25 جنوری 2017ء کی صبح اخبارات دیکھ رہا تھا کہ میری نظر
ایک ایسی خبر پر پڑھی جس نے مجھے چونکا دیا۔ میں چند لمحوں کے لئے سکتے کی
کیفیت میں چلا گیا۔ خبر ضلع چکوال کے ایک گاؤں کھودے کے 26 سالہ نوجوان
محمد قاسم ولد ابرار حسین کی تھی جس کو اُس کے ایک دوست بابر ولد محمد علی
نے ایک کتے کی خاطر بے دردی سے قتل کر دیا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر ہم
کس طرف جا رہے ہیں۔ کیا ایک کتے کی اہمیت انسانیت سے بڑھ گئی ہے۔ ہماری
نوجوان نسل کس ڈگر پر چل پڑی ہے۔ آخر کب تک ہم اس طرح زندگی گذارتے رہیں گے۔
آج ہمارے دائیں بائیں انسانوں کو پیٹ بھرنے کے لئے کچھ میسر نہیں۔ انسان
غربت سے تنگ آکر اپنے معصوم چاند جیسے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے پر
مجبور ہیں۔ انسان اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہو چکا۔ لوگ بھیک مانگ رہے ہیں
مگر دُوسری طرف 50 ہزار سے لے کر 2 لاکھ تک کتے خریدے جا رہے ہیں۔ کتوں کو
دیسی گھی سے بنی روٹیاں کھلائی جا رہی ہیں۔ کتوں کو روزانہ شیمپو سے نہلایا
جا رہا ہے۔ ان کی خاطر تواضع کے لئے ملازم رکھے جا رہے ہیں۔ کتوں کو مہنگی
گاڑیوں میں سفر کرایا جا رہا ہے۔ کتوں کے بہت بڑے بڑے کلب بن گئے ہیں۔ ان
کو دوبئی، سعودیہ، ہانگ کانگ اور لندن سے سپانسر کیا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل
کتوں کی شوقین بن گئی ہے اور اس شوق میں اتنی اندھی ہو گئی ہے کہ اب ان کو
کچھ نظر نہیں آرہا۔ ایک دوست اپنے دیرینہ دوست کی جان لے رہا ہے۔ آخر ہم
اتنے جذباتی کیونکر ہو گئے ہیں۔ آخر ہم کب تک اس طرح کی روش رکھیں گے۔
علامہ اقبالؒ نے نوجوانوں کو شاہین کہا تھا مگر آج علامہ اقبالؒ کا شاہین
کس راستے پر چل پڑا ہے۔ ان کو کیا کرنا چاہئے تھا مگر یہ کیا کر رہے ہیں۔
میں نے جب یہ خبر پڑھی تو میں اسلام آباد میں تھا۔ میں نے دُوسرے دن اپنی
گاڑی نکالی اور سیدھا چکوال مقتول قاسم کے گاؤں کھودے پہنچا۔ میں نے قاسم
کے خاندان سے ملاقا ت کی، وہ محنت مزدوری کرتا ہے۔ اُس کی مایوسی کھلی کتاب
کی طرح نظر آرہی تھی۔ قاسم کے والد جب اپنے لخت جگر کی باتیں کر رہے تھے تو
اُن کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سمندر نظر آرہا تھا۔ قاسم کا بھائی بھی
اُن کے پاس بیٹھ کر اپنے بھائی کی باتیں بتا رہا تھا۔ مجھے قاسم کی تصویریں
دکھائی گئیں۔ گاؤں کے کافی سارے لوگ اکٹھے ہو گئے، وہ سب قاسم کی تعریفیں
کر رہے تھے۔ دل بہت پریشان ہوا، سوچا کہ آخر یہ کب تک ہوتا رہے گا۔ ہماری
نوجوان نسل کو کیا ہو گیا ہے، نوجوان نسل کو دین اسلام سے قربت بڑھانی
چاہئے۔ دین سے لو لگانی چاہئے مگر ہماری نوجوان نسل بے راہ روی پر چل پڑی
ہے۔ مختلف طرح کے نشوں میں لت پت ہو چکی ہے۔ آج کے نوجوان کا آئیڈیل عامر
خان، شاہ رُخ خان اور سلمان خان بن چکے ہیں۔ ان کا آئیڈیل تو محمد بن قاسم،
خالد بن ولید ہونا چاہئے تھا۔ ان کو ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ نوجوان نسل
کی زندگی کا ایک مقصد ہے، آخر آج کے نوجوان کب تک اس طرح کی ڈگر پر چلتا
رہے گا۔ اب ذرا سوچیں کہ قاسم تو اپنے والدین سے دُور چلا گیا، اس کو قتل
کرنے والا بھی باقی زندگی جیل میں گذارے گام اس سے حاصل کیا ہوا۔ انتہائی
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کے علمائے کرام کو اپنے خطبہ جمعہ میں نوجوان
