انسانیت کی اصلاح اور فلاح کے چراغ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
پوری دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے پاکستان ایسے صوفیا اور اولیاء کی سر زمین ہے جس نے اپنی زندگیاں اللہ کے بندوں کی بہتری کے لیے وقف کر دیں اور جن کی سوچ کا محور دھرتی کے تہہ سے پھوٹنے والی اقدار اور ثقافت سے جڑا رہا ہے۔ پاکستان میں بولی جانے والی سبھی زبانیں معرفت اور محبت کی زبانیں ہیں کیونکہ ان کا تعلق زمین کی قربت سے جڑا ہوا ہے۔ ان میں تخلیق ہونے والا ادب اپنے اندر ہر طبقہ فکر کے لوگوں کے لیے ایک روشن سمت کا تعین کر دیتا ہے۔ پنجاب کی دھرتی پر اللہ پاک کے خاص کرم سے ہر دور میں صاحب علم اور اللہ کی محبت سے شر سار صوفیا کرام کا ظہور ہوتا رہا ہے۔ ایسے صوفی جن کا ہر لفظ معرفت کا ایک سمندر تھا۔ اب اس معرفت سے لوگ اپنی استطاعت کے مطابق فیض حاصل کرتے تھے اور ایک سیدھی سادھی روا داری کی زندگی بسر کرتے تھے جس میں تمام فرقوں اور اقلیتوں کا احترام ہوتا تھا۔ پنجاب کی اس خوبصورت دھرتی پر لوگوں کو مل جل کر رہنے اور احترام آدمیت کا درس دینے والے آرام فرما ہیں اور ان کے لفظوں کی صورت ان کا فیض آج بھی جاری ہے۔ ان کا کلام ذہنوں پر ایسے اثر کرتا ہے کہ ہم ایک ان دیکھی محبت کی وادی میں پہنچ جاتے ہیں جہاں روح اور جسم میں فاصلہ نہیں رہتا یعنی نفس کی رکاوٹیں ختم ہو جاتی ہیں اور دل آئینہ خانہ بن جاتا ہے۔ روح ایک حقیقت ہے مگر ہم دنیا داری میں الجھ کر اس کے احکامات کو فراموش کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں امن و سکون ختم ہو جاتا ہے۔ صوفی وہ جوہری ہے جو نفس کے بت کو روح کے نور سے روشن کر دیتا ہے اور ان کی فکر ہمارے دلوں کے آس پاس بھٹکتے وہم و خیال کے آلودہ سائے دھونے کے فن سے بھی واقف ہے۔ یہ محبت کے پیامبر ایسے ہیرے ہیں جن کے دل کھوٹ اور آلودگی سے پاک ہوتے ہیں۔ انسانیت سے محبت کا درس ان کی پہلی ترجیع رہی ہے۔ کیونکہ خالق بھی اپنے بندوں سے یہی چاہتا ہے۔ ان کی کہی ہوئی ہر بات ہم اپنے دل کے قریب محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ ان کا کلام پڑھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے کلام سے ہمارے منتشر ذہن کو ایک سمت کی طرف گامزن کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس وقت ضرورت نئی ذہنی اور فکری تربیت کی بھی ہے۔ ان زہریلی خود رو جھاڑیوں کی معصوم ذہنوں سے صفائی صرف اور صرف صوفیاءکا پیغام ہی کر سکتا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس وہ علمی اور عملی ورثہ موجود ہے جسے مشعل راہ بنایا جا سکتا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران اپنے ورثہ کی تدریس و تعلیم پر متوجہ نہیں وہ بدیسی زبانوں کی تعلیم پر تو کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر اپنے اس تاریخی ورثہ کو تعلیم کا حصہ بنانے سے گریزاں ہیں پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں اور موجودہ ابتر حالات کو دیکھ کر تو ایک عام انسان کو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا لیکن یہ صوفیا تو پاکستان کے مستقبل کے متعلق ایسے ہوش ربا انکشافات کرتے نظر آتے ہیں کہ وقت ہی ان کا یقین دلا سکتا ہے۔ ذیل میں چند صوفیا کے کچھ انکشافات پیش کیے جاتے ہیں۔۔۔

