اس میں کوئی شک نہیں کہ آپریشن ضرب عضب وطن عزیز سے دہشت
گردی کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا ہے۔ ملک بھر میں امن عامہ کی
صورتحال انتہائی بہتر ہے۔ کاروبارزندگی عروج پر ہے اور امید کی کرنیں ہر
طبقہ ہائے میں پھوٹ رہی ہیں۔ یقینا یہ صورتحال ہمارے جہاں طمانیت کا باعث
ہے وہی ایک بہت بڑا تقاضا بھی کرتی ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد، ایمان
اور یقین کی پاسداری صرف لفظوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ
بھی کریں۔ ہمارے اسلاف نے اس وطن کی خاطر بہت سی قربانیاں دیں۔ آزادی کے
متوالوں نے سر کٹا کر اپنی آئندہ نسلوں کو جہاں آزادی بخشی وہی افواج
پاکستان نے قربانیوں کے ذریعے اس آزادی کو دوام بخشا۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے
دہشت گردی نے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس عفریت کے خاتمے کے
لیے ہماری افواج کو بہت سی قربانیاں دینی پڑیں۔آج بھی وہ جان ہتھیلی پر
رکھے اس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ابتداء دہشت گردی کی جنگ اس حوالے سے انتہائی
پیچیدہ تھی کہ اس میں آپ دوست اور دشمن کی پہچان نہیں کرسکتے تھے۔ افسوسناک
پہلو یہ تھا کہ دہشت گرد اسلام کے داعی اور اصل پیروکار ہونے کا تو دعویٰ
کرتے ہوئے فساد بپا کرنے میں مصروف تھے۔ وہ اپنے ہی تراشے ’اسلام ‘ پر عمل
کرنے والوں کو اپنا ساتھی اور باقی سب کو کافر تصور کرتے ۔ نعرہ تکبیربلند
کرنے والی اور سبز ہلالی پرچم کی امین فوج ان کا سب سے بڑا نشانہ تھی۔ سول
انتظامیہ کو انہوں نے عضو معطل بنا دیا تھا۔ ان حالات میں پاک فوج نے دہشت
گردی کے خلاف پوری قوت سے قوم کی بقاء کی جنگ لڑی ۔ جس طرح انہوں نے اپنی
قربانیوں سے ہماری آزادی کو دوام بخشا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ان
قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ آج میں پاک فوج کے ایک جوان سپاہی
عدنان کی جرات و بہادری قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں جس نے اورکزئی
ایجنسی میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ شہید کی
آخری آرامگاہ پر سبز ہلالی پرچم جس شان سے لہرا رہا ہے وہ وہاں کے ہر باسی
کے لئے باعث فخر ہے اورہمیں پیغام دے رہا ہے کہ ہم بھی وطن عزیز کی آزادی ،
ترقی اور بقاء کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری ایمانداری سے ادا کریں۔
سپاہی محمد عدنان راولپنڈی کے نواحی علاقے کڑاہی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد
بھی پاک فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کی دلی خواہش پر اس جوان نے
فوجی وردی زیب تن کی۔ فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد جب سپاہی اس کے نام کا
حصہ بنا تو وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس نے اپنے لئے جو
راستہ چنا ہے وہ خطرات سے بھرپور ہے۔ دوران تربیت ہی اسے اور اس کے ساتھیوں
کو معلوم ہوچکا تھا کہ میدانِ جنگ ہی ان کا پہلا پڑاؤ ہوگا۔ وہ میدان جنگ
جہاں دشمن اپنوں کے روپ میں ان پر وار کرے گا۔ جہاں ان کے ذہنوں کو طرح طرح
کے اندیشوں میں مبتلا کیا جائے گا۔ جہاں براہ راست جنگ کے ساتھ ساتھ انہیں
اعصابی و نفسیاتی جنگ کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ وطن عزیز کی خدمت کے جس جذبے
کو لے کر وہ پاک فوج کا حصہ بنے تھے، اس کے تحت وہ اس طرح کے کسی بھی طوفان
سے ٹکرا جانے کابھرپور عزم رکھتے تھے۔
