نظامِ تعلیم سے اُردو کی بے دخلی کی داستان(حصہ اول)

اردو زبان کی بے دخلی کی داستان
گذشتہ بیس سالوں سے بدقسمتی سے ہمارا نظامِ تعلیم طرح طرح کے تجربات کی آجگاہ بنا ہوا ہے ۔اچانک معلوم نہیں کہاں سے پالیسیاں نازل ہوتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے نفاذ کے مرحلے سے گذر جاتی ہیں ۔حالانکہ تعلیمی پالیسیاں ایک تسلسل کا تقاضا کرتی ہیں۔نصاب میں ایک لفظ بھی بدلنا ہو تووسیع تر مشاورت ضروری ہوتی ہے ۔اُس ایک لفظ کے بدلنے کو فوائد و نقصانات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے ۔ زبان وبیان کی بحث اور جرح سے اس لفظ کو گذارا جاتا ہے ۔ نفسیات کے جملہ اصولوں پر پرکھا جاتا ہے کہ کہیں یہ لفظ کسی نفسیاتی پیچیدگی کا باعث نہ بنے ۔ تدریس کے مسلّمہ قواعد کی روشنی میں جائزہ لیا جاتا ہے کہ کہیں یہ لفظ بچوں کی ذہینی سطح سے بلند تو نہیں ۔ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ اس تبدیل شدہ لفظ کا ماحول میں کتنا فہم موجود ہے ۔ کہیں اس لفظ کی جڑیں زبان و ادب سے کٹی ہوئی تو نہیں ہیں۔ نصاب و تدریس کا یہ اصول کہ یہ دونوں عوامل(نصاب اور تدریس) کا مرکز و محور بچہ ہوتا ہے ، کہیں اس قاعدے کی نفی تو نہیں ہو رہی ؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے امور مدِ نظر رکھنا پڑتے ہیں۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد آئیے اپنے موضوع اور مدعا کی طرف آتے ہیں۔

میاں شہباز شریف کا اُردو پر پہلا حملہ اور اُس کا نتیجہ: تقریباً ڈیڑھ عشرہ پہلے جنرل پرویز مشرف کے کو کے وقت پنجاب میں جناب شہباز شریف صاحب وزیرِ اعلیٰ کے منصب پر فائز تھے ۔ وزارتِ اعلیٰ کے اُس دور میں پورے پنجاب میں شعبہ تعلیم میں ایک تجربہ کیا گیا۔ اس تجربے کے تحت پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں میں تمام بڑے بڑے سکولوں میں انگلش میڈیم کلاسیں شروع کی گئیں اور ان کلاسوں کو "ماڈل کلاسوں" کے نام سے موسوم کیا گیااور ان میں دی جانے والی انگلش میڈیم تعلیم کو " معیاری تعلیم " مشتہر کیا گیا۔سربراہانِ ادارہ کو سرکاری اختیار ات کے ذریعے مجبور کر کے ان کلاسوں کو شروع کیا گیا۔ابتدائی چند ماہ پڑھنے کے بعد اکثر طالب علموں نے انگلش میڈیم چھوڑ کر اردو میڈیم مضامین دوبارہ اختیار کر لیے ۔ ایک سال میں اتنی بڑی تعداد انگریزی میڈیم سے منحرف ہو گئی کہ پنجاب میں کہیں کہیں انگلش میڈیم کلاسیں باقی رہ گئیں۔ ایک بھاری اکثریت دوبارہ اردو میڈیم میں پڑھنے لگی۔ بغیر کسی مشاورت ، سروے اور تحقیقی عمل کے شروع کیا گیا یہ عمل اپنی موت آپ مر گیا۔ حکومتوں کی طرف سے جب اچانک اس طرح کے منصوبے رو بہ عمل لائے جاتے ہیں تو ان کے پیچھے کئی محرکات ہوتے ہیں۔ ایک تو غیر ملکی امداد ہے جو گھُن کی طرح ہمارے نظامِ تعلیم کوچاٹ رہی ہے ۔ اس میں حکمرانوں کے ذاتی مفادات بھی شامل ہوتے ہیں اور دوسری چیز حکمرانوں کا رویہ ہے جو جمہوری لبادے میں آمریت کا ہوتاہے ۔ جو جی چاہا کر گذرے چاہے کئی نسلوں کو اس کی قیمت کیوں چکانا پڑے ۔بہر حال اس تجربے کے ناکام ہونے پر کسی نے پنجاب حکومت کو نہیں پوچھا کہ اتنا پیسہ ، وقت اور صلاحتیں ایک ناکام تجربے کی نذر کیوں کی گئیں؟