیں اپنا اصل مقصدِ حیات سمجھ نہ آئے گا تو پھر گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ |