خیبرپختونخوا میں سکول نہ جانے والے بچوں کا سروے

این جی او کے ہتھیار ڈالنے پر ساراملبہ بے چارے اساتذہ پر ڈال دیا گیا
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب قوم کے معماروں کوسکول کے بعد بھی چند سو پرٹرخا کے گھر گھر،محلہ محلہ خوار کیا گیا ہو
حال ہی میں کیا جانے والا سروے ٹھیک ان دنوں میں کرایاگیا جب اساتذہ بچوں کو امتحانات کی تیاری کروانے میں مصروف ہیں
پالیسی میکر گرم ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ناقص پالیسیاں بنانے میں مصروف
پرائمری اساتذہ کی تنخواہ صوبائی سیکرٹریٹ کے کلاس فور سے بھی کم،ایسے میں اساتذہ سے بھلا توقع قائم کی جاسکتی ہے
این ٹی ایس اساتذہ گزشتہ تین سالوں سے مستقلی کے منتظر تو ساتھ نئے بھرتی ہونے والے فاقوں پر مجبور
دنیا میں جاپان واحد ایسا ملک ہے جہاں شرح خواندگی سو فیصد ہے،اس کے بعد دوسرا نمبر ناروے کا آجاتاہے۔اسی طرح یورپی ممالک ودیگر۔مگر افسوس کہ ایشیاء کے زیادہ تر ممالک اس دوڑمیں شامل نہیں۔اس کی وجوہات میں غربت،کرپشن اور خاص طورسے استا دکوپسماندہ رکھناہے۔ماہرین کے مطابق جن جن ممالک میں غربت ،کرپشن اور استادکو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھاجاتاہو وہاں شرح خواندگی بھلا کیسے اور کیونکر سو فیصد ہوسکتی ہے۔اب آپ جاپان ہی کی مثال لے لیں کہ وہاں استاد کی تنخواہ قریباً تمام محکمہ جات میں کام کرنے والے ملازمین سے زیادہ ہے۔اورشاید یہی وجہ ہوکہ وہاں شرح خواندگی سوفیصد دیکھنے کوملتی ہے۔اس کے برعکس ملک خداداد میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ملک میں شرح خواندگی بیس سے پچیس فیصد بھی نہیں اورجس کی بڑی وجہ ماہرین اساتذہ کو غیر ضروری امورپر لگانامانتے ہیں۔جیسے حالات کی خرابی کے باعث اساتذہ کو پولیومہم میں مرنے کے چھوڑدیا گیا اسی طرح حالیہ کرایا جانے والا سروے کہ جس کی ذمہ داری پہلے ایک این جی او نے لی تھی،مگر کم فنڈز کی وجہ سے عین موقع پر ہتھیار ڈالنے پر مذکورہ سروے بے چارے اساتذہ سے کرایاگیا۔اورمرتا کیا نہ کرتا بے چارے اساتذہ اب تک کے نہ ملنے والے معاوضے پر سروے کو تکمیل تک پہنچانے کی حتی الوسعیٰ کوشش کررہے ہیں حالانکہ یہاں سوال یہ پیداہورہاہے کہ ملک خداداد میں کام کرنے والی مقامی اور خاص طورسے بین الاقوامی این جی اوز جب ذمہ داری نبھانے کی طاقت نہیں رکھتیں تو پھر بھڑکیاں مارتی کیونکر نظرآتی ہیں؟اسی طرح جہاں انہیں کروڑوں کے فنڈز میں اپنے عیش وآرام کا کوئی ذریعہ نظرنہیں آتا تو اپنی نااہلی دکھانے کی بجائے فنڈز میں کمی کا بہانہ تراش لیتی ہیں۔مگر مجال ہے جو صوبائی حکومت انہیں مزید کام کرنے سے روکے۔اس کے علاوہ ہمارے پالیسی میکر زمینی حالات کی جانکاری نہیں رکھتے۔یاپھر جان کر اساتذہ کو خوار کرنا چاہتے تھے۔کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ جنوری سے مارچ تک بچوں کے امتحانات کے لئے تیاری کے دن ہوتے ہیں۔ایسے میں تھکے ہارے اساتذہ کو مزید ذہنی کوفت دینا بھلا کہاں کا انصاف ہے؟حالانکہ ملک خداداد میں لاکھوں نوجوان لڑکے لڑکیاں بے روزگار ہیں اگر ان سے مذکورہ سروے کرایا جاتا تو یقینا سروے اطمینان بخش تصور کیا جاتا کیونکہ ہوسکتاہے کہ اساتذہ نے اپنی جان چھڑانے کے لئے اِدھر اُدھر کی معلومات دیے گئے فارمز میں فراہم کی ہوں اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ اساتذہ ایمانداری کا لبادہ اوڑھ کر گھر گھر گئے ہوں اورفراہم کردہ معلومات بالکل درست اور صحیح ہوں۔اس لئے کچھ بھی ہوسکتاہے ،جب حکومت اساتذہ کے ساتھ اتنا گھناؤنا مذاق کرسکتی ہے تو یقینا اساتذہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔خیربات ہورہی تھی گھر گھر سروے کی۔صوبائی حکومت ان تمام بچوں کے متعلق معلومات اکھٹاکرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو کسی وجہ سے سکول نہیں جاتے۔ہوسکتاہے اس حوالے ان بچوں کی مالی معاونت کی جانے کا ارادہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہ کہ فنڈز کے نام صرف کاغذی کاروائی ہی کی جارہی ہو۔کیونکہ جس اندازسے جلد ی میں سروے کیاگیا ہے اس سے تو یہی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ صوبائی حکومت صرف تعلیم کے نام پر کریڈیٹ حاصل کرنے کے چکر میں ہے۔ورنہ تو ایسے کام باقاعدہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ہی کرائے جاتے ہیں یوں اچانک سے اساتذہ کو یک روزہ تربیت دینا کہ اس میں اساتذہ کی اکثریت شامل ہی نہیں ہوئی اسی طرح تربیت کا حصہ بنے والے اساتذہ بھی عدم دلچسپی کا شکارنظرآئے تو ایسے میں سروے کیسا ہوا ہوگا ،اﷲ جانے ۔صوبائی حکومت اگر واقعی میں سکول نہ جانے والے بچوں بارے مکمل معلومات اکھٹاکرنا چاہتی تھی تو ا س کے لئے پہلے مکمل ہوم ورک کیا جاتا۔جیسے اگر اساتذہ ہی سے کرانا تھا تو انہیں سکول سے باقاعدہ چھٹیاں دی جاتیں تاکہ مکمل اور درست معلومات اکھٹی کی جاسکیں۔اسی طرح بے چارے اساتذہ کو نقد ٹھیک ٹھاک معاوضہ دیا جاتا مگر صرف جلدی میں انہیں تربیت دے کرسروے فارمز حوالہ کئے گئے۔ایسے میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بارے بھلا کیا جانکاری حاصل ہوپائے گی۔خیر یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب بے چارے قوم کے معماروں کو گلی گلی،کوچہ کوچہ خوارنہ کیا گیاہو۔اس سے قبل بھی ان بے چاروں کو کبھی پولیو،تو کبھی خانہ ومردم شماری تو کبھی عام انتخابات وغیرہ کے لئے ستایا جاچکاہے۔حالانکہ ملک خداداد میں لاکھوں نوجوان لڑکے لڑکیاں بے روزگاری کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں حکومت کو تو پیسے کی بچت چاہیے اس لئے ان کے پاس اساتذہ کے سوا کوئی اورنہیں۔اس پر اساتذہ اگر بھول کر پروموشن طلب کرتے ہیں تو انہیں خاموش کردیاجاتاہے۔ایسے میں شرح خواندگی بھلا کیسے بڑھائی جاسکتی ہے۔جب اساتذہ قرضے لے کر گزاراکرنے پر مجبور ہوں،اس پر تماشا کہ امسال اراکین صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں میں 400فیصداضافہ کردیا گیا۔مگر مجال ہو کہ انہیں اساتذہ کی تنخواہوں اور ان کے گزر بسر کا علم ہو یا پھروہ جاننا نہیں چاہتے۔ہر چند کہ اساتذہ کی ڈیوٹی دیگر محکمہ جات کے ملازمین سے کم ہوتی ہے،جیسے سال میں تین ماہ کی چھٹی،اسی طرح دن میں چارسے پانچ گھنٹے ڈیوٹی،سال بھر چلنے والے امتحانات میں ڈیوٹیاں وغیرہ۔یہ تو بھلا ہو گزشتہ دور میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی وزیر تعلیم سرداربابک کاکہ جنہوں نے جاتے جاتے پرائمری سکول ٹیچر کو سکیل سات سے بارہ دے دیا۔یوں اونٹ کے منہ میں زیرہ برابرسے کام چلا لیاگیا۔حالانکہ اساتذہ کو ہیلتھ الاؤنس کے جیسے ٹیچنگ الاؤنس دینا چاہیے تھا،کہ جس سے اساتذہ کی بنیادی تنخواہوں میں خاطرخواہ اضافہ ممکن ہوسکتا۔او ر جس سے ایک طرف پرائمری سکولوں میں پڑھانے والا استاد مناسب گزر بسر کے قابل ہوجاتا تو دوسری جانب وہ معاشرہ میں کھویا ہوامقام پانے میں خاطرخواہ حد تک کامیاب ہوجاتا جیسے ایک روایت کے مصداق کہ پرائمری سکول ٹیچر کولوگ سلام کرنا تو پسند کرتے ہیں مگر کوئی اسے اپنی بیٹی کا رشتہ دینا گوارا نہیں کرتا۔جیسے دیگر محکمہ جات میں بھرتی ہونے والاکلاس فور جوکہ ایک سکیل میں بھرتی ہوتاہے اس پرائمری استاد کے قریباً برابر تنخواہ وصول کررہاہے جو محکمہ تعلیم میں سکیل 12میں بھرتی ہواہے ،ایسے میں صوبائی حکومت شرح خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ چاہنے کے چکر میں ہے۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ صوبائی حکومت بے چارے دیگر گرتی ہوئی دیوار کو ایک اوردھکہ دے کر اوروں کی طرح قوم کے مستقبل کو تاریک بنانے میں اپنا بھی بھرپور حصہ ڈال لے۔
Waqar Ahmad Awan
About the Author: Waqar Ahmad Awan Read More Articles by Waqar Ahmad Awan: 65 Articles with 46470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.