سوشل میڈیا کا استعمال!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
بات کی اہمیت صرف اس لئے ہی نہیں کہ
یہ امام کعبہ نے کہی، ہاں امامِ کعبہ کے کہنے سے بات کی اہمیت میں مزید
اضافہ ہو جاتا ہے، اس لئے کہ وہ دنیا میں اہم ترین مقام پر اہم ترین ذمہ
داری پر فائز ہیں، وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے نہایت محترم مقام و
مرتبے کے حامل ہیں۔ امام کعبہ الشیخ ڈاکٹر سعود الشریم نے کہا ہے کہ’’․․․
مسلمان تقویٰ اختیار کریں، اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کو اپنا شعار
بنائیں۔ سوشل میڈیا نے لوگوں میں شعور اور بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار
ادا کیا ہے، مگر اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس نے اسلامی اور معاشرتی روایات
کو تباہ کردیا ہے، مال و دولت اور جدید ترقی یافتہ آلات اﷲ تعالیٰ کی
نعمتوں میں شامل ہیں، مگر ان کا غلط استعمال تباہ کن ثابت ہو رہا ہے ․․․۔‘‘
فکر انگیزی کے یہ الفاظ و جذبات امام کعبہ کے ہی نہیں، ہر ذی ہوش اور حساس
دل رکھنے والا فرد سوشل میڈیا پر یہی تبصرہ کرتا ہے۔ یوں جانئے کہ امامِ
کعبہ نے عام آدمی کے نظریات کی تائید کرکے اس کے خیالات کو تقویت دی ہے۔
تین دہائیا ں قبل تک ٹیلی فون لگوانا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا،
لوگ درخواست گزارنے کے بعد سالہا سال انتظار کرتے تھے، تب جا کر ان کی باری
آتی تھی، پھر ممبرانِ اسمبلی کو بھی کوٹا ملنے لگا، معزز ممبر جس فرد کو
سال کے آغاز میں سال کے آخر کا ٹیلی فون کا کوٹا دے دیتے وہ خوشی سے پھولا
نہیں سماتا، قلابازیاں لگاتا گھر جاتا تھا۔
جو کچھ اب دیکھنے میں آرہا ہے، اُس زمانے میں اس کا تصور محال تھا۔ سائنس
نے بڑی تیزی سے کروٹ بدلی ہے، آئی ٹی نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،
اب وقت ایسا آ چکا ہے کہ انسان یہ کہنے پر مجبور ہے کہ سائنس کی ایجادات کا
سلسلہ جاری ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے، کوئی انہونی ایجاد بھی سامنے آسکتی ہے۔
موجودہ دور میں انٹرنیٹ نے جو دنیا کو گلوبل ویلیج بنایا تھا، اب اس میں
مزید ترقی ہو چکی ہے، اب موبائل فون پر ہی پورا دنیا کو ایک کلک پر دیکھا
اور سنا جا سکتا ہے، جس سے آپ بات کرنا چاہیں، براہِ راست باتصویر باتیں کر
سکتے ہیں۔ یہ سہولت کسی نعمت سے کم نہیں، جیسا کہ امام کعبہ نے بھی کہا کہ
مال و دولت اور جدید آلات اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، تواصل مسئلہ ان کے
استعمال کا ہے۔ اگر اس آلے کو اپنے کام،ضروری رابطے اور کاروبار وغیر ہ کے
لئے استعمال کیا جائے تو یہ ایک نعمت ہے، اور اگر اسے غلط رابطوں، دوسروں
کو تنگ کرنے اور بلیک میل کرنے جیسے معاملات میں استعمال کیا جائے تو یہ
دوسروں کے لئے بھی عذاب ہے۔ بات صرف تنگ کرنے تک محدود نہیں رہتی، بلکہ
سماجی رابطوں کی یہ کہانی بہت دور تک سفر کر جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام
آباد میں رات کے پچھلے پہر ناکے پر قتل ہونے والے تیمور کی ساتھی لڑکی سے
فیس بک پر ہی دوستی ہوئی تھی۔ فیس بک کی یہ دوستی بہت آگے تک چلی جاتی ہے،
سماجی رابطے یہاں تک بھی بڑھ جاتے ہیں کہ ہم اخبارات اور ٹی وی پر خبریں
پڑھتے اور سنتے ہیں کہ جاپان سے لڑکی پاکستان کے کسی پسماندہ علاقہ میں آتی
ہے اور کسی فیس بک فرینڈ سے شادی رچاتی ہے۔ مگر شادی رچانے کی خبر کم اور
لڑکی کو خراب کرنے کی واردات زیادہ ہوتی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی ٹی وی
چینلز پر ایک جاپان سے آئی ہوئی ایک لڑکی اپنے پاکستانی بوائے فرینڈ کو
تلاش کر رہی تھی، جو اس کا مال بٹور کر منظر سے غائب ہو چکا تھا۔
غیر ملکی لڑکیوں کو متاثر کرلینے والا کام وطنِ عزیز میں بھی پورے زور وشور
سے ہو رہا ہے، سڑکوں، پارکوں اور ہوٹلوں میں ایسی بے شمار جوڑیاں موجود
ہوتی ہیں، جو گھر والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کسی اور راستے پر چل
پڑتے ہیں، ایسے راستے جن کی منزلوں کی انہیں خود خبر نہیں ہوتی۔ زیادہ تر
مسافر راستوں میں ہی بھٹک کر رہ جاتے ہیں اور اپنی زندگی کو ہمیشہ کے لئے
داغدار کرکے حسرتوں کو اپنے ہاں مہمان ٹھہرا لیتے ہیں۔ ان رابطوں سے
خاندانی نظام بھی تباہ ہوتا ہے، مذہبی اور اخلاقی اقدار بھی دم توڑتی ہیں
اور پوری نسل کی تباہی کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس
ہوں یا موبائل پر دیگر سہولتیں، والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نگاہ
رکھیں، تاکہ وہ کسی بھی نادیدہ تباہی سے بچ سکیں، مگر صدمہ اور ستم یہ ہے
کہ بات چھوٹوں کی بجائے بڑوں تک پہنچ چکی ہے۔
|
|