تبلیغی جماعت کا کام کسی تعارف کا
محتاج نہیں ہے۔ جماعت کی محنت کے اثرات کا مشاہدہ ہراقل مندانسان کھلی
آنکھوں سے کر سکتا ہے۔یہ عظیم تحریک پوری دنیا کے ہر اس علاقہ تک پہنچ گئی
جہاں مسلمان بستے ہوں۔ ان دین کے خادموں کا مقصد اور بنیادی دعوت یہ ہے کہ
تمام امت ِ دعوت اسلام قبول کر کے اﷲ جلّ شانہ کے سایہ رحمت میں آ جائے اور
تمام امت اجابت یعنی امت مسلمہ میں وہ ایمان اور ایمان والی زندگی عام ہو
جائے جس کی دعوت لے کر رسول اﷲ ﷺتشریف لائے تھے۔ اور قرآن مجید میں جس کا
مطالبہ اس آیت میں کیا گیا ہے۔ترجمہ’’اے لوگو جوایمان لائے ہو ․․․․داخل ہو
جا ؤ اسلا م میں پورے کے پو رے‘‘(البقرہ۲۰۸)
تبلیغی جماعت کسی نئے نظریہ یا کسی نئے مقصد کی داعی نہیں، وہ تو صرف اپنی
اور امت کی اصلاح کے لیے محنت اور قربانی کی دعوت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
دوسری تنظیموں اور انجمنوں کی طرح اس تحریک کا کوئی دستور یا منشورنہیں،
کوئی دفتر یا رجسٹر نہیں اور نہ ہی کوئی ممبر یا عہدیدار ہے، یہاں تک کہ اس
کا کوئی جداگانہ نام تک نہ رکھا گیا۔ حضرت مولانا الیاس رحمہ اﷲ فرمایا
کرتے تھے کہ یہ نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ ہم نے نہیں رکھا۔ہم تو بس کام کرنا
چاہتے تھے، اس کاکوئی خاص نام رکھنے کی ضرورت بھی نہ سمجھی تھی۔ لوگ کام
کرنے والوں کو تبلیغی جماعت کہنے لگے، پھر یہ اتنا مشہور ہوا کہ ہم خود بھی
کہنے لگے۔اسی طرح جماعت والے اپنی کارگزاریوں کی بھی بالکل شہرت نہیں چاہتے
بلکہ اپنے کام کے لیے اخبار یا رسالہ نکالنے یا اشتہار و پمفلٹ کے ذریعہ
اپنی بات پہنچانے کے وہ بالکل قائل نہیں!․․․․مگر اس کے باوجودکام کاثمر
جونکلاوہ سب کے سامنے ہے۔یورپ اور افریقہ کے وہ علاقے جہاں پورے ملک میں
چندمسجدیں ہوا کرتی تھیں، وہاں جماعت کی محنت کو اﷲ نے قبول فرمایا اور آج
سینکڑوں مساجد ہیں اور کافی ساتھی ایسے ہیں جن کے ہاتھ پر آسٹریلیا اور
افریقہ میں ہزاروں ایسے لوگ دوبارہ دائرہ اسلا م میں داخل ہوئے، جو عیسائی
اور قادیانی جماعتوں کے دجل و فریب کا شکار ہو کر گمراہ ہو گئے تھے، لیکن
آپ نے کبھی ان کارناموں کے اشتہار نہیں دیکھے ہوں گے، کیوں کہ حضرت مولانا
الیاس دہلوی رحمہ اﷲ نے اپنے کام کا ڈھانچا اخلاص کی بنیاد پر اٹھایا تھا
اور یہاں تک دعافرمایا کرتے تھے کہ اے اﷲ! اس کام کو کرامات کی بنیاد پر نہ
چلائیے گا۔اس جماعت میں ہر شخص اپنا خرچہ خود اٹھاتا ہے، ان میں وہ بھی
ہوتے ہیں جولاکھوں خرچ کر سکتے ہیں اور آخرت کے اجرو ثواب کی امید پر خرچ
بھی کرتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو وہ سامان
سر پر رکھ کر مہینوں کے لیے پیدل نکل پڑتے ہیں۔تبلیغی جماعت والے ان لوگوں
کے پاس بھی گئے جنہیں کبھی کسی نے اس نظر سے نہیں دیکھا کہ وہ بھی اﷲ کے
بندے اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت میں سے ہیں۔ یہاں تک کہ خواجہ
سرا اور ناچنے گانے والوں کو بھی دعوت دی گئی!اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان گنت
سعید روحوں نے اس دعوت پر لبیک کہا اور یوں تبلیغی جماعت کو ہر شعبہ زندگی
سے تعلق رکھنے والے داعی مل گئے جو مختلف صلاحیتوں اور استعداد کے مالک
تھے۔یہ جماعتیں گویا چلتی پھرتی تربیت گاہیں و خانقاہیں ہیں۔ اس کے ذریعے
کچھ بھی نہ ہو تو کم ازکم دین کے لیے تکلیفیں اٹھانے اور اپنا مال دین کے
لیے خرچ کرنے کی عادت پڑتی ہے اور دوسروں کی اصلاح ہو یا نہ ہو اپنی اصلاح
کی فکر ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔غرض تبلیغی جماعت کا مقصد دین کی طلب کو عام
کرنا ہے، جس سے مدارس کو طلبہ کثرت سے ملتے رہیں اور خانقاہوں کو ذاکرین