اگر حکمران اشرافیہ کو کسی باز پُرس کا خوف ہو تو یہ کسی بھی تبدیلی سے پہلے اس کے مثبت و منفی پہلووں کی بابت وسیع تر مشاورت کر ے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم عوام اپنے حکمرانوں کے جمہوری رویے دیکھنے کو ترس گئے ہیں ۔بہر حال مذکورہ ناکامی اپنے پیچھے کئی نتائج چھوڑ گئی۔ پہلا نتیجہ یہ کہ انگلش میڈیم بنائے جانے والے ماڈل کلاس رومز کو طلبا و طالبات نے اپنے فطری میلان و رجحان کی عکاسی کرتے ہوئے چھوڑ کر دوبارہ اردو میڈیم کلاسوں کا رخ کر لیا۔طلبا و طالبات کے اس فطری رجحان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیم میں بہتری کے لیے بہت سا کام کیا جا سکتا تھا۔مثلاً ایف ایس سی بھی اردو میں شروع کر دی جاتی اور مرحلہ وار اگلی کلاسوں کے نصاب کوبھی اردو کے سانچے میں ڈھال کر نافذ کر نے کے اقدامات کیے جاتے۔ قوم کی اکثریت کا یہ رجحان اس بات کا تقاضا بھی کرتا تھا کہ اشرافیہ کے انگلش میڈیم سکولوں کو قوم کے مجموعی میلان کے تحت قومی دھارے میں لایا جاتا اور قومی زبان میں تعلیم کے ذریعے امیر اور غریب کو پڑھنے کے یکساں مواقع دیے جاتے۔جس زبان میں اکثریت کو تعلیم حاصل کرنا آسان ہو اسی زبان میں اشرافیہ کی ایک چھوٹی سی اقلیت کو بھی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا جاتامگر وہ کچھ ہوگیاجس کو کوئی اپنی چشمِ تصور میں بھی لانا نہ چاہتا ہو گا۔

شہباز شریف کا انگریزی تسلّط کا ایک اور جبرِ مسلسل: جناب شہباز شریف صاحب کی وزارتِ اعلیٰ کے اسی دور میں ایک اور انقلابِ معکوس پیدا کرنے والا کارنامہ انجام دیا گیاجس کے منفی نتائج نے ابتدائی تعلیم کو اور زیادہ مشکل ، پیچیدہ اور گھمبیر بنا دیا۔ وہ کارنامہ ہے انگریزی کا پہلی جماعت سے بحثیتِ مضمون شروع کیا جانا۔قبلِ ازیں انگریزی چھٹی جماعت سے شروع ہوتی تھی ۔ چھٹی جماعت تک پہنچتے پہنچتے بچہ عمر اور ذہنی و جسمانی قویٰ کے اعتبار سے کسی حد تک پختہ ہو چکا ہوتا تھا۔ اس کے باوجود اس پر چھٹی جماعت میں اے بی سی ، چند سادہ سادہ جملے اور ہولڈر کے ساتھ بڑی چھوٹی اے بی سی کی لکھائی کا بوجھ ہوتا تھا۔بچہ یہ بوجھ کسی قدر آسانی سے اُٹھا سکتا تھا اور زیادہ نفسیاتی پیچیدگیوں کا باعث نہیں بنتا تھا۔اُس وقت پڑھنے والے طلبا و طالبات اردو اور انگریزی دونوں میں آج کی نسبت زیادہ مہارت رکھتے تھے ۔ مگر ہمارا یہ المیہ ہے تعلیم جیسے حساس شعبے میں فردِ واحد کی سوچ اور اس کے مفادات کے تابع جھٹ سے بڑی بڑی تبدیلیوں کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے چاہے اس سے نسلوں کا مستقبل داوا پر لگ جائے ۔ان تبدیلیوں کے پیچھے ہماری حکمران اشرافیہ اور بیرونی سامراجی طاقتوں کا مشترکہ مفادات کا ایجنڈا ہوتاہے ۔ وہ یہ کہ لوگوں کو بڑی تعداد میں تعلیم نہ حاصل کرنے دو تاکہ ان میں سیاسی اور اپنے حقوق کا شعور نہ آئے ۔ ان کی سیاست میں ان کی اجارہ داری قائم رہے ۔مثال کے طور پر اگر ہمارے ہاں تعلیمی صورتِحال اس قدر بہتر ہو جائے کہ ہماری کل آبادی کا دس فیصد گریجویشن کر جائے تو بھی نئی نسل نئی قیادت کے ذریعے ان کے اقتدار کو چیلنج کر سکتی ہے مگر بدقسمتی سے ایٹمی پاکستان میں بمشکل ایک فیصدلوگ گریجوایشن تک پہنچتے ہیں ۔ اس سے پہلے کی تعلیم کی صورت حال تو اس سے بھی خراب ہے۔اگر ہم ایٹمی طاقت میں ساتویں نمبر پر ہیں تو تعلیم میں 187 ویں نمبر پر کیوں ہیں؟