نسل کو مخاطب کر کے اصلاح کرنی چاہئے مگر ہمارے علمائے کرام بھی فرقہ واریت
سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کرتے۔ کاش علمائے کرام دین کے تقاضوں کے مطابق
نوجوان نسل کو بے راہ روی سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرتے تو یقینا اس کے
دُور رس نتائج سامنے آتے۔ اس وقت نوجوان نسل کو درست سمت پر لگانے کی ضرورت
ہے۔ آج نوجوان نسل ایسے مشاغل میں پڑ چکی ہے کہ اس میں وقت اور پیسے کا
ضیاع نظر آتا ہے۔ آج نوجوان نسل کو پاکستان کے لئے قیمتی اثاثہ بننے کی
ضرورت ہے مگر یہ قیمتی اثاثہ بننے کی بجائے معاشرے کا ناسور بنتی جا رہی ہے۔
اس وقت اگر کسی بھی خاندان میں کوئی نوجوان اچھی سمت پر چل رہا ہے تو یہ
والدین کی خوش بختی ہو گی ورنہ آج کا نوجوان قرآن سے دُور ہو چکا ہے۔ مسجد
میں جانا اس کو پسند نہیں اور بے راہ روی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔ جب
اس طرح کے مشاغل ہوں گے پھر یقینا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو گا۔ ذرا ایک
لمحے کے لئے سوچیں کہ قاسم کے بوڑھے والدین کی اب بقیہ زندگی کیسے گذرے گی۔
اُن کے لئے ایک ایک لمحہ صدیوں پر محیط ہو گا۔ کاش اس طرح کے مشاغل کرنے سے
پہلے قاسم سوچ لیتا تو شاید آج اُس کے والدین کو اتنی بڑی سزا نہ کاٹنی
پڑتی۔ میں سوچتا ہوں کہ نوجوان نسل کا ون ویلنگ پسندیدہ شوق بن چکا ہے۔ اس
شوق نے نجانے کتنے گھروں کو زندہ لاش بنا دیا ہے۔ نوجوان نسل گھر سے باہر
نکلتی ہے تو پھر والدین کی آنکھوں سے دُور اس طرح کے شوق پال رکھے ہیں جو
قطعی طور پر قابل قبول نہیں ہیں، لیکن جب والدین کو ایسی افسوسناک خبریں
سننے کو ملتی ہیں تو پھر اُن کی بقیہ زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ والدین
انتہائی مشکل حالات میں اپنے بچوں کو بڑا کرتے ہیں اور ایک ایک لمحے کا
انتظار کرتے ہیں کہ کب اُن کے بچے بڑے ہوں گے اور اُن کا سہارا بنیں گے مگر
جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو وہ سہارا بننے کی بجائے والدین کو ایسا دُکھ دے
جاتے ہیں کہ اُن کے لئے قابل برداشت نہیں رہتا اور اُن کے لئے باقی زندگی
قیامت سے بڑھ کر نظر آتی ہے۔ کاش نوجوان نسل اپنا محاسبہ کر لے اور یہ سوچ
لے کہ اُن کی زندگی کا ایک مقصد ہے اور اگر اُس زندگی کو اپنے مقصد کے
مطابق گذاریں تو یقینا اس کے اچھے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ زندگی کو گذارنے
کے دو طریقے ہوا کرتے ہیں۔ ایک طریقہ وہ ہوتا ہے جس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا
لیکن ایک طریقہ وہ ہوتا ہے جس کا عظیم مقصد ہوتا ہے جیسے حضرت امام حسینؓ
نے اپنی جان دے کر اپنی زندگی کا عظیم تر مقصد حاصل کیا۔ کیا آج کی نوجوان
نسل کو حضرت امام حسینؓ کو اپنا آئیڈیل نہیں بنانا چاہئے۔ مجھے پورا یقین
ہے کہ میرے اس کالم سے نوجوان نسل کو اپنا محاسبہ کرنے میں آسانی ہو گی اور
یقینی طور پر والدین کو بھی اپنے بچوں پر مضبوط نگاہ رکھنی چاہئے اس سے
یقینا معاشرے کو بے راہ روی سے بچانے میں بہت مدد ملے گی۔ کاش نوجوان نسل
قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا شروع کر دے تو یقینی طور پر اُن کی زندگی میں
ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور اس سے یقینا اُن کی زندگی بامقصد زندگی بن
سکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭ |