*سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کی زندگی میں
کیا مثبت اثرات مرتب ہوئے*
*جیمز سی* کی رائے کے مطابق دو یا دو سے زیادہ افراد کا ایک دوسرے کے مفہوم
کوسمجھ لینا ابلاغ کہلاتا ہے۔ ابلاغ انگریزی لفظ کمیونیکیشن کا ترجمہ ہے جس
کے معنی حصہ دار بننا اشتراک پیدا کرناہے۔
*جارج اے ملر* نے ابلاغ کی تعریف یوں کی ہے"ابلاغ کا مطلب ایک اطلاع یا
پیغام کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانا ہے" ابلاغ کے کے اس عمل میں
اہم کردار اور ذریعہ خود انسان ہے، جو اپنے سابقہ تجربات ومشاہدات اور
موجودہ حالات وضروریات کو سمجھ کر آگےمنتقل کرتا ہے۔
*رول ایل ہاؤے* کی نظر میں کسی چیز کے بارے میں اپنا عمل یا ردعمل احساسات
وجذبات دوسرے تک پہنچانا تاکہ وہ اس سے متاثر ہو کرمتحرک ہو جائے ۔ آج کے
ترقی یافتہ دورمیں سرگرمیاں اور دل چسپیاں اس ابلاغ کی اہمیت وفوقیت میں
روز افزوں اضافہ کر رہی ہیں۔ اور معاشرے کا وجود اور رشتوں میں الفت کی
مٹھاس بہی اسی ابلاغ کی مرہون منت ہیں۔ جس کی وجہ پیغام رسانی کے باعث آج
پوری دنیا ایک کنبے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
اس ابلاغ کا سفر ٹیلی گراف سے شروع ہوا جب ٹائپ رائٹر سے پیغامات اور حالات
ووقعات کا تبادلہ ہوتا تھا،اس زمانے میں پیغام رسانی کا یہ بہت کامیاب اور
آسان طریقہ بن گیا تھا۔
پھر دور نے ترقی کی ٹیکنالوجی تیز ہوئ تو ٹیلیفون وجود میں آیا،
1876ءمیں ایجاد ہونے والا تیز ترین آلہ ہم تک پہنچتے تقریباً ایک صدی
لگادی، ایک صدی بعد نمودار ہوتی اس جدید ذرائع ابلاغ سے اکثر لوگ مستفید
نہیں ہوتے تھے۔دوردراز کے گاؤں ، دیہات کے لوگ اس وقت بہی چٹھی لکھا کرتے
تھے ، صرف شہری آبادی اس ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کر ہی تھی۔ یورپی ممالک
کی طرح پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور،اسلام آباد،ملتان،کوئٹہ،
حیدرآباد، بہاولپور، میں فون بوتھ لگائے گئے جس میں سکہ ڈال کر کال کی جا
سکتی تھی۔
لیکن پاکستانی عوام کی ناقدری اور اپنی سہولت کا فقدان پیدا کرنے والی عادت
سے مجبور اس آسانی سے محروم ھوگئے۔۔
اس طرح *فیکس* بہی پیغام وخطوط رسانی کا جدید طریقہ معترف کرایا جوکہ ٹیلی
گراف کی جدید اور نئی شکل تھی، اور اس کی مقبولیت آج بہی اپنی جگہ موجود ہے
، مگر اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں آنے والی جدید ٹیکنالوجی سے یہ بہی اپنا
وجود کھو بیٹھے۔۔۔
اس کی ایک اور مثال موبائیل پیغامات کا بہیجنا ہے اور سوشل میڈیا سوفٹویئر
کا بڑھتا ہوا رجحان ہے کہ لوگ اپنے پیاروں سے ایک دوسرے کو دیکھ بہی سکتے
ہیں اور بات بہی کر سکتے ہیں۔
جیسے جیسے انسان نے علم وحکمت کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا چلا گیا اللہ نے
اس پر دنیا مسخر کردی اور اس کے راز کھول دیئے جس کا نتیجہ آج انسان گلوبل
ویلج میں داخل ہو چکا ہے۔
*سوشل میڈیا کا انقلاب*
آج اگر اس تیز ترین اور ٹیکنالوجی سے بھریور دنیا میں ہم دنیا کے ایک کونے
میں بیٹھ کر دوسرے کونے میں اپنے عزیز واقارب سے بات کرسکتے ہیں دیکھ سکتے
ہیں تو اس کی وجہ کہ ہم گلوبل ویلج کی دنیا کے شہری ہیں۔
اور اس کی بڑی وجہ ہے اس کا تیزترین اور ترقی پزیر انٹرنیٹ موصلاتی نظام۔
جس نے 1995ء میں اپنی سروس سے دنیا کو روشناس کرایا اور 2001ء میں دنیا کے
کونے کونے میں پہنچ گیا۔۔
دنیا میں پیغام رسانی ، اطلاعات ، خیالات ، تخلیقات ، اور تحقیقات کا بڑا
ذریعہ سوشل میڈیا ہے، یہ ایسا نظام ہے بیک وقت کروڑوں اربوں لوگ آپ کے
پیغام کو سن ، دیکھ سکتے ہیں ، ان ذرائع میں *ٹوئٹر* *فیسبک* قابلِ ذکر
ہیں۔
ٹوئٹر !!!
پر اس وقت 500ملین لوگ رجسٹرڈ ہیں اور اس سے منسلک ہوکر دنیا کے پل پل کے
بدلتے وقعات سے آغاہ ہیں ، اس کی ایک وجہ ٹوئٹر پر روزانہ کی بنیاد پر 340
ملین کا ٹوئٹس ہیں۔
ٹوئٹر سے آپ اپنے مذہبی ، سماجی ، اور مختلف انواع کے آڈیو ویڈیو پیغامات ،
خیالات کی نشرواشاعت کت سکتے ہیں۔۔
فیسبک !!!
دینا میں کہیں بہی انقلاب کی بات جب سامنےآتی ہے یا کئی ممالک کی حکومتوں
کے محلات کی دیواریں ہلانے کا ذکر آتا ہے تو اس میں نمایاں کردار اور اول
الذکر نام فیسبک کا آتا ہے۔۔۔
اس کا خلاصہ تیونس ، کرنل معمرقذافی ، اور مقبوضہ جموں کشمیر کی تحریکیں اس
کی زندہ مثالیں ہیں۔اس کے بعدہ اسلام آباد کا چائے والا اور انڈیا کے غریب
اور پسماندہ علاقے کا لڑکا جس نے *کولاواری* گانا گا کر سوشل میڈیا پر دھوم
مچا دی اور راتوں رات بلندی پر جا پہنچا ۔۔۔
حاصل یہ ہے کے سوشل میڈیا گندگی ہے تو اس میں کئی بےشمار فوائد بہی ہیں اب
ہمیں اپنا راستہ چننا ہے ۔۔۔۔۔۔
*از قلم محمد عنصر عثمانی* |