معیار اور مقدار کے لحاظ سے اس قدر کم تعلیم رکھنے والی عوام کو یہ حکمران اشرافیہ آسانی سے بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔اس میں سامراجی طاقتوں کا یہ مفاد ہے کہ وہ ان حکمرانوں کے ذریعے پاکستان کو اپنا دستِ نگر رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ ایسے منصوبے جو لوگوں کو پڑھنے لکھنے میں رکاوٹیں پیدا کریں ان کے پسندیدہ منصوبے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعے قوموں کو ان پڑھ ، مقروض ، بھکاری اور غلام بنانا آسان ہوتا ہے ۔قوموں کی صلاحیتوں کو دبا کر یہ دونوں اپنے اپنے مفادات پورے کرتے ہیں۔ آج تو ان دونوں کا گٹھ جوڑ بآسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔ مگر عام لوگ اس گٹھ جوڑ اور اس کے نقصانات سے بے خبر رہتے ہیں اور ان کی جہالت سے دونوں کے مشترکہ مقاصد بطریقِ احسن پورے ہو جاتے ہیں ۔

یہی سوچ اور گٹھ جوڑ انگریزی کو پہلی جماعت سے شروع کرنے کے پیچھے کارفرما ہے ۔ اس کام کو شروع کرنے کے لیے جناب شہباز شریف صاحب نے انگلش ٹیچرز بھرتی کرنا شروع کیے۔پنجاب میں ابھی کم و بیش پچاس فیصد پرائمری سکولوں میں انگلش ٹیچرز بھرتی ہوئے تھے اور ان سکولوں میں انگریزی پہلی جماعت سے شروع ہو پائی تھی کہ پرویز مشرف کا " کو" ہو گیا اور شہباز شریف صاحب کی جگہ پرویز الٰہی صاحب اور ان کے مصاحبین عقل و خرد کے بخیے ادھیڑنے میدان میں آگئے۔پرویز الٰہی کی عاقبت نا اندیشی یا نسلِ نو پراِک نئے انداز کا ظُلم: ناچیز 2005 میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ٹبہ سلطان پور تحصیل میلسی ضلع وہاڑی پنجاب میں تدریسی فرائض ادا کر رہا تھا کہ ایک عجیب واقعہ رونما ہوا ۔ ہوا یوں کہ پنجاب کے تمام سکولوں میں انگریزی لازمی کر دی گئی چاہے وہاں انگلش ٹیچر ہو یا نہ ہو۔اگر یہ فیصلہ صحیح تھا تو شہباز شریف صاحب کا انگلش ٹیچرز بھرتی کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ اگر بغیر انگلش ٹیچر کے انگریزی پڑھائی جا سکتی تھی تو کیوں انگلش ٹیچروں کو بڑی تعداد میں بھرتی کیا گیا اور پھر اس منصوبے کو پرویز ا لٰہی صاحب نے ادھورا چھوڑ کر اس کا رُخ ہی بدل دیا ۔ اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ انگریزی تمام کلاسوں میں بیک وقت شروع کر دی گئی اور ایسے طریقے سے شروع کی گئی کہ دنیا بھر کے جہلا کو مات دے دی گئی۔ 2005 میں ہمارے ہائر سیکنڈری سکول میں جتنے بھی چھٹی جماعت میں داخلے ہوئے وہ قرب و جوار کے پرائمری یا مڈل سکولوں سے آئے ہوئے بچوں کے تھے جو پہلی سے پانچویں جماعت بغیر انگریزی کے پڑھ کر آئے تھے ۔ چھٹی جماعت میں آتے ہی ان کو چھٹے مرحلے کی انگریزی کی کتاب تھما دی گئی ۔ معلوم ہوا کہ انگریزی اب لازمی اس انداز سے کی گئی ہے کہ کسی بھی تدریجی عمل کا خیال نہیں رکھا گیا۔آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جن بچوں نے ابھی ABC نہیں پڑھی اُنہیں چھٹے مرحلے (چھٹی جماعت)کی انگریزی کی کتاب پڑھانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ بچے پہلے پانچ مراحل کی انگریزی پڑھیں گے تو تب جا کر چھٹے مرحلے کی کتاب ان کو دی جا سکتی ہے۔اساتذہ میں پریشانی اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔مگر پالیسیوں کے سامنے بے بس اساتذہ نے اُسی کتاب کو پڑھانے میں غنیمت جانی۔ یہ کام پورے پنجاب میں اکثر سکولوں میں ہوا۔ اساتذہ اب بچے کو پہلی جماعت کی ABC پڑھائیں یا چھٹی جماعت کی براہِ راست کتاب ؟۔کیا کوئی استاد ایسا کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔ ایسی صورتِ حال میں کسی بھی استاد کے لیے چھٹی جماعت کی براہِ راست انگریزی پڑھانا ممکن نہ تھا۔ ان دنوں اساتذہ کو مختلف ٹریننگ کورسوں میں ڈرایا دھمکایا جاتا رہا کہ جو استاد بھی پالیسیوں سے اختلاف کرے گا وہ ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔اساتذہ اس خوف سے احتجاج سے باز رہے۔جناب شہباز شریف کی ابتدائی انگریزی لازمی کرنے، منتخب سکولوں کو انگلش میڈیم بنانے کے ناکام تجربے اور اب پرویز الٰہی صاحب کے عاقبت نا اندیش طریقہ کارنے سرکاری سکولوں کی پشت میں ایک طرح کا خنجر گھونپ دیا۔آج واویلا کیا جا رہا ہے کہ سرکاری سکول ناکام ہو رہے ہیں ۔ ان میں اساتذہ پڑھاتے نہیں ہیں ۔حقیقت پر پردہ ڈال کر اساتذہ کو بدنام کرنے کی مذموم کوششیں سوچے سمجھے سازشی انداز سے کی جا رہی ہیں۔آگے کی تعلیمی پالیسیوں میں تبدیلی کی صورتِ حال اور بھی خطرناک نقشہ پیش کر رہی ہے جس کا ذکر آنے کو ہے ۔

یہاں پر ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ مذکورہ اقسام کی ناقابلِ فہم تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے ہمارے حکمران اس قدر عجلت میں کیوں آمادہ ہو جاتے ہیں۔بات صاف سی ہے ان کی تربیّت حبّ الوطنی اور اخلاص کے ماحول میں نہیں ہوئی ۔محب وطن شخص ممکن ہی نہیں کہ وہ ایسی نسل کُش تبدیلیوں کے لیے آمادہ ہو جائے ۔ان میں سے بیشتر کی تعلیم و تربیت بھی اشرافیہ کے تعلیمی اداروں میں ہی ہوئی ہوتی ہے۔جہاں ان کو کسی غریب کے پاس بیٹھنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ایک ہی قبیل کے بچے ایک خاص ماحول میں پرورش پا کر عام ماحول کے مسائل سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں؟دوسری بات یہ کہ ان کے مشیربھی بیرونی این جی اوز کے لوگ ہوتے ہیں جو ان کو امداد دیتے ہیں۔اس امداد کی آڑ میں نہ جانے کس طرح خفیہ انداز سے ان کو نوازا جاتا ہوگا۔تاریخ بتاتی ہے کہ زن ، زر ، زمین کی ہمہ پہلو ترغیبات ان کو اپنی مرضی کی پالیسیوں پر عمل کرانے کے لیے دی جاتی رہی ہیں۔ اب بھی بنیادی اُصول یہی ہے جو سامراجی طاقتیں استعمال کر رہی ہیں۔ان کی روز افزوں بڑھتی ہوئی جائیدادوں میں اس طرح دی جانے والی سامراجی امداد بھی شامل ہے۔اس کی روک تھام کے لیے ہمارے آئین میں عوامی حقوق کی ایک زبردست شق ہے جو کہ معلومات تک رسائی کا حق ہر شہری کو دیتی ہے۔اس کی دفعہ 19-Aکے مطابق " ہر شہری کو مفادِ عامہ کے تمام امور کی بابت معلومات تک رسائی کا حق ہے ۔ بشرطیکہ یہ قانونی ضابطہ اور مناسب پابندیوں کے تابع ہو" اس شق کے تحت ہر شہری کو حق ہے کہ اس کا وزیرِ اعلیٰ ، وزیرِ اعظم ، صدریا دیگر سرکاری شخصیات کے ان امور کی بابت جان سکے کہ دیگر ممالک یا ان کی این جی اوز سے وہ کیا معاہدے کرتے ہیں ؟ان کا متن اردو میں اس شخص کو دیا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جن تبدیلیوں کا رونا روتے ہیں وہ انہی این جی اوز سے معاہدوں کے نتیجے میں ہی رونما ہوئی ہیں مگر ہمیں ان معاہدوں کی ا صل حقیقت اور ان کے متن تک رسائی نہیں۔اساتذہ ، وکلاء و دیگر ابا شعور افرادِ معاشرہ کو بالاتفاق ان کے متن تک رسائی کا پر زور مطالبہ کرنا چاہیے۔