اسلام میں مرتد کی سزا-ایک عقلی بحث

مرتد کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اپنے ارتداد سے اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ سوسائٹی اور اسٹیٹ کی تنظیم جس بنیاد پر رکھی گئی ہے اس کو نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کرتا بلکہ اس سے کبھی آئندہ بھی یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ اسے قبول کرے گا ایسے شخص کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ جب اپنے لئے اس بنیاد کو ناقابلِ قبول پاتا ہے جس پر سوسائٹی اور اسٹیٹ کی تعمیر ہوئی ہے تو خود اس کے حدود سے نکل جائے مگر جب وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے لئے دو ہی علاج ممکن ہیں یا تو اسے اسٹیٹ میں تمام حقوق شہریت سے محروم کرکے زندہ رہنے دیا جائے یا پھر اُس کی زندگی کا خاتمہ کردیا جائے۔پہلی صورت فی الواقع دوسری صورت سے شدید تر سزا ہے۔کیوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى کی حالت میں مبتلا رہے اور اس صورت میں سوسائٹی کے لئے بھی وہ زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی ذات سے ایک مستقل فتنہ لوگوں کے درمیان پھیلتا رہے گا اور دوسرے صحیح و سالم اعضا میں بھی اس کے زہر کے سرایت کرنے کا اندیشہ ہوگا۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ اسے موت کی سزا دے کر اس کی اور سوسائٹی کی مصیبت کا بیک وقت خاتمہ کردیا جائے۔
اسلامی سزاؤں میں جس سزا پر سب سے ذیادہ اعتراض کیا جاتا ہے وہ مرتد کی سزا ہے، سوشل میڈیا پر ایسے جملے عام پڑھنے کو ملتے ہیں ۔
1. کیا اللہ میں اتنا بھی صبر اور برداشت نہیں كہ وہ اپنے دین كے مرتد کو برداشت کر لے .. . . . ؟ ؟ ؟ . ایک مرتد کو قتل کروا کر اللہ کو کیا ملے گا. . . . . ؟ ؟ ؟ . اگر اسلام میں مرتد کی سزا موت ہے تو ایسے خونی دین کو کون قبول کرے گا. . . . . . . . ؟ ؟ ؟. اگر دوسرے مذاہب کے پیروکار اپنا آبائی مذہب چھوڑکر مسلمان ہوسکتے ہیں‘ تو ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کیوں نہیں کرسکتا؟ اگر کسی یہودی اور عیسائی کے مسلمان ہونے پر قتل کی سزا لاگو نہیں ہوتی تو ایک مسلمان کے یہودیت یا عیسائیت قبول کرنے پر اسے کیوں واجب القتل قرار دیا جاتا ہے؟ . اگر کوئی پیدائشی مسلمان مرتد ہوجائے تو ؟

مرتد اوراسکی سزا
مرتد کی سزا کی معنویت پر بات کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ارتداد کا حکم کن پر کیسے لاگو ہوسکتا ہے ؟اگر اسلامی مملکت کا کوئی شہری مرتد ہوجائے تو :
1. اگر مرتد ہونے والی خاتون ہو تو اس کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جائے‘ اگر اس کے کوئی شبہات ہوں تو دور کئے جائیں‘ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے‘ اگر توبہ کرلے تو ٹھیک ‘ ورنہ اسے زندگی بھر کے لئے جیل میں قید رکھا جائے تاآنکہ وہ مر جائے یا توبہ کرلے۔
2. اگر کوئی عاقل‘ بالغ مرد‘ ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس کو گرفتار کرکے تین دن تک اس کو مہلت دی جائے گی‘ اس کے شبہات دور کئے جائیں گے‘ اگر مسلمان ہوجائے تو ٹھیک‘ ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔
