سعودی عرب:انصاف کا انوکھا فیصلہ اور ہمارانظامِ انصاف

سعودی عرب کے جنوبی شہر جازان میں چودہ سال سے قید قصاص کی منتظر خاتون قیدی کو قصاص کی حد نافذ ہونے سے چند لمحے قبل نئی زندگی مل گئی۔ جبارہ نامی خاتون کو چودہ سال پہلے نابالغ بچے کے قتل کے جرم میں گرفتار کیا گیاتھا۔جرم ثابت ہونے پر عدالت نے جبارہ کو قصاصا قتل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن مقتول کے ورثا کے سن رُشد تک نہ پہنچنے کی وجہ سے عدالت نے اس فیصلہ پر عملدرآمد مؤخر کردیا تھا۔فریقین کے مابین صلح کروانے والے ادارے کے نگران اعلیٰ کے بقول جبارہ اور مقتولین کے مابین مفاہمت کروانے میں جازان کے گورنر نے اہم کردا رکیا۔ان کی سفارش پر مقتول کے ورثاء نے جبارہ کو فی سبیل اللہ معاف کردیا ۔جبارہ چود ہ سال جیل میں قید رہی،اس دوران جبارہ نے قرآن کریم مکمل حفظ کیا۔نئی زندگی ملنے کے بعدجبارہ نے اپنے جرم پر ندامت کااظہار کیا اورمقتولین کے ورثاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کا یہ احسان کبھی نہیں بھولیں گی۔یاد رہے سعودی عرب دنیا میں واحد اسلامی ملک ہے جہاں شرعی حدود نافذ ہیں۔ان حدود کی وجہ سےسعودی عرب قلت ِجرائم کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔گزشتہ سال اکتوبر اور دسمبر میں بھی سعودی عرب کے شہر قطیف اور طائف میں قصاص سے چند لمحے قبل مقتول کے ورثا ء کی طرف سے قاتلین کو معاف کیا گیا تھا۔قرآن کے بیان کردہ قانون کے مطابق مقتول کے ورثاء کو قصا ص یاقصاص معاف کرکے دیت کا اختیار دیا گیا ہے۔سعودی عرب کی عدالتوں میں قرآن کے بیان کردہ اس قانون پر عمل کیا جاتاہے۔جب کہ عام لوگ قصاص کی بجائے خون بہا دے کر ملزم کی جان خلاصی کی کوشش کرتے ہیں۔بشرطیکہ مجرم عادی نہ ہو۔سعودی عرب کی قدیم روایت اس سلسلے میں یہ ہے کہ مجرم کے قبیلے والے مل کر دیت ادا کرتے ہیں۔سعودی شہریوں کے مطابق اس طرح اللہ کے حکم پر بھی عمل ہوجاتاہے اور مجرم کو اپنے گناہ سے توبہ تائب ہونے کا موقع بھی مل جاتاہے۔

ایک طرف سعودی عرب میں انصاف کی یہ صورتحال ہے کہ کمسن بچے کی موت کا سبب بننے پر خاتون کونہ صرف چودہ سال جیل کاٹنا پڑی بلکہ قصاص کی سزا بھی سنائی گئی ۔دوسری طرف ہمارانظام ِ انصاف ہے،جہاں اصلی مجرم کو یا تو پکڑا ہی نہیں جاتا یاپکڑ کر ضمانت اور دیگر حیلے بہانوں کے ذریعے سزا نہیں دلوائی جاتی ۔ہمارے نظام انصاف کا یہ حال ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ماورائے عدالتی قتل پاکستان میں ہوتے ہیں۔ہردوسرے دن خبر ملتی ہے کہ پولیس مقابلے میں دہشت گردوں کو ماردیا گیا۔جب کہ جن کو مارا جاتا ہے وہ پولیس کی تحویل میں ہوتے ہیں اورعدالتی طورپرانہیں دہشت گرد تک قرار نہیں دیا گیا ہوتا۔سوال یہ ہے کہ آخران بندھے ہوئے مجرموں کی آخر اتنی کیسے جرات ہوجاتی ہے کہ وہ پولیس سے مقابلہ کرنے لگ جائیں۔یہاں ایک منطق عام طور پر دہرائی جاتی ہے کہ مجرم کو چھڑوانے کے لیے مجرم کے حمایتیوں نے پولیس پر دھاوا بول دیا یوں پولیس نے مقابلے میں مجرم کو ماردیا۔حالاں کہ اس مقابلے میں عام طور پر کوئی پولیس والا نہیں مرتا۔پولیس کی اس قسم کی بہادری کی مثالوں سے ہمارے"نظامِ انصاف" کی تاریخ بھری پڑی ہے۔اس کی واضح مثال گزشتہ سال پولیس مقابلے میں ملک اسحاق اور ان کے بیٹوں کی شہادت ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ان جعلی پولیس مقابلوں کی کوئی تحقیق نہیں کی جاتی ۔جعلی پولیس مقابلے عام طور پر پنجاب اور سندھ میں زیادہ ہوتے ہیں۔ان پولیس مقابلوں میں عام طور پر مذہبی اور دین دار لوگ مارے جاتےہیں۔ان کا جرم بس اتنا ہوتا ہے کہ یہ لوگ دین اور اسلام سے والہانہ عقیدت اوراس کے لیے مر مٹنے تک کا جذبہ رکھتے ہیں۔اولا انہیں گرفتار کیا جاتاہے،بعدازاں جب عدالتیں انہیں بری کردیں،تو پولیس مقابلے میں انہیں ماردیاجاتاہے۔