اگر متن عام لوگوں کو مل جائے تو ان کامحاسبہ مختلف محاذوں پر کرنا آسان ہو جائے۔صوبوں نے الگ سے معلومات تک رسائی کا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت کوئی بھی شخص کسی بھی اَمر کی بابت اپنی سرکار سے معلومات لینے کا حق رکھتا ہے۔مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے محبِ وطن پاکستانیوں کو اپنے حکمرانوں کے نام نہاد معاہدوں کو منظرِ عام پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

پرویز الٰہی کا اُردو بدری کا ایک بڑا منصوبہ: مرکز میں پرویز مشرف صدر ، شوکت عزیز وزیرِ اعظم اور زبیدہ جلال وزیرِ تعلیم تینوں نے سامراجی طاقتوں کے تعلیم دُشمن منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اُن کے ساتھ خوب تعاون کیا اور اِ دھر پنجاب میں اُن کے قاف لیگ کے قائد پرویز الٰہی نے اُن کے منصوبوں کی سب سے بڑے صوبے میں تکمیل کے لیے بھرپور تعاون کیا۔چنانچہ بڑے پیمانے پر اساتذہ کے تربیتی کورسز کروانے کا منصوبہ بنایا گیا جس کے لیے عالمی بینک ، ایشیائی ترقیاتی بینک ، امریکہ ، برطانیہ ، آسٹریلیا ، جرمنی وغیرہ ممالک کی این جی اوز نے تربیت کے ان منصوبوں میں دل کھول کر امداد کی جس میں کافی رقم قرض کی بھی شامل تھی۔اِن تربیتی پروگراموں کا مقصد جو تبدیل شدہ نصاب وہ لانا چاہ رہے تھے اُسے معیاری باور کروانا اور اس کے نفاذ کے لیے دماغی غسل(brain washing) دینا مقصود تھا۔ چنانچہ سب سے زیادہ اور بڑی تبدیلی سائنسی نصاب میں کی گئی جس کو ہر ممکن طریقے سے ناقابلِ فہم بنایا گیا۔اساتذہ کے پڑھانے اور طلبا ء و طالبات کے لیے سمجھنے ، پڑھنے ، لکھنے ، بیان کرنے میں مشکلات پیدا کر دی گئیں جس کا جزوی اقرار پنجاب ٹیکسٹ بک نے بھی کیا ہے جسے آگے چل کر بیان کیا جائے گا۔مذکورہ تربیتی کورسز میں نئے تباہ شدہ نصاب کو معیاری نصاب کے طور پر متعارف کروایا گیا ۔جس طرح کسی اشتہاری مہم کے ذریعے ایک سو روپے کی چیز کو ایک ہزار روپے میں بیچا جا سکتا ہے اسی طرح پڑھے لکھے پنجاب کی ریڈیو ، ٹی وی ، اخبارات و رسائل کے ذریعے نئے تباہ کن اور رٹہ پرور نصاب کو معیاری بنا کر پیش کیا گیا۔یہ بات یاد رکھئے کہ جب تک سامراجی طاقتوں نے اپنی مرضی کے مطابق نصاب کو نہیں ڈھال لیا مفت کتابوں کی فراہمی کے لیے رقم دینے کا معاہدہ نہیں کیا۔جس طرح دشمن کے ساتھ جنگ میں دھواں چھوڑ کر کاروائی کی جاتی ہے یہی حربہ تلبیس(kameoflauge) کا پنجاب کی عوام ، اساتذہ اور طلباء و طالبات کو نصابی زہر کی گولی نگلنے پر آمادہ کرنے کے لییاختیار کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے وفاقی اور صوبائی تعلیمی وزارتوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں ۔ پھر یوں ہوا کہ سامراجی مہروں نے جو کرنا تھا وہ کر گذرے۔

2004 میں میں اپنے والد کے ساتھ ٹوکے پر چارہ کتر رہا تھا ۔ ہمارے پاس ریڈیو پاکستان ملتان چل رہا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہم نے کوئی بیس منٹ میں چارہ کترا ہوگا ۔ اس دورانیہ میں ریڈیو پر چھ دفعہ پڑھے لکھے پنجاب کا اشتہار چلایا گیا۔سامراجی طاقتیں اپنے مُہروں کو تبدیل شدہ نصاب اور دیگر مطلوبہ مقاصد پورے کرنے کے لیے اشتہاری فنڈ بھی دل کھول کر دیتی ہیں ۔
 
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.