کوچہ فنا

میں حیرت سے اپنے سامنے بیٹھے ارب پتی جو ڑے کو دیکھ رہا تھا میاں بیوی نے سوال ہی ایسا کیا تھا میں پچھلے دو عشروں میں ہزاروں لوگوں سے مل چکا ہوں لیکن ایسا سوال آج تک کسی نے بھی نہیں کیا تھا جو اِس دولت مند جو ڑے نے کیا تھا اِس میں کو ئی شک نہیں کہ میرے ملنے والوں میں اکثریت خو فزدہ لوگوں کی ہو تی ہے مادیت پرستی میں غرق حضرت انسان نے مختلف قسم کے خوف پال رکھے ہیں خدا سے دوری نے انسان کو مختلف دنیا وی جھوٹے خداؤں کے سامنے ما تھے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے توکل اور یقین انسان کو جھوٹے خو فوں اور جھوٹے خداؤں سے آزاد کر دیتا ہے لیکن چونکہ ما دیت پرستی انسان کی ہڈیوں تک سرائیت کر چکی ہے اِس لیے انسان توکل اوریقین کی نعمت سے محروم ہو چکا ہے لیکن یہ جو ڑا مختلف قسم کے خوف میں مبتلا تھا اِن کے پاس خدا کی ہر نعمت موجود تھی روپے پیسے کی اتنی زیادہ ریل پیل کہ دولت کے بل بو تے پریہ دنیا کی مہنگی سے مہنگی چیز آسانی سے خریدنے کی پوزیشن میں تھے ارب پتی ہو نے پر خدا کا شکر کر نے کی بجا ئے عجیب خو ف میں مبتلا ہو گئے تھے میرے پاس جب یہ آئے تو میں اِن کو بھی معمول کا کیس سمجھا لیکن جب انہوں نے یہ سوا ل کیاکہ ہما رے پاس بے پنا ہ دولت ہے اتنی زیا دہ دولت کے ہما ری سات نسلیں بیٹھ کر بھی کھا ئیں تو ختم نہیں ہو گی بے پنا ہ دولت کی وجہ سے ہما رے پاس دنیا کی ہر نعمت مو جود ہے ہم دنیا کے ہر ملک میں آسانی سے جا کر شاپنگ کر سکتے ہیں عام انسان جس پر تعیش زندگی کا صرف خواب دیکھ سکتا ہے وہ سب کچھ اِن کے قدموں میں ڈھیر ہو چکا تھا سوا ل انہوں نے یہ کیاکہ پروفیسر صاحب ہمیں کوئی پرابلم نہیں ہے ہما ری زندگی میں کوئی کمی نہیں ہے ہمیں اب خدا سے کچھ بھی نہیں چاہیے ہمیں ایسی دعا بتا ئیں کہ ہم اب اِس بے پنا ہ دولت سے لطف اندوز ہو سکیں ہم اِس دولت کو اب خرچ کر سکیں ہمیں نظر نہ لگ جا ئے ہم بیما ر نہ ہو جا ئیں ہم کسی مشکل یا حادثے کا شکا ر نہ ہو جا ئیں ہم اب زیا دہ دیر تک زندہ رہنا چاہتے ہیں ہم بڑے سے بڑے مہنگے سے مہنگے ڈاکٹر سے علا ج کروا سکتے ہیں ہم اب مر نا نہیں چاہتے ہم اگر جلدی مر گئے تو لو گ ہما ری دولت کھا جا ئیں گے میں حیران پریشان بے بس ارب پتی جو ڑے کو دیکھ رہا تھا جو ارب پتی ہو نے کے با وجود خو د عدم تحفظ کا شکا ر ہو چکے تھے مجھے ان پر ترس آرہا تھا آخر میں نے اُنہیں کہا زیا دہ سے زیا دہ غریب لوگوں پر خرچ کریں تا کہ اﷲ تعالی کو آپ پر ترس آئے پھر چند دعائیں بتا کر اُنہیں رخصت کر دیا لیکن میں حیرت سے سوچ رہا تھا کہ انسان اِس گلشن حیات میں اپنی زندگی کو خوبصورت با معنی اور پر تعیش بنا نے کے لیے بچپن سے بڑھا پے تک شب و روز مصروف رہتا ہے پہلی عمر میں