الحمداللہ رب العالمین
گزشتہ کئی ہفتوں بلکہ شائد مہینوں سے ہماری ویب پر کچھ زیادہ پیش کرنے سے
اپنے آپ کو معذور پاتا رہا پھر سوچا کہ چلو کچھ تو سلسلہ جاری رکھوں اور
سردست سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس کے نتیجے میں بے شمار انسانوں کو پیش
آنے والے مسائل کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ جتنا ہوسکا وہ تو کرتے ہی رہنا ہے
مگر چلیں جی تحریر بھی شروع کردیں کہ سیکھنے اور سکھانے اور جاننے کا عمل
تو جاری رہنا چاہیے۔
حالیہ دنوں میں بارش و سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کے نتیجے میں بے
شمار انسان مملکت عزیز میں بے پناہ مصائب اور پریشانیوں کا شکار ہوئے۔ کہنے
کو تو یہ اللہ کی طرف سے ہی تھا اب چاہے کوئی اس کو اللہ کی ناراضگی سے
تعبیر کرے یا تنبیہ سے مگر درحقیقت اللہ کی طرف سے انعام اور اللہ ہی کی
طرف سے گرفت و تنبیہات کا سلسلہ طویل ہے اور ہر حال میں اللہ کر کرنی ہو کر
رہتی ہے اب انعامات ہوں یا مصائب و آزمائشیں اس سے اللہ بہتوں کو ہدایت
نصیب فرمادیتا ہے اور جس کو چاہے بے مراد ہی رکھتا ہے۔ ہمیں ان حالات و
واقعات کو اتنے قریب سے دیکھنے کے بعد بھی اپنی مستیوں میں مست رہنے اور
اپنے کو محفوظ سمجھتے ہوئے مشکلات کا شکار لوگوں کی صرف ٹی وی فوٹیجز دیکھ
کر افسوس کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اللہ جب کسی پر کوئی آزمائش ڈالتا
ہے تو اس کو ہوشیار ہوجانا چاہیے۔ روائیوں میں آتا ہے اللہ کے محبوب محمد
صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی بادلوں کی گرج سنتے تھے یا سیاہ بادل آسمان پر
دیکھتے تھے تو اللہ کی پناہ طلب کیا کرتے تھے اور مختلف وظائف اور نمازوں
میں مشغول رہا کرتے تھے اور اللہ سے توبہ و استغفار کے کلمات پڑھتے تھے
تاکہ دوسروں کو بھی اللہ کے غصے اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا جائے تاکہ
مسلمان ہر وقت اور ہر ہر گھڑی اللہ سے ڈر کر اپنے معاملات کو صحیح کرنے
والا بن جائے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کے موضوع پر شیخ عبدالمجید صاحب کا ایک مضمون پڑھا تو
آپ لوگوں کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہا۔
“ملک میں جاری قانون طبعی‘ عام موسمی تغیر کا حادثہ‘ عذاب الہی کا حکم نہیں
رکھتا۔ مگر قرآن کریم سے یہ پتہ ضرور چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بسا اوقات اسی
مادی طبعی قوانین میں جب شدت پیدا کر دیتا ہے تو موسمی تغیرات غیر معمولی
کروٹ لیتے ہیں گویا بارشوں میں شدت پیدا کردی جاتی ہے تو یہ مخلوق خدا پر
تباہی بربادی بن کر برستی ہیں۔ دنیا میں اسکی بہت سی مثالیں ہیں مگر
پاکستان میں حالیہ تباہ کن بارشوں کی بھی مثال دی جاسکتی ہے۔ یعنی جب عام
طبعی قانون کے تحت موسمی تغیر جب مشیت الہٰی کے تحت غیر معمولی کروٹ لیں۔
تو کبھی زلزلوں‘ کبھی سونامی’ سمندری طوفان بن کر نازل ہوتے ہیں۔ پھر
زلزلوں سے بھی بعض ممالک کی سرزمین لرزش کھا رہی ہوتی ہے۔ خوفناک زلزلوں کے
نظارے ایران ‘ ترکی‘ اٹلی اور( 2005 ء )پاکستان کی سرزمین پر بالخصوص آزاد
کشمیر’ اور کوہستان کی عمارتیں ہم تہہ بالا ہوتی دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان کی
حالیہ بارشیں جو سیلابی طوفانوں اور قیامت کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔ ان
قیامت خیز بارشوں کے تسلسل سے دریاؤں کی طغیانی نے پاک سرزمین کو تہہ و
بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ دیگر ممالک میں بھی جب قیامت خیز بارشیں برستی ہیں
تو سونامی طوفان کی صورت اختیار کر جاتی ہیں۔ زلزلے زمینوں میں لرزش پیدا
کردیتے ہیں۔ بعض ممالک کی زمینوں میں یہ زلزلے ( جیسے چلی کی زمین ) کو تہہ
بالا کر کے رکھ دیا۔ یعنی طبعی حوادث جب غیر معمولی کروٹ لیں تو ہر عقل
سلیم اس کو قہر الہٰی کے سوا اور کوئی نام نہیں دے سکتا۔ ۔ہاں یہ بھی درست
ہے کہ دنیا میں جاری عام طبعی حوادث کو مذہب کے حوالے سے انہیں عذاب کا نام
نہیں دیا گیا۔ مگر اسلام اور دیگر مذاہب کی رُو سے غیر معمولی حوادث کو جو
اللہ تعالیٰ کی مشیت خاص کے تحت نازل ‘ رونما ہوتے ہیں۔ ایسا ہر غیر معمولی
قدرتی حادثہ عذاب کا آئینہ دار ہے۔ بسا اوقات مادی اور طبعی قوانین مومنوں
کے لئے رحمت اور نبیوں کے مخالف( آسمانی تعلیم کی باغی سرکش قوم کے لوگوں
کے لئے) زحمت بن جاتے ہیں اور انہیں طبعی قوانین کو خدا تعالیٰ کی طرف سے
مادی طاقتوں کی ہلاکت پر مامور کردیا جاتا ہے۔ جو روحانی اور مذہبی اقدار
کی نہ صرف منکر تھیں بلکہ مادی ذرائع کو استعمال کر کے روحانی اور مذہبی
اقدار کو مٹانے کے درپہ تھیں۔ اور عذاب الہٰی کی مورد ایسی غافل قومیں بھی
تھیں جنہوں نے ایمان لانے کے بعد آسمانی تعلیم ‘ شریعت کی پیروی کی بجائے
خدا تعالیٰ سے آنکھیں موند کر چند من مانی مذہبی رسومات پر تکیہ کیا ہوا
تھا۔ |