کمسنی کا نکاح
(عبدالصبور شاکر, Toba take Singh)
کمسن لڑکی سے نکاح کرنا جائز جبکہ رخصتی کرنے میں والدین کو اختیار ہے، جدت پسندوں کی لن ترانیاں درست نہیں ہیں. |
|
قرب قیامت ، اپنے ساتھ کئی ایسے مسائل کو
جمع کر رہی ہے ، جنہیں آج سے کچھ عرصہ قبل متفق علیہ سمجھا جاتا تھا۔آجکل
نام نہاد انسانی حقوق یا حقوقِ نسواں کے عنوان سے وقتافوقتا ایسے خالص علمی
وتحقیقی،معاشرتی وتمدنی موضوعات کو انتہائی بے ڈھنگے اورجاہلانہ انداز سے
چھیڑا اوراچھالا جاتاہے کہ خالی الذہن اورعام آدمی ان کے دام تزویر میں آئے
بغیر نہیں رہ سکتا۔تہذیبِ مغرب کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھنے اوراس کو اندر
سے جھانکنے والے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ اُس معاشرے میں انسانیت اورخاص طور
صنفِ نازک کس کرب والم میں مبتلاء اورسسک رہی ہے،اس کے باوجود وہ لوگ سال
میں ایک ایک دن خاص موضوعات(جیسے مدر ڈے،خواتین کا عالمی دن،آبادی کا عالمی
دن،ماں اوربچے کا عالمی دن وغیرہ) کیلئے مختص کرکے انسانیت کے چیمپین بننے
کی کوشش کرتے ہیںہمارے ملک کا ایک مخصوص طبقہ بھی جانے انجانے میں انہی
خرافات میں پڑ کر نہ صرف یہ بھول جاتے ہیں اسلام نے انسانیت کو کس قدر
مساوات پر مبنی اور آفاقی حقوق عطاء کئے ہیںبلکہ بساوقات انہی نام
نہادانسانی حقوق کی آڑ میں شرعی مسلّمات پر بھی احمقانہ وجاہلانہ کج بحثیاں
شروع کردی جاتی ہیں۔حال ہی میں خواتین کے عالمی دن کے موقعہ پر پنجاب
اسمبلی نے کچھ قانون سازیاں کیں جن ایک شق کم عمری میں نکاح کی ممانعت بھی
شامل ہے جس کی روسے سولہ سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح کرنے والے والدین
اورنکاح خواںقیدوجرمانہ کے مستحق ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ اس قسم کے مسائل پر بحث
کرنے اورشرعی نقطہ نظر واضح کرنے کیلئے ہمارے ملک میں ’’اسلامی نظریاتی
کونسل‘‘کے نام سے ایک مستقل وفاقی ادارہ ہے اور قانون ساز اسمبلیاں اس بات
کی پابند ہیںکہ شرعی مسائل میں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف رجوع کریں اور
اس کی دی ہوئی سفارشات کو عملی جامہ پہنائیں۔لیکن بہت سے دیگراداروں کی طرح
اس ادارے کی حیثیت بھی نشتن ،گفتن اور برخاستن سے بڑھ کر نہیں ہے۔لہذا اگر
تو اس قسم کے قوانین اس مغربی معاشرے کی تقلید میں پاس کئے جارہے ہیں جہاں
سولہ سال سے کم عمر کا نکاح تو قابلِ سزاجرم ہے اور اگر پندرہ سالہ لڑکی
حرامکاری میں مرتکب ہوکر ماں بن جائے تو اسے مکمل ’’انسانی
آزادی‘‘اور’’انسانی حقوق ‘‘حاصل ہیں،پھر تو اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت
نہیں ہے اور اگراربابِ حل وعقد واقعتا بعض معاشرتی مسائل اورخرابیوں کو
سامنے رکھ کر ان کا سدِ باب کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس قسم کی قانون سازی سے
پہلے قرآن وسنت کی روشنی میں اس قسم کے مسائل کی اصل نوعیت کو واضح کرنا
ضروری ہے۔
دراصل یہ دو علیحدہ علیحدہ مسئلے ہیں، یعنی
۱۔سولہ سے کم عمر بچی کا نکاح
۲۔ سولہ سال سے کم عمر بچی کی رخصتی
گزارش ہے کہ پہلی صورت میں تو کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ سب علماء کا
اجماع ہے کہ سولہ سال سے کم عمر بچی کا نکاح منعقد ہو سکتا ہے۔(رحمۃ الامہ:
۲۶۳،۲۶۵) اور اس کی دلیل قرآن مجید کی آیت مبارکہ واللآئی لم یحضن (سورۃ
الطلاق:۴)ہے۔یعنی ’’اسی طرح وہ نابالغ لڑکیاں جنہیں ابھی ماہواری آنی شروع
ہی نہیں ہوئی، ان کی عدت بھی تین مہینے ہوگی۔ گویا کم سنی کا نکاح قرآن پاک
کی روشنی میں معیوب نہیں ہے،اگریہ معیوب چیز ہوتی تو اللہ تعالی اس کا حکم
ہی بیان نہ فرماتے۔
اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’فلما بین اللہ تعالی عدۃ
النساء اللاتی یحضن ۔۔۔۔۔ قام رجل آخر فقال ارأیت یا رسول اللہ فی اللآئی
لم یحضن للصغر ماعدتھن فنزل لم یحضن من الصغر فعدتھن ایضاثلاثۃ اشھر‘‘ جب
اللہ تعالی نے حائضہ عورتوں کی عدت بیان فرمائی تو ایک آدمی کھڑا ہوگیا اور
عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کا اس عورت کی عدت بارے کیا
خیال ہے جسے کم سنی کی وجہ سے حیض نہ آیا ہو تو یہ آیت مبارکہ واللآئی لم
یحضن نازل ہوئی۔کہ جن عورتوں کو صغر سنی کی وجہ سے حیض نہ آئے تو ان کی عدت
بھی تین مہینے ہے۔
قرآن مجید کے علاوہ حدیث مبارکہ سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ
امام بخاری رحمہ اللہ نے دو باب باندھے ہیں ،ایک باب ’’باب تزویج الصغار من
الکبار‘‘ ہے یعنی کم سن لڑکی کا بڑے آدمی سے نکاح کرناجس میں یہ حدیث
مبارکہ نقل کی ہے۔ ’’عن عروۃ رضی اللّٰہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم
خطب عائشۃ الی ابی بکر ، فقال لہ ابوبکر: انما انا اخوک، فقال انت اخی فی
دین اللہ وکتابہ وھی لی حلال‘‘ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ مانگا تو
انہوں نے عرض کی کہ میں تو آپ کا بھائی ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ تو میرا دین میں بھائی ہے ، اور عائشہ میرے لیے حلال
ہے‘‘۔ اور سب جانتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت صرف چھ
سال تھی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے باب کا عنوان یہ |
|