چھوٹی نیکیاں: بڑی نیکیوں کی بنیاد ہیں
(Md Jahangir Hasan Misbahi, Mastung)
|
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جس انسان
نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اُس کو دیکھ لے گا اور جس انسان نے ذرہ
برابر بھی بُرائی کی ہوگی وہ اُس کو بھی دیکھ لےگا۔’’(زلزال:7-8)
معلوم ہواکہ نیکی چاہے بڑی ہو یا چھوٹی، سب کی اپنی ایک اہمیت اورحیثیت
ہے،جس کاپورا پورابدلہ اوراجراللہ تعالیٰ قیامت میں عطا فرمائےگا،اس لحاظ
سے ہم پر لازم ہے کہ صرف بڑی بڑی نیکیوں کو ہی اہمیت نہ دیں،بلکہ چھوٹی
نیکیوں کو بھی نظر میں رکھیں،اوراُنھیں کسی بھی صورت میں نظرانداز نہ
کریں،جس طرح ’’بوندبوندسے تالاب بھرتا ہے‘‘اسی طرح چھوٹی چھوٹی نیکیاں مل
کر ہمارے ثواب میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ بسااوقات ایسا بھی
ہوتا ہے کہ ہماری چھوٹی چھوٹی نیکیوں ہی کی وجہ سے ہماری بڑی سے بڑی خطائیں
بخش دی جاتی ہیں،بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجات ومقامات بھی حاصل ہوتے ہیں،اور
کل قیامت میں بھی یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہمارے حق میں زیادہ وزنی ثابت ہوں
گی۔
اس کے برخلاف بڑی بڑی نیکیاں ہم سے ہونہیں پاتیں،یا پھر ہم بڑی بڑی نیکیاں
کرنے کا ارادہ ہی بناتے رہ جاتے ہیں اور ہماری زندگیاں ختم ہوجاتی ہیں ،اس
لیے بڑی بڑی نیکیوں کی پلاننگ کرنےسے کہیں بہتر ہے کہ چھوٹی سےچھوٹی نیکی
کا کوئی بھی موقع ہاتھ سےنہ جانےدیں،کیوں کہ یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں ایک
انسان کو بڑی بڑی نیکیوں کا عادی بناتی ہیں۔گویا ہم جنھیں معمولی اورغیراہم
نیکیاں سمجھتے ہیں دراصل وہ بڑی بڑی نیکیوں کی اساس وبنیادہیں،ورنہ کیا وجہ
ہے کہ اللہ رب العزت اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹے چھوٹے
اعمال کی ترغیب بڑے پیمانے پر دی ہے،مثلاً:
سلام کرنا،خندہ پیشانی وخوش اخلاقی سے ملنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔’’(ابن
ماجہ،باب فی الایمان)
کیوں کہ سلام سے نہ صرف آپسی محبت پیدا ہوتی ہے،بلکہ نفرت وناپسندیدگی
جیسی اخلاقی بیماریاں بھی دورہوتی ہیں۔
پھریہ فرماتے ہیں:’’معمولی سے معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ جانو،اگر چہ تم
اپنے بھائی سےمسکراتے ہوئےملو۔’’(مسلم،حدیث:2626)
چناں چہ کوئی کتنا ہی گیاگزراشخص کیوں نہ ہو،اگر اُس کے ساتھ مسکراہٹ
اورخوش اخلاقی کامعاملہ کیا جائے تو یقیناً اُس کے دل میں بھی ترحم
اوراُنسیت کا جذبہ اُبھرےگا،اور ایک دن وہ اپنی تمام تر دشمنی کو
بھلابیٹھےگا۔
راستے سےتکلیف دہ چیز وںکا ہٹانا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’راستےسے تکلیف دہ چیز ہٹاناایمان
کا ایک حصہ ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ،باب فی الایمان)
یہ حدیث بالعموم تمام لوگوں کے لیےاوربطورخاص مومنوں کے لیے نصیحت آموز
ہےجو اپنےگھروں کےآس پاس کی گلیوں، سڑکوں، اور عام شاہراہوں پرکوڑاکرکٹ
پھیکنااپناواجبی حق سمجھتے ہیں،حالاں کہ اُنھیں یہ دیکھنا لازم ہے کہ اُن
کے اِس عمل سےکہیں کسی راہ گیر اور پڑوسی کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی ہے۔
چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی عزت کرنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’جوچھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور
بڑوں کا احترام نہیں کرتاوہ ہماری روش پر نہیں ہے۔‘‘(مسنداحمد،حدیث:6937)
لیکن آج کل معاملہ بالکل اُلٹا نظر آتا ہے کہ نہ بڑوں کو چھوٹوں پر شفقت
ورحمت کی فکر ہے اور نہ چھوٹوں میں بڑوں کے لیے احترام واکرام کا جذبہ۔ وجہ
یہ ہے کہ بڑے، چھوٹوں کے معاملات میں فیصل بننے کے بجائے فریق بنناپسندکرتے
ہیں اورچھو ٹے،بڑوں کے مسائل حل کرنے کے جوش میں اُن کے معاملات میں
کودپڑتے ہیں، (الاماشاء اللہ) اِن دونوں باتوں سے بچنابہرحال لازم ہے۔
مریضوں کی عیادت،بھوکوں کوکھلانا،اورپیاسوں کو پانی پلانا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں کہ’’اللہ رب العزت قیامت میں
فرمائے گا کہ ابن آدم ! میں بیمار تھا، تونے میری عیادت کیوں نہیں کی؟بندہ
کہے گاکہ مولیٰ!میں تیری عیادت کیسےکرتا، توخود سارے جہانوں کا پروردگار ہے
؟ اللہ فرمائے گا کہ کیا تجھے پتا نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمارہے؟ اگر
تو اُس کی عیادت کو جاتا تو تو مجھےاس کے پاس پاتا۔
بھوکوں کو کھانا کھلانے سے متعلق بھی اللہ یہی فرمائےگاکہ میرافلاں بندہ
بھوکاتھا،اگرتم اُسے کھاناکھلاتے تو تم مجھے اُس کے پاس پاتے۔پھرپیاسوں کو
پانی پلانے سے متعلق اللہ یہی فرمائےگاکہ میرا فلاں بندہ پیاسا تھا،اگر تم
اُس پانی پلاتے تو تم مجھے اُس کے پاس پاتے۔‘‘ (مسلم،باب فضل عیادۃ
المریض،حدیث : 2569)
یہ سب ایسی نیکیاں ہیں جوچلتے پھرتےاور اُٹھتے بیٹھتے بڑی آسانی سے کی
جاسکتی ہیں، اس میں نہ تو مال ودولت خرچ کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی جان
کھپانے کی ،بس تھوڑی سی توجہ درکار ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق
بخشے۔(آمین) |
|