سپاہی محمد عدنان کوجس یونٹ میں تعینات کیا گیا وہ اورکزئی ایجنسی میں دہشت
گردوں کے خلاف نبرد آزما تھی۔ دہشت گردگھات لگا کر حملہ کرتے اور وادی کی
بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے۔ان کی یونٹ نے دہشت گردی کے بہت سے نیٹ ورک توڑے
جس پر دہشت گرد سٹپٹا کررہ گئے تھے اور جوابی حملوں کے لئے پرتول رہے تھے۔
یونٹ نے بہت سے علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کرکے وہاں اپنی چوکیاں قائم
کرلیں تھیں۔ایک روز دہشت گردوں نے مختلف اطراف سے یونٹ کی پوسٹوں پراچانک
حملہ کردیا۔ سپاہی عدنان کی پوسٹ بھی حملے کی زد میں آگئی۔ پوسٹوں پر موجود
سپاہی مستعد اور تیار تھے۔ انہوں نے جوابی فائرنگ شروع کردی۔ دہشت گردوں کے
پاس مشین گنوں کے علاوہ ہینڈ گرنیڈز اور راکٹ لانچر بھی موجود تھے۔ مگر وہ
پاک فوج کے جوانوں کی مستعدی اور دلیری کے سامنے بے بس تھے۔ شدید مزاحمت کے
بعد ان کے حملے کی شدت میں بھی اضافہ ہوگیا۔ دہشت گردوں نے مورچوں کو تاک
تاک کر نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اسی دوران گولیوں کی ایک بوچھاڑ سپاہی
عدنان کے سینے کو چیرتی ہوئی گزر گئی۔ شدید زخمی ہونے کے باوجود اس نے
مزاحمت جاری رکھی ۔وہ خون کی آخری بوند تک دہشت گردوں کے خلاف ڈٹے رہا اور
آخر کار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ منزل حاصل کرلی جس کی وہ تمنا رکھتے
تھے۔ جس وقت اس دلیر سپاہی نے جان جان آفرین کے سپرد کی اس کی عمر20سال
تھی۔ دہشت گردوں کا حملہ بری طرح ناکام رہا تھا۔ سپاہی عدنان اور اس کے
ساتھیوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنا
دیئے تھے۔
شہادت کی خبر اس کے آبائی گاؤں پہنچی تو اس کے والد امیرخان کی زبان پر
الحمداﷲ کے الفاظ تھے۔ اپنے بیٹے کی شہادت صبرو شکر کا مجسمہ بنے ہوئے تھے۔
شہیدکا گاؤں راولپنڈی سے 70کلومیٹر فاصلے پر کڑائی کے نام سے جانا جاتا
ہے۔مشہور قصبہ چکری سے اس کا فاصلہ تقریباََ 30کلومیٹر ہے۔ اس چھوٹے سے
گاؤں کے لوگوں کا ذریعہ معاش تو زمینداری ہے لیکن حسب روایت اکثر گھرانوں
کے چشم و چراغ پاک فوج سے وابستہ ہیں۔ گاؤں کے ساتھ ہی ایک قبرستان ہے جہاں
قومی پرچم میں ملبوس شہید کے جسدِ خاکی کو لایا گیا تو پاک فوج کے ایک چاق
چوبند دستے نے اسے سلامی پیش کی۔ شہید کے نمازِ جنازہ میں لوگوں کا ایک جمِ
غفیر امڈ آیا تھا۔ ہوا کے پرکیف جھونکوں نے شہید کے گاؤں کو حصار میں لے
رکھاتھا اور ہر کوئی شہادت کے لہو کی مہک کو محسوس کررہا تھا۔ اس موقع پر
شہید کے والد نے جو مختصر سی تقریر کی اس نے فضا کو اور بھی گرما دیا ۔
جواں سال بیٹے کی جدائی کے باوجود ان کا حوصلہ بلند اور وطن کی محبت سے
سرشار تھا۔ اس بلند ہمت باپ نے کہا: ’’مجھے بیٹے کی جدائی کا دکھ ضرور ہے
مگر مجھے اس کی وطن کے لئے شہادت اور بھی اچھی لگی‘‘۔ اس دوران شہید کے
جسدِ خاکی کو وطن کی مٹی میں اتاردیا گیا۔سپاہی محمد عدنان شہید کو اس کی
بہادری کے صلے میں تمغہ بسالت کے اعزاز سے نوازا گیا جو شہید کے والد نے
وصول کیا۔ شہید کی آخری آرامگاہ پر سبز ہلالی پرچم جس شان سے لہرا رہا ہے
وہ اس گاؤں ، اس شہر اور اس ملک میں بسنے والے ہر شخص کے لئے باعث فخر ہے
اور ہم سب کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ سپاہی محمد عدنان جیسے ایسے کئی جوانوں
نے اس کی سربلندی کے لئے جو خدمات دیں ہیں، ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے
ہوئے اپنے وطن کی آزادی اور وقار کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں
گے۔
|