ہمارے عدالتی نظام پر ایک اور کالک لاپتہ افراد کی ہے۔دنیا بھر میں پولیس مقابلوں کی طرح لاپتہ افراد کی تعداد بھی پاکستان میں بہت زیادہ ہے۔صرف بلوچستان میں 2007 سے 2016 تک چار ہزار کے لگ بھگ لوگوں کو لاپتہ کیا گیا۔پنجاب اور سندھ میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ جب بلوچستان میں ماورائے عدالت لوگوں کو قتل اور لاپتہ کیاجائے گا توپھر وہ کیسے پاکستان کے خلاف بات نہیں کریں گے؟۔ظلم وجبر کے پسے ہوئے لوگ کسی حدتک بھی جاسکتے ہیں،ایسے لوگ جب اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے تو پاکستان کی کیسے پراوہ کریں گے؟۔قبائلی علاقوں میں آپریشنوں میں بہت سے نہتے معصوم لوگ بھی مارے گئے۔ان کے یتیم بچوں نے اپنے مظلوم والدین کا بدلہ لینے کے لیے ریاست کے خلاف جو قدم اٹھائے وہ سب کے سامنے ہیں۔لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے والے کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند ماہ میں 93 کے قریب لاپتہ افراد کے کیس سامنے آئے ہیں۔ان میں سابق رکن اسمبلی مولانا اعظم طارق شہیدؒ کے بیٹے مولانا معاویہ اعظم بھی شامل ہیں۔مولانا معاویہ اعظم گزشتہ کئی ماہ سے لاپتہ ہیں۔کسی کو خبر نہیں کہ انہیں زمین نگل گئی ہے یاآسمان کھاگیا ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان کی بازیابی کے لیے"مولانا اعظم طارق شہید کے نام لیواؤں" کی طرف سے بھی ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔اپنوں کی اس بے وفائی کو مفادات اور لالچ کے سوابھلااور کیا نام دیا جاسکتاہے۔لال مسجد شہدافاؤنڈیشن البتہ اس سلسلے میں کوششیں کررہی ہے۔لیکن تنہاان کی کوششوں سے بھلا کیا ہوسکتاہے،جب تک کہ دیگر مقتدرمذہبی لیڈران اپنا ساتھ نہ دیں۔

بہرحال پولیس مقابلے ہوں یا لاپتہ افراد کا قضیہ ،یہ کسی مسلک یا گروہ یاجماعت کا مسئلہ نہیں ہے۔یہ مجموعی طور پر پورے پاکستان اور سارے عدالتی نظام کا مسئلہ ہے۔پوری قوم کو اس سلسلے میں یک زبان ہوکر پولیس مقابلے میں مارے جانے والے اور لاپتہ ہونے والے مظلوموں کےحق میں آواز اٹھانی چاہئے۔بالخصوص عدالتی حلقوں سے وابستہ افراد کو اس سلسلے میں سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔یہ ان کا فرض عین ہے کہ وہ انصاف کے لیے ہرقسم کی جدوجہد کریں۔حکومتی اور صحافتی اداروں کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔اس سلسلے میں پولیس مقابلوں اور لاپتہ افراد کے کیسوں کی روک تھام کے لیے ہمیں نظام ِ انصاف کو آسان اورعام عدالتوں کو آزاد کرنا ہوگا۔سول اور فوجی عدالتوں کی تفریق نظامِ انصاف کے لیےقطعادرست نہیں ہے۔کیوں کہ عدالتوں میں تفریق اور فوجی عدالتوں میں توسیع کاایک بڑا نقصان یہ ہے کہ لاپتہ افراد اورپولیس مقابلوں کو اس سے"حفاظتی حصار"مل سکتاہے۔ماضی میں لاپتہ افراد کے سلسلے میں فوجی اداروں کی سول عدالتوں میں بازپرس سے اس قضیے کو مزیدباآسانی سمجھا جاسکتاہے۔ پھرعام طور پر لاپتہ افراد کا الزام بھی مبینہ طور پر خفیہ اداروں پر عائد کیا جاتاہے۔سول عدالتوں میں مناسب پوچھ کچھ نہ ہونے کی وجہ سے انصاف کی ارزانی ہے تو فوجی عدالتوں میں شاید اس سے زیادہ انصاف مشکل ہوجائے۔اس لیے ہمیں بنیادی طور اپنے نظام ِ انصاف کو آزاد اور درست کرنا ہوگا،تاکہ غیر قانونی پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت مارے جانے والے اور لاپتہ کیے جانے والے مظلوموں کوانصاف مل سکے اور پاکستان بھی سعودی عرب کی طرح دنیا بھر میں نظام ِانصاف کے حوالے سے ایک روشن مثال بن جائے۔

Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 32124 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.