تحریر۔سردار محمد طاہر تبسم
گوجرانوالہ جب بھی اسلام آباد سے گھر آتاہوتا تو اپنے بے حد قریبی دوست
حکیم سجاد حسین کو ملنے بھابھڑہ بازار میں واقع سجاد دواخانہ ضرور جاتا اس
مرتبہ گیا تو وہاں تالا لگا ہوا تھا ساتھ والے دکاندار سے دریافت کیا تو وہ
بولے حکیم سجاد حسین فوت ہو گئے ہیں تب سے دوا خانہ بند ہے ۔اس خبر نے میرے
اوسان خطا کر دئیے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرا جواں عزم دوست اک دم
ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جائے گا میرا سجاد سے تعلق تب سے ہے جب ہم
گورنمنٹ ایف سی ہائی سکول میں چھٹی کلاس میں پڑھتے تھے وہ ایک نفیس ،درد
مند ،ملنسار اور خوش ذوق شخص تھا اسلام اور پاکستان کے ساتھ پاکستان کے
ساتھ بے حد لگاؤ اور محبت تھی ہم دونوں میٹرک کرنے کے بعد اسلامیہ کالج
گوجرانوالہ داخل ہوئے تو وہاں ایک متحرک اور مضبوط گروپ قائم کیا جس کے
ذریعے کئی فلاحی و تعلیمی کام کئے پانچ سال تک سٹوڈنٹس یونین ہمارے گروپ کے
دوستوں کے پاس رہی اس وقت کالج کی سیاست میں نوید انور نوید اور سلیمان
کھوکھر آمنے سامنے تھے دونوں بلا کے مقرر اور ذہین لیڈر تھے ہمارے گروپ نے
سلیمان کھوکھر کی حمایت کی ۔سجاد حسین اسلامیات سوسائٹی کا جائنٹ سیکرٹری
اور میں علامہ اقبال سوسائٹی کا جنرل سیکرٹری منتخب ہوا ۔اگلے سال سجاد
سٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکرٹری بنا اور میں ٹٹوریل گروپ کا نائب صدر اور
کالج میگزین کارواں کا ڈپٹی ایڈیٹر ہو گیا ۔سجاد کالج یونین کا صدر بھی
منتخب ہوا ۔اس دوران ہمارے گروپ کے خان محمد رفیق خان یونین کے جنرل
سیکرٹری بنے سید آفتاب رضوی نے بھی جائنٹ سیکرٹری کا مقابلہ کیا ۔ہمارے
گروپ کے اہم اراکین میں میاں علیم ظفر ،آصف صدیقی ،صفدر ترابی ،سلیم کمبوہ
،ماجد خان ،مسعود اقبال ،محمد ریاض ،چوہدری یونس ،چوہدری اکبر اور کئی
تعلیمی ریکارڈ رکھنے والے دوست تھے جو ہمیشہ یونین اور سوسائیٹیوں کے روح
رواں رہے ۔سجاد حسین کے والد محترم حکیم سیف الرحمن لدھیانوی کا شمار شہر
کے معروف حکما ء میں ہوتا تھا ۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی سجاد حسین نے بھی
خاندانی پیشے کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور نیشنل طبی کونسل سے فاضل طب
وجراحت کی ڈگری حاصل کر کے 1987 میں سجاد دواخانہ کی بنیاد رکھی ۔وہ سالٹ
ڈیلرز ایسوسی ایشن کے بھی صدر رہے ۔وہ 1993 سے تا وقت مرگ انجمن تاجران
بھابھڑہ بازار کے مسلسل صدر رہے ۔انہوں نے 1994 میں سماجی وفلاحی تنظیم
خدمت انسانیت قائم کی ۔وہ خدائی خدمت گار جذبے کے مالک تھے اور فلاح عامہ
کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔موصوف 1993 میں مرکزی انجمن تاجران
گوجرانوالہ کے بھی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور تاجر برادری کے کئی درینہ
مسائل حل کروائے ۔ حکیم سجاد حسین نے اپنے شعبہ طب میں بڑی ناموری پائی ۔اپنے
دواخانہ کی میر پور آزاد کشمیر ،فیصل آباد،ملتان،پشاور،راولپنڈیاور کراچی
میں بھی برانچز قائم کیں اور ہر ماہ مقررہ تاریخوں میں واہاں مریضوں کی مفت
تشخیص کر کے دوائی تجویز کرتے تھے ۔انہوں نے اپنی کئی ایورودک پراڈکٹس بھی
شروع کیں اور بڑے کامیاب رہے مرحوم کی این جی او نے زلزلہ ،سیلاب ،آفات،سماوی
عرس اور تبلیغی اجتماعات میں میڈیکل کیمپس لگا کر مفت ادویات تقسیم کیں وہ
دواکانہ میں بھی مستحق نادار اور غریب مریضوں کا مفت علاج کرتے ۔ ان کی
تنظیم نے عید میلادالنبیﷺ رمضان المبارک ،محرم الحرام،عیدین اور دیگر
ہنگامی مواقعوں پر ہمیشہ ضلعی انتظامیہ کی بھر پور مدد کی اور بلا معاوضہ
رضاکار مہیا کئے ۔ضلعی انتظامیہ نے انہیں 1999 میں ضلعی سماجی رابطہ کونسل
کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا ۔حکیم سجاد حسین درجنوں صوبائی ،ڈویژنل اور ضلعی
سرکاری کمیٹیوں کے ایک عرصہ سے ممبر چلے آرہے تھے ضلعہ کے اعلیٰ حکام نے
سرکاری ایوارڈ کے لئے بھی حکیم سجاد حسین کا نام بھیجا لیکن ان کی زندگی
میں یہ اعزاز انہیں نہیں مل سکا ۔لیکن ایسے انمول افراد کی سرکاری سطح پر
حوصلہ افزائی بے حد ضروری ہے پاکستان سوشل ایسوسی ایشن نے ان کی خدمات کے
اعتراف میں ستارہ سماج دیا تھا ۔حکیم سجاد ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک اور
ادارہ تھے ۔انہیں کچھ عرصہ قبل فالج کا حملہ ہوا لیکن اس کے باوجود وہ
باقاعدگی سے مطب آتے تھے ان کی موت ایک بڑا سانحہ ہے ان کے کچھ حاسدین خوش
ہونگے لیکن انہیں جان لینا چاہیے کہ حکیم سجاد دوسرا پیدا نہیں ہو گا ۔وہ
ہمارے ملک کا ایک درخشندہ ستارہ ہے جو اوجھل ہو کہ بھی اپنی روشنی بکھیرتا
رہے گا ۔ |