ملیں اور ہر عام مسلمان کے دل میں دین کی اہمیت پیدا ہوتی چلی جائے۔ اپنی
اور پوری امت کی اصلاح کسے کرنا ہیں اس ہی سلسلے میں کراچی کے علاقے اورنگی
ٹاؤن میں تین روزہ اجتماع شروع ہوئے آج دوسرا دن ہے ۔جبکہ اتوار صبح نو بجے
دعا کے ساتھ اجتماع اختتام پزیر ہو جائیگا اور ہزاروں قافلے ملک بھر میں
انسانوں کی اصلاح کیلئے دس روزہ، چالیس روزہ،چار ماہ اور سال بھر کیلئے نکل
جائینگے۔ اس اجتماع میں لگ بگ چھ سے سات لاکھ آفراد شرکت کرینگے ۔یہ اجتماع
ہر سال منعقد ہوتا ہیں ۔اس کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اجتماع کے ختم ہونے کے
بعد لاکھوں کی تعداد میں جب فرزندان اسلام ایک ساتھ نکل تے ہے نہ تو ٹریفک
جام ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اور مسلۂ بن تھا ہیں ۔ٹریفک کے نظام کو قابو
کرنے کیلئے نہ تو ٹریفک پولیس ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی مشینری ہر طرف
پانی اور شربت کے سبیلوں پر رش ہونے کے باواجود مذہبی جماعتوں بل خصوص
اہلسنت والجماعت کے کارکنان احسن طریقوں سے ٹریفک کا نظام سنبال تھے ہیں۔
پینڈال میں بیک وقت کم و بیش ساڑھے چار لاکھ آفراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔
اجتماع گاہ میں داخل ہونے کیلئے دس سے ذاید گیٹ بنائیے گیئے ہیں ۔چار
پارکینگ ایریا جس میں ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں اور موٹرسائکل کھڑی کی
جاسکتی ہے ۔ تبلیغی اجتماع‘‘ میں لاکھوں افراد کی شرکت کے باوجود یہاں ہر
کوئی عاجز ی و انکساری کا مجسم نظر آئے گا۔ تبلیغی اجتماع میں ملکی، سرحدی،
صوبائی امتیازات، قومی لسانی تعصبات اور گروہ بندیاں سب یہاں خاک میں مل
جاتے ہیں۔ امیر و غریب، حاکم و محکوم، پنجابی و پٹھان، بلوچی و سندھی، گورا
ہو یا کالا، عربی ہو یاعجمی، رنگ و نسل کے اختلافات سے بے نیاز ہو کر اﷲ
تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور سجدہ ریز ہو کر پوری دنیا کے مسلمانوں کی اصلاح،
امت کے ایک ایک فرد کو جنت کی طرف لے جانے، غلبہ اسلام، خلافت راشدہ کے
مقدس نظام کے عملی نفاذ، کشمیر وعراق، شام، افغانستان و فلسطین، برما ویمن
سمیت دیگر ملکوں کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی و کامیابی، حرمین شریفین کے
تحفظ، وطن عزیز کی سالمیّت و استحکام، دین کیلئے دُعا گواور اپنے گناہوں سے
توبہ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ان تمام باتوں کے بعد اب آتے ہے ارباب اختیار
کی طرف سندھ میں اگر عیسیٰوں کاکرسمس ہو توسندھ حکومت جہاں جہاں کرسچنوں کی
ابادی ہو وہاں پر روڈ ہویا گلی سب کو سی سی یا کارپیٹ کیا جاتا ہے ،مگر آپ
یہاں اجتماع گاہ کی چار وں اتراف دیکھے نگے تو دنگ رہجائینگے،اگر آپ کٹی
پہاڑی کی طرف سے جائینگے تو منگھو پیر روڈ اور وہاں سے ایم پی آر کالونی کے
روڈکا وہ بُرا حال ہے جس کی کوئی تصوربھی نہیں کرسکتا ،اگر نیاناظم آباد
اور پختون آباد کی طرف سے جاؤگے تو وہاں اس بھی بُرا حال ہے اور اورنگی
ساڑھے تیرا کچھ بہتر ہے ۔ہمارے سندھ کے وزیر اعلیٰ صاحب جو اپنے قائد کے
ساتھ ہندوں کی دوالی میں شرکت کرسکتے ہے تو کیا وہ اب تبلیغی اجتماع میں
شریک ہونگے کیا؟دس محرم کو کراچی میں جتنی سیکورٹی دی جاتی ہے کیا اجتماع
کو اتنی دی جائیگی ؟ہمارے حکومت صرف اقلیت پر ہی توجہ دیتی ہیں ،اکسریت کو
یک دم تنہا چھوڑ دیا جبکہ ملک کے نظام کو چلانے کیلئے ٹیکس کی ادائیگی
اکسریتی تبقہ دیا کرتا ہیں۔ارباب اختیار کی ناقس اورغلط پالسیوں سے عوام
شدید پریشان ہے ،اﷲ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت نصیب کریں اور اجتماع کے تمام
شرکا ء کو اپنے حفظ و امان میں رکیں (آمین) |