جو سیکھتا ہے وہ دولت اکٹھی کر نے پر لگاتا ہے دولت جمع کر نے کی بھا گ دوڑ میں وہ بلکل یہ بھولا ہو تا ہے کہ وہ روزانہ اپنے دوستوں رشتہ داروں کے جنا زے پڑھتا ہے اپنے ہا تھوں اُن کو قبروں میں اُتارتا ہے انسان کے سامنے اُس کے احباب آخری ہچکی لے کر جان خدا کے سپرد کر دیتے ہیں دن رات موت جنا زے قبریں دیکھنے کے با وجود اُس کے دل و دما غ میں حرکت نہیں ہوتی کہ کل مجھے بھی مٹی کے نیچے دبا دیا جا ئے گا سوم چہلم کرانے کے بعد رفتہ رفتہ سب بھول جا ئیں گے انسان ساری عمر موت سے نظریں چراتا رہتا ہے لیکن آخر وہ گھڑی بھی آجا تی ہے جب اِس کا بھی کو چہ ء فنا کی طرف سفر ہو گا ۔ ’’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جا ئے گا جب لاد چلے گا بنجا را‘‘عام لوگوں کی طرح بڑے لوگوں کو بھی مو ت کے غار میں اترنا ہی پڑتا ہے زندہ انسان دوران زندگی کتنے منصوبے بناتا ہے کچھ تکمیل کو پہنچتے ہیں کچھ آرزوئیں تشنہ اور حسرتیں نا تمام رہ جا تی ہیں جب کو ئی شخص مرض الموت میں مبتلا ہو تا ہے دنیا سے رخصت ہو نے کا وقت قریب آتا ہے تو اُس کے دل و دما غ میں کشمکش بر پا ہوتی ہے یہ مر نے والے کوہی پتہ ہو تی ہے جو اِس میں مبتلا ہو تا ہے بلا شبہ رضا ئے الٰہی کے رنگ میں رنگے لوگوں کی آخری کیفیت بھی شان دارہو تی ہیں وہ مر تے نہیں بلکہ نئی زندگی پا رہے ہو تے ہیں اِس لیے اِن کے لیے لفظ مرنا نہیں بلکہ انتقال یا وصال استعمال ہو تا ہے یعنی یہ عظیم لو گ اِس دنیا فانی سے دوسری دنیا میں منتقل ہو رہے ہو تے ہیں اپنے خالق کے ساتھ وصال کی منزل سے ہمکنار ہو رہے ہو تے ہیں مر نے والا کیسا سوچتا ہے یہ تو کسی کو نہیں پتہ تا ہم کچھ کلمات جملے اورنصیحتیں خوا ہشیں ویران ہو تی آنکھوں اور خاموش ہو نٹوں سے چھلک پر تی ہیں جن کی ایک جھلک آپ کی نظر ہے ۔ حضرت علی ؓ نے آخری وقت اپنے صاحبزادوں حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسین ؓ کو بلا کر فرمایا میں تم دونوں کو تقوی کی ایسی وصیت کر تا ہوں یتیم پر رحم کھانا بے کس کی مدد کر نا آخرت کے لیے عمل کرنا ظالم کے دشمن بننا اور مظلوم کی حما یت کر نا ۔حضرت عمر فاروق ؓ کے آخری فقرے یہ تھے میں اپنے جانشین کو وصیت کر تا ہوں کہ وہ غیر مسلم رعایا کے لیے اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کی ذمہ داری کو یا درکھے ان سے جو وعدے کئے گئے ہیں ہمیشہ پو رے کئے جا ئیں دشمنوں سے ان کی حفاظت کی جائے ان پر کبھی سختی نہ کی جا ئے ۔ شاہ بغداد حضرت عبدالقادر جیلا نی ؒ نے نو ے برس کی عمر میں آخری لمحات میں فرمایا آخری وقت کمزوری کے سبب آوازنہیں سنا ئی دے رہی تھی آپ کے بیٹے نے دیکھا کہ زیر لب کچھ بو لنے کی کو شش کر رہے ہیں کان لگا کر سنا تو ’’ توحید تو حید ‘‘ فرما رہے تھے اورنگ زیب عالمگیر نے آخری لمحات میں اپنے بیٹے کو وصیت کی ۔ ’’اپنی مخلوق کا حقیقی حا فظ اور نا صر اﷲ تعالی ہے لیکن نظر بظاہر اے میرے فرزندتو خلق خدا کی خو نریزی کا سبب مت بننا ۔ مہا تما بدھ نے آخری وقت اپنے چاہنے والوں کو یہ نصیحت کی ۔ یہ با ت کبھی نہ بھو لنا کہ زوال تما م چیزوں میں مو روثی ہے ۔ سکندر اعظم کی جب آخری گھڑیا ں آئیں تو وزیروں نے پو چھا آپ یہ سب کچھ کس کے لیے چھو ڑے جا رہے ہیں تو زندگی بھر تلوا ر کی زبان استعمال کر نے والے فاتح نے جواب دیا تم میں سے سب سے زیا دہ طاقت رکھنے والے کے لیے ۔جولئیس سنیرر نے بڑی شان و شوکت سے حکمرانی کی اورمسند اقتدار کے نشے میں دوستوں دشمنوں کی تمیز بھی نہ رہی آخری دن وہ اسمبلی حا ل میں اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کر نے والا تھا کہ ٹیلٹس نامی شخص آیا اور اپنے بھا ئی کی جلا وطنی کی درخواست پیش کی کہ یہ حکم واپس لیا جا ئے سنیر ر نے متکبرانہ انداز سے کہا یہ مو قع ایسی درخواستوں کا نہیں سائل بار بار اصرار کر نے لگا تو بعض قانونی ماہرین نے بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملا ئی کچھ نے مخا لفت میں آواز بلند کی شور مچ گیا سب اٹھ کھڑے ہو ئے سیزر پر حملہ کر دیا گیا ایک شخص کیشش نے چہرے پر خنجر پیوست کر دیا سنیرر نے پیچھے دیکھاتو بروٹس خنجر گھو نپ رہا تھا تو فوری طور پر سیزر کے منہ سے نکلا ’’اوہ بروٹس تم بھی ‘‘ یہ آخری فقرہ تھا انگریزی ادب میں ’’you too Brutus‘‘ جب بھی بو لا جا تا ہے تو سنرر کے ساتھ ہو نے والا حادثہ نظروں میں گھو م جا تا ہے یہ ایک تاریخی جملہ اپنا خا ص پس منظر رکھتا ہے غداری میں عالمگیر شہرت پیدا کر نے والے اسی بروٹس نے اپنے ہی ہا تھوں اپنی ہی زندگی یہ کہہ کر لے لی ۔اے نامراد بہا دری تیری حقیقت ناموری اور شہرت کے سوا کچھ بھی نہیں پھر بھی تجھے ایک حقیقی چیز سمجھ کر تیری پر ستش کر تا رہا لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ تو صرف تقدیرکی ایک لو نڈی تھی ۔ مشہور انگریزی شاعر اورسیا ستدان فلپ سڈنی نے آخری لمحات میں کیا خو ب جملہ کیا ۔ ’’حقیقی خو شی حاصل کر نے کے لیے روئے زمین کی ساری دولت سلطنت بھی دینا پڑے تو یہ سودا مہنگا نہیں اِس کو چہء فنا میں ایک سے بڑھ کر ایک انسان فنا ہو تا چلا گیا اور پھر نسل ِ انسانی کے سب سے بڑے انسان سردار الانبیاء سرور دو جہاں محبوب خدا ﷺ نے آخری لمحات میں آسمان کی طرف انگشتِ شہا دت کا رخ کیا اور فرمایا ۔ ’’میں اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف جا رہا ہوں‘‘۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735908 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.