عام طور پر ہم لوگ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کے بارے بات کرتے ہیں مگر اللہ والوں کو خدا الہام کی وہ دولت عطا کرتا ہے جس سے وہ مستقبل کی ایسی ایسی باتیں بیان کرنے کے اہل ہو جاتے ہیں جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں- در اصل یہ اسی علم کا ایک حصہ ہے جس کو قرآن میں علمِ لدنی فرمایا گیا ہے اور حدیث میں ارشاد ہوتا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اگرہم تاریخ کے وسیع دائرے پرنظرڈالیں،اوراق ماضی پلٹ کردیکھیں تواس دنیامیں ہمیں طرح طرح کے مصلحین دکھائی دیتے ہیں،شیریں مقال واعظ اورآتش بیاں خطیب سامنے آتے ہیں،بہت سے فلسفی ہردورمیں ملتے ہیں،وہ بادشاہ اورحکمران جنہوں نے عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں اوروہ جنگجوجنہوں نے ان گنت ممالک فتح کئے ان کی داستانیں ہم پڑھتے ہیں۔انقلابی طاقتیں ہماری نگاہوں میں آتی ہیں جنہوں نے نقش حیات کوباربارزیروزبرکیااورکتنے ہی مقنن تھے جوایوان تہذیب میں کارنامے دکھاچکے۔

لیکن جب ہم ان سب کی فتوحات،تعلیمات،کارناموں اوران کے پیداکردہ مجموعی نتائج کودیکھتے ہیں تواگرکہیں خیروفلاح اورلوگوں کی بھلائی دکھائی دیتی ہے تووہ جزوی قسم کی ہے،پھرخیروفلاح کے ساتھ طرح طرح کے مفاسدپائے جاتے ہیں لہذاان کااس کائنات اوراس کے باسیوں پرکوئی احسان نہیں ہے۔
 
تعلیمات صوفیاء کو ہم نے نظر انداز کر رکھا ہے اسی لیے ہم ہدایت کے راستوں سے بھٹک رہے ہیں۔ صوفیاء کی تعلیمات ہمیں گمراہی سے بچا سکتی ہیں۔ یہ صوفیاء کی تعلیمات ہی تو ہیں جنہوں نے ہر دور میں مسلمانوں کی مدد و رہنمائی کی ہے۔ صوفیاء کرام نے صبر، شکر، توکل، اللہ کی رضا اور خدمت خلق کی عظیم مثالیں قائم کیں۔ صوفیاء ہی تو امن کے سفیر ہیں اسی لیے تو اولیاء اللہ کی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی ہے۔ دہشت گرد سیدنا عبد القادری جیلانی اور دیگر بزرگان دین کی تعلیمات سے نہ صرف دور ہیں بلکہ تعلیمات صوفیاء کے اصل دشمن بھی ہیں۔ بزرگان دین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق انسانیت کی اصلاح اور فلاح کے چراغ جلائے۔آج کی طریقت و شریعت کا تقاضا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور سیدنا الشیخ عبد القادر جیلانی جیسی ہستیوں کو اپنا منبع اور رول ماڈل بنایا جائے۔ سب کو متحد و متفق ہو کر اور آپس میں تفریق کے سوالات کو ختم کر کے اصل قرار و چین اور غریب کے چہرے کی مسکراہٹ واپس لوٹانا ہے۔ اس کیلئے علماء و مشائخ کو تحریک پاکستان والا کردار دہرانا ہو گا۔ حجروں اور خانقاہوں سے باہر نکل کر رسم شبیری ادا کرنا ہو گیتعلیمات صوفیاء ہی دین اسلام کی اصل ہے۔ معاشرے کے امن کی بحالی کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بزرگان دین سے اپنی ذات کی نسبت کو پختہ کیا جائے۔ عاجزی، انکساری سے معاشرے میں محبت کی خوشبو پھیلے گی۔ جس دل میں محبت کا سمندر موجزن ہو جائے اس جسم سے سلامتی اور محبت کے رویے ہی جنم لے سکتے ہیں۔ ہمارا خانقاہی نظام اختلافات کا شکار ہو چکا۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ کا مقلد کہلانے کا حقدار وہ ہے جو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔حضور غوث الاعظم کا پیغام امن، محبت، استحکام اور انسانیت کا پیغام ہے۔ جب ہم حضور غوث پاک کی حیات مبارکہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں کا بھی خیال کرنا چاہیے۔ اہل تصوف کو فکر اقبال سے کوئی اختلاف نہیں۔ آج علامہ اقبال کے پیغام تصوف کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب لپ سروس سے کام نہیں چلے گا، فتنوں کے اس دور میں سلاسل تصوف کو قوم کی رہنمائی کا عملی کردار ادا کرنا ہو گا

M Attique Aslam
About the Author: M Attique Aslam Read More Articles by M Attique Aslam : 9 Articles with 6614 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.