31واں لاہور انٹرنیشنل بک فیئر……مذہبی و بچوں کی کتب کی فروخت کا رجحان زیادہ رہا

انسان نے کچھ عرصے میں اس قدر تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کی ہیں، ماضی میں جس کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کوئی شخص ایک چھوٹا سا موبائل ہاتھ میں تھامے آسانی کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر دنیا بھر کی سیر کرسکتا ہے، لیکن جس کتاب کی بدولت ٹیکنالوجی کی تمام تر کامیابیاں حاصل ہوئیں، اسی کتاب سے ہمارا رشتہ کمزور ہوتا جارہا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث کتب بینی کے رجحان میں بہت کمی آگئی ہے۔ انسان اور کتاب کا پرانا تعلق ماند پڑتا جارہا ہے اور دونوں کے درمیان دوری جنم لے رہی ہے۔ نئی نسل میں کتابیں پڑھنے کا رجحان وہ نہیں ہے، جو کسی زمانے میں تھا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا، جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ بن جائے اور تعلیم یافتہ بننے کے لیے معاشرے کا مجموعی مزاج کتاب دوست ہونا ضروری ہے۔ کوئی بھی تعلیم یافتہ معاشرہ کسی صورت کتاب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ معاشرتی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں، ان کی علمی سطح جتنی بلند ہوگی۔ کچھ عرصے سے ملک میں انسان اور کتاب کا یہ تعلق ماند پڑتا جارہا ہے۔ کتاب کی دوری کو ختم کرنے کے لیے لاہور میں ہر سال پانچ روزہ عالمی کتب میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس کتب میلے کی بنیاد31 سال پہلے رکھی گئی تھی اور اس وقت سے یہ کتب میلہ مسلسل منعقد ہوتا آرہا ہے اور اس کی مقبولیت و کامیابی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ حسب سابق اس سال بھی لاہور ایکسپو سینٹر میں 2فروری سے 6فروری تک پانچ روزہ عالمی کتب میلہ منعقد کیا گیا۔

اس سال یہ کتب میلہ 31سال مکمل کرچکا ہے۔ پہلا بک فیئر 1986ء میں الحمرا ہال میں منعقد کیا گیا تھا، جس میں کل 20 اسٹال لگائے گئے تھے۔ یہ تمام اسٹال درآمد شدہ کتب کے فروخت کندگان کی جانب سے لگائے گئے تھے۔ 2005ء سے 2007ء تک بک فیئر فور ٹریس اسٹیڈیم میں نمائش کے لیے مختص جگہ پر منعقد ہوئے اور بعد ازاں 2008ء اور 2009ء کے بک فیئرفور ٹریس اسٹیڈیم کے پریڈ گراؤنڈ میں منعقد ہوئے اور 2009ء کے بک فئیر کے دوران آنے والے موسمی طوفان کی وجہ سے 2010ء میں بک فیئر کا انعقاد ممکن نہ ہوسکا، کیونکہ بک فیئر کے انعقاد کے لیے بڑا نمائشی ہال دستیاب نہ تھا، لیکن لاہور ایکسپو سینٹر کی تکمیل کے بعد 2011ء سے بک فئیر کے لیے ایک مستقل گھر مل گیا اور اب عالمی معیار کے لاہور ایکسپو سینٹر جیسا نمائشی مرکز نہ صرف تجارتی، بلکہ علمی و ادبی سرگرمیوں کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ 2017ء کا انٹرنیشنل بک فئیر پاکستان کا ایک بڑا بک فئیر تھا، جس میں 275 اسٹال لگائے گئے تھے۔ اس بک فئیر میں 30غیرملکی اداروں کے اسٹالز بھی شامل تھے، جن میں امریکا، برطانیہ، بھارت، سنگا پور اور ترکی شامل تھے۔ اس سال بھی لاہور انٹرنیشنل بک فئیر کے ساتھ حکومت پنجاب نے خصوصی تعاون کیا۔ صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن سید رضا علی گیلانی نے ایکسپو سنٹر میں لگائے گئے لاہور انٹر نیشنل بک فیئر 2017 کا افتتاح کیا۔ کتابوں کی اس سالانہ پانچ روزہ نمائش کا اہتمام لاہور انٹرنیشنل بک فیئرٹرسٹ نے پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے تعاون سے کیا۔ لاہور انٹرنیشنل بْک فیئر اب پاکستان کے بڑے ایونٹس میں سرفہرست ہے۔ لاہور انٹرنیشنل بْک فیئردرحقیقت پورے ملک میں کتاب میلوں کی روایت کا بانی ہے۔ 31 برسوں سے جاری اس مسلسل عمل کا ایک ثمرآور نتیجہ یہ نکلا کہ اب ملک بھر میں مختلف ادارے، ایسے کتاب میلے اور ادبی میلے برپا کرتے ہیں۔

ایکسپو سینٹر لاہور میں منعقد ہونے والا31واں پانچ روزہ عالمی کتب میلہ کامیاب رہا ہے۔ لاہور کے شہریوں نے کثیر تعداد میں سینکڑوں اسٹالوں پر رکھی ہزاروں کتابوں کا مشاہدہ کرکے اپنی پسند کی کتب خریدیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 7لاکھ شائقین کتب نے بک فیئر سے استفادہ کیا۔ دینی مدارس، اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے ہزاروں طلبہ وطالبات سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد نے پانچ روزہ کتب میلے میں شرکت کی۔ انٹرنیشنل کتب میلے میں شرکت کرنے والوں میں مرد و خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ کتب میلے میں امریکا، برطانیہ، بھارت، سنگاپور اور ترکی سمیت تیس ممالک کے پبلشرز نے اپنی کتابیں اور شائع شدہ مواد پیش کیا۔ ناشران اور کتب فروشوں کے اسٹالوں پر کتابوں کی فروخت غیرمعمولی رہی۔ کتب میلے میں ہر طرح کی کتابیں رکھی گئی تھیں، جن میں اسلامی کتب، فکشن، سوانح، تاریخ، اردو اور انگریزی لٹریچر، ادب، ثقافت، شاعری، نثر نگاری، ناول، سائنس، قانون، فلسفہ، طب اور شخصیات سے متعلق دیگر کتب بھی انٹرنیشنل بک فیئر کا حصہ تھیں۔
کتب میلے میں 15سے50 فیصد تک رعایتی نرخوں پر کتابیں فراہم کی جاتی رہیں، جس کے باعث لوگوں نے ایک کی بجائے کئی کئی کتابیں خریدیں۔ کتب میلے میں اسلامی اور ادبی کتب میں لوگوں کی زیادہ دلچسپی دیکھنے میں آئی۔ پبلشرز کا کہنا تھا کہ اسلامی کتب زیادہ بکتی ہیں یا ایسی کتب جن پر مذہبی رنگ غالب ہو، چاہے وہ کسی بھی موضوع سے متعلق ہوں۔ عالمی کتب میلے میں مذہبی کتابوں کی بھرمار ہی۔ ایک اسٹال ہولڈر حامد نے بتایا کہ ہمارے اسٹال پر صرف اسلامی کتب ہیں، یہاں ہر طرح کے لوگ آکر اسلامی کتب خریدتے رہے۔ ویسے تو تمام اسلامی کتب ہی زیادہ فروخت ہورہی ہیں، لیکن لوگوں کا رجحان سیرت، حدیث اور تفسیر کی خریدداری پر زیادہ رہا۔

انٹرنیشنل بک فیئر میں بچوں کی انگریزی اردو کہانیاں رنگ برنگی تصویروں کے ساتھ، ڈرائنگ کی کتابیں اور بچوں کے حوالے سے ایکٹیوٹی بکس شامل تھیں، جن میں بچوں کی دلچسپی دیدنی تھی۔ پبلشرز کا کہنا تھا کہ بک فیئر میں بچوں کی کتب زیادہ تیزی کے ساتھ فروخت ہوئی ہیں۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد کتب میلے میں نظر آئی، جن کے والدین ان کے ساتھ تھے۔ اکثریت کا کہنا تھا کہ بچوں کی دلچسپی کی کتابیں اس میلے میں ایک تو بہت زیادہ ملتی ہیں، دوسرے ان کی قیمت بازار سے کافی کم ہوتی اور تیسرے ایک ہی جگہ پر اتنی ساری کتابیں اکٹھی ملنے سے وقت کی بہت بچت ہوتی ہے۔ اس سال لاہور انٹرنیشنل بک فیئر میں روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے مقبول ہفت روزہ میگزین ’’بچوں کا اسلام‘‘ کے لکھاری اور بچوں کے ادیب محمد ضیاء اﷲ محسن کی مزاحیہ کہانیوں پر مشتمل بچوں کے لیے لکھی گئی کتاب ’’ماموں ملال‘‘کافی مقبول رہی۔ یہ کتاب اس اعتبار سے بھی زیادہ کامیاب رہی کہ ابھی ایک ہفتے قبل ہی شایع ہوئی، اس کے باوجود بک فیئر میں اس کتاب کو بچوں نے بہت پسند کیا۔ بک فیئر میں اپنے والد کے ساتھ آئے ہوئے ایک بچے سے پوچھا وہ یہاں کونسی کتاب خریدنے آئے ہیں؟ تو اس نے کہا کہ مزاحیہ کہانیاں شوق سے پڑھتا ہوں، اب ضیاء اﷲ محسن صاحب کی کتاب ’’ماموں ملال‘‘ خریدنے آیا ہوں۔ مجموعی طور پر بک فیئر میں اسلامی کتب کے بعد بچوں کے ادب کو ہی پذیرائی حاصل رہی۔ بک فیئر میں بچوں کی دلچسپی اشتیاق احمد مرحوم کے ناولوں میں بھی رہی۔

نمرہ احمد اور عمیرہ احمد کے ناولوں کی مانگ بھی کافی رہی۔ اسٹال ہولڈر کا کہنا تھا کہ بک فیئر میں ناول اچھے نکلتے ہیں، لیکن جن ناولوں میں مذہب کو بھی شامل کیا جائے، وہ جلدی فروخت ہوتے ہیں۔ کتب میلے میں نصابی کتب کے اسٹال ہولڈر سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے اسٹال سے کتب بہت زیادہ فروخت نہیں ہوئیں۔ بک فیئر میں انگلش کتب کا رسپانس بھی اچھا تھا، لیکن بہت زیاہ اچھا بھی نہیں۔ لاہور انٹرنیشنل بک فیئر میں معروف صحافی محمد عامر خاکوانی کی نئی شایع ہونے والی کتاب ’’زنگار‘‘ کو بھی اچھا رسپانس ملا۔ بک فیئر میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور مولانا ظفر علی خان سمیت متعدد تاریخی ہیروز کی کتب کے اسٹاز بھی لگے ہوئے تھے، جہاں اسٹال ہولڈرز کا کہنا تھا کہ رسپانس بہت زیاہ اچھا نہیں مل رہا۔ یہ کتب زیاہ تر بڑی عمر کے لوگ خرید رہے ہیں یا پھر وہ نوجوان جن کے بڑوں نے ان تاریخی ہیروز کو پڑھا ہوا ہے۔

کراچی سے آئے ہوئے ایک اسٹال ہولڈر نے بتایا کہ لاہور بک فیئر میں کراچی کے مقابلے میں مطالعے اور کتب خریدنے کا رجحان کم ہے۔ کراچی میں رسپانس زیادہ ملتا ہے، لیکن لاہور بک فیئر میں ویسا رسپانس نہیں ملتا۔ کتب میلے میں آنے والوں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کتب میلوں سے طالب علم اورعوام فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ ملکی سطح پر اس طرح کے کتب میلوں کا انعقاد ہوتے رہنا چاہیے، تاکہ ہماری نسلیں اس سے فیضیاب ہوکر دنیا بھر میں ایک اچھا مقام حاصل کرسکیں۔ ہمارے ملک میں لائبریریوں کا کلچر ختم ہوتاجارہا ہے، جسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ کتب میلے میں آئے بعض طلبہ سے جب بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ جب سے سوشل میڈیا ور الیکٹرانک میڈیا کو آزاد ملی ہے، اس وقت سے کتاب پڑھنے کا رجحان کم ہورہا ہے، ایسے میں اس قسم کے کتب میلے معاشرے میں کتاب سے دوری کو ختم کر کے مطالعے کے ذوق کو زندہ کرنے کا سبب بنیں گے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے کتاب سے دوستی کرنا ضروری ہے۔ کتاب اور انسان کا رشتہ اتناہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگہی کی تاریخ قدیم ہے۔ انسان کے لیے مطالعے اور مشاہدے کے بل پر نئی منزلیں طے کرنا آسان ہوا۔ کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں، بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفر ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں، جو قومیں کتاب سے رشتہ توڑ لیں تو پھر وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعے کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل ہی رک جاتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا، جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ بن جائے اور تعلیم یافتہ بننے کے لیے معاشرے کا مجموعی مزاج کتاب دوست ہونا ضروری ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701318 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.