3. اگر کوئی نابالغ بچہ مرتد ہوجائے تو یہ دیکھا جائے گا کہ اگر وہ دین و مذہب کو سمجھتا ہے اور عقل و شعور کے سن کو پہنچ چکا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو اس کا حکم بھی مرتد ہونے والے مرد کا ہے‘ اور اگر بالکل چھوٹا اور ناسمجھ ہے تو اس پر ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔ اسی طرح اگر کوئی مجنون یا پاگل ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس پر بھی ارتداد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔
4. جس شخص کا مرتد ہونا اس کے اقرار یا شرعی شہادت سے ثابت ہوجائے اس کے لیے حکم یہ ہے کہ تین دن کی اسے مہلت دی جائے گی اور اس کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا، اگر اسے کچھ شبہات لاحق ہوگئے ہوں تو ان کے ازالہ کی کوشش کی جائے گی، اگر توبہ نہیں کرتا ہے تو اسے قتل کردیا جائے۔
5. یہ سزا کوئی فرد ، گروہ اپنے طور پر لاگو نہیں کرسکتا بلکہ اسکی اتھارٹی اسلامی حکومت کے حاکم وقت کے پاس ہوتی ہے، عام مسلمانوں کے لیے حکم یہ ہے کہ ایسے شخص سے تعلقات منقطع کرلیں، ان سے دوستی رکھنا یا تعلقات قائم نا کریں۔

کیا اسلام محض ایک مذہب ہے؟
جدید تصّور کے مطابق مذہب کی حیثیت صرف ایک رائے کی ہے اور رائے بھی ایسی جو زندگی کے ایک بالکل ہی دورازکار پہلو سےتعلق رکھتی ہے جس کے قائم ہونے اور بدلنے کا کوئی قابلِ لحاظ اثر حیات انسانی کے بڑے اور اہم شعبوں پر نہیں پڑتا۔ایسی رائے کے معاملے میں آدمی کو آزاد ہونا ہی چاہئے،کوئی وجہ نہیں کہ امور مابعد الطبیعت کے بارے میں ایک خاص رائے کو اختیار کرنے میں تو وہ آزادہو،مگر جب اس کے سامنے کچھ دوسری رائے کی بہتری کے دلائل آئیں تو وہ انہیں قبول نا کرے..
اگر اسلام کی حیثیت یہی ہوتی جو مذہب کی حیثیت آج کل قرار پاگئی ہے تو اس سے زیادہ نا معقول بات کوئی نہ ہوتی کہ وہ آنے والوں کے لئے دروازے پر جلاد بٹھادے۔ اگر اسلام کی حیثیت فی الواقع اُسی معنی میں ایک “مذہب “کی ہوتی جس معنی میں یہ لفظ آج کل بولا جاتا ہے تو یقیناً اس کا ان لوگوں کے لئے قتل کی سزا تجویز کرنا سخت غیر معقول فعل ہوتا۔
دراصل اسلام کی یہ حیثیت سرے سے ہے ہی نہیں وہ اصلاحِ جدید کے مطابق محص ایک “مذہب” نہیں بلکہ ایک دین ایک پورا نظامِ زندگی ہے، ارتداد کی سزا وہ بحثیت قانونی سٹیٹ دیتا ہے ناکہ ایک فرد یا مذہب۔اس کا تعلق صرف مابعد الطبیعات ہی سے نہیں بلکہ یہ حیات قبل الموت کی فلاح و بہتری اور تشکیل صحیح کے سوال سے بھی بحث کرتا ہے اور نجات بعد الموت کو ایسی حیات قبل الموت کی تشکیل صحیح پر منحصر قرار دیتا ہے۔
مانا کہ پھر بھی وہ ایک رائے ہی ہے۔مگر وہ رائے نہیں جو زندگی کے دورازکار پہلو سے تعلق رکھتی ہو۔بلکہ وہ رائے جس کی بنیاد پر پوری زندگی کا نقشہ قائم ہوتا ہے۔ وہ رائے نہیں جس کے قائم ہونے اور بدلنے کا کوئی قابلِ لحاظ اثر زندگی کے بڑے اور اہم شعبوں پر نہ پڑتا ہو۔۔ وہ رائے جس کے قیام پر تمدن اور ریاست کا قیام منحصر ہے اور جس کے بدلنے کے معنی نظام تمدن و ریاست کے بدل جانے کے ہیں۔۔وہ رائے جس کے بنا پر انسانوں کی ایک جماعت تمدن کے پورے نظام کو ایک خاص شکل پر قائم کرتی ہے اور اسے چلانے کے لئے ایک ریاست وجود میں لاتی ہے۔
ایسی رائے اور ایسے نظریے کو انفرادی آزادیوں کا کھلونا نہیں بنایا جاسکتا ۔نہ اس جماعت کو جو اس رائے پر تمدّن و ریاست کا نظام قائم کرتی ہے،رہ گذر بنایا جاسکتا ہے کہ جب قضائے دماغی میں ایک لہر اُٹھے تو اس میں داخل ہوجائیے اور جب چاہئے باہر چلے جائیے۔یہ کوئی کھیل اور تفریح نہیں ہے جس سے بالکل ایک غیر ذمہ دارانہ طریقہ پر دل بہلایاجائے۔یہ تو ایک نہایت سنجیدہ اور نزاکت رکھنے والا کام ہے جس کے ذرا ذرا سے نشیب و فراز سوسائٹی اور اسٹیٹ کے نظام ہر اثر انداز ہوتے ہیں۔جس کے بننے اور بگڑنے کے ساتھ لاکھوں کروڑوں بندگانِ خدا کی زندگیوں کا بناؤ اور بگاڑ وابستہ ہوتا ہے۔جس کی انجام دہی میں ایک بہت بڑی جماعت اپنی زندگی و موت کی بازی لگاتی ہے۔ایسی رائے اور ایسی رائے رکھنے والی جماعت کی رکنیت کو انفرادی آزادیوں کا کھلونا دنیا میں کب بنایا گیا ہے اور کون بناتا ہے کہ اسلام سے اس کی توقع رکھی جائے۔.؟
بنیادی غلط فہمی
قتل مرتد کو جو شخص یہ معنی پہناتا ہے کہ یہ محض ایک رائے کو اختیار کرنے کے بعد اسے بدل دینے کی سزا ہے وہ دراصل ایک معاملہ کو پہلے خود ہی غلط طریقے سے تعبیر کرتا ہے اور پھر خود ہی اس پر ایک غلط حکم لگاتا ہے۔ ۔
معترضین مرتد کی سزا پر جتنے اعتراض کرتے ہین محض ایک “مذہب” کو نگاہ میں رکھ کرکرتے ہیں اور اس کے برعکس ہم اس سزا کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے جو دلائل دیتے ہیں ان میں ہمارے پیش نظر مجرد “مذہب” نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا اسٹیٹ ہوتا ہے جو کسی خاندان یا طبقہ یا قوم کی حاکمیت کے بجائے ایک دین اور اس کے اصولوں کی حاکمیت پر تعمیر ہوا ہو۔
جہاں تک عام مجرد مذہب کا تعلق ہے ہمارے اور معترضین کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایسا مذہب مرتد کو سزا دینے کا حق نہیں رکھتا جہاں سوسائٹی کا نظم و نسق اور ریاست کا وجود عملاً اس کی بنیاد پر قائم نہ ہو۔جہاں اور جن حالات میں اسلام فی الواقع ویسے ہی ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ معترضین کا تصور مذہب ہے وہاں ہم خود بھی مرتد کو سزائے موت دینے کے قائل نہیں ہیں۔ فقہ اسلامی کی رو سے محض ارتداد کی سزا ہی نہیں،اسلام کی تعزیری احکام میں سے کوئی حکم ایسے حالات میں قابلِ نفاذ نہیں رہتا جب کہ اسلامی ریاست (یا بااصلاح شرع”سلطان”) موجود نہ ہو لہذا مسئلہ کے اس پہلو میں ہمارے اور معترضین کے درمیان بحث خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔
اب قابلِ بحث صرف دوسرا پہلو رہ جاتا ہے یعنی یہ کہ جہاں مذہب خود حاکم ہو،جہاں مذہبی قانون ہی ملکی قانون ہو،اور جہاں مذہب ہی نے امن و انتظام کو برقرار رکھنے کی زمہ داری اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہو آیا وہاں بھی مذہب ایسے لوگوں کو سزا دینے کا حق رکھتا ہے یا نہیں جو اس کی اطاعت و وفاداری کا عہد کرنے کے بعد اس سے پھر جائیں۔

ریاست کا قانونی حق:

یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا مذہبی ریاست بجائے خود صحیح ہے یا نہیں،چونکہ اہلِ مغرب کی پشت پر پاپایانِ روم کی ایک المناک تاریخ ہے جس کے زخم خوردہ ہونے کی وجہ سے وہ مذہبی ریاست کا نام سنتے ہی خوف سے لرز اُٹھتے ہیں،اس لئے جب کبھی کسی ایسی چیز کے متعلق انہیں گفتگو کا اتفاق ہوتا ہے جس پر “مذہبی” ریاست ہونے کا گمان کیا جاسکتا ہو (اگرچہ اس کی نوعیت پاپائی سے بالکل مختلف ہی کیوں نہ ہو) تو جذبات کا ہیجان ان کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ بیچارے ٹھنڈے دل سے معقول گفتگو کرسکیں۔رہے ان کے مشرقی شاگرد تو اجتماعی و عمرانی مسائل پر ان کا سرمایہءعلم جو کچھ بھی ہے مغرب سے مانگے پر لیا ہوا ہے اور یہ اپنے استادوں سے صرف ان کی معلومات ہی ورثے میں حاصل نہیں کرتے بلکہ میراثِ علمی کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات،رحجانات اور تعصبات بھی لے لیتے ہیں۔اس لئے قتلِ مرتد اور اس نوعیت کے دوسرے مسائل پر جب بحث کی جاتی ہے تو وہ خواہ اہلِ مغرب ہوں یا ان کے مشرقی شاگرد بالعموم دونوں ہی اپنا توازن کھودیتے ہیں اور اصل قانونی و دستوری سوال کو ان بحثوں میں الجھانے لگتے ہیں جو مذہبی ریاست کے بذاتِ خود غلط یا صحیح ہونے کی بحث سے تعلق رکھتے ہیں۔
حالانکہ اگر بالفرض اسلامی ریاست انہی معنوں میں ایک مذہبی ریاست ہو جن معنوں میں اہل مغرب اسے لیتے ہیں۔تب بھی اس مسئلہ میں یہ بحث بالکل غیر متعلق ہے سوال صرف یہ ہے کہ جو ریاست کسی خطہِ زمین پر حاکمیت رکھتی ہو آیا وہ اپنے وجود کی حفاظت کے لئے ایسے افعال کو جرم قرار دینے کے حق رکھتی ہے یا نہیں جو اس کے نظام کو درہم برہم کرنے والے ہوں؟اس پر اگر کوئی معترض ہو تو وہ ہمیں بتائے کہ دنیا میں کب ریاست نے یہ حق استعمال نہیں کیا ہے؟اور آج کون سی ریاست ایسی ہے جو اس حق کو استعمال نہیں کررہی ہے؟اشتراکی اور فاشسٹ ریاستوں کو چھوڑئیےاُن جمہوری ریاستوں ہی کو دیکھ لیجئے جن کی تاریخ اور جن کے نظریات سے موجودہ زمانے کی دنیا نے جمہوریت کا سبق سیکھا ہے اور جن کو آج جمہوری نظام کی علمبرداری کا شرف حاصل ہے کیا یہ اس حق کو استعمال نہیں کررہی ہیں۔
برطانیہ کی مثال
برطانیہ کا قانون جن لوگوں سے بحث کرتا ہے وہ دو بڑی قسموں پر تقسیم ہوتے ہیں ایک برطانوی رعایا (British subjects) دوسرے اغیار (Aliens) ۔
برطانوی رعایا (British subjects)
برطانوی رعایا کا ا طلاق دو قسم کے لوگوں پر ہوتا ہے :
1. برطانوی حدود کے اندر یا باہر ایسے باپوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہوں جو شاہِ برطانیہ کی اطاعت ووفاداری کےملتزم ہوں فطرۃ پیدائشی رعایائے برطانیہ (Natural Born British Subjects) کہلاتے ہیں اور ان کو شروع سے اطاعت و وفاداری کا ملتزم قرار دیا جاتا ہے بغیر اس کے اُنہوں نے بالارارہ شاہ برطانیہ کی وفاداری کا فزیکلی حلف لیا ہو۔
2. ثانیاً یہ لفظ ان لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جو پہلے اغیار میں سے تھے اور پھر چند قانونی شرائط کی تکمیل کے بعد انہوں نے شاہِ برطانیہ کی وفاداری کا حلف لے کر برطانیہ کی رعایا ہونے کا سرٹیفیکٹ حاصل کرلیا ۔
اغیار (Aliens) :۔
اغیار سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو کسی دوسری قومیت سے تعلق رکھتے ہوں اور کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کے ملتزم ہوں مگر برطانوی حدودِ مملکت میں مقیم ہوں ۔
ان مختلف قسم کے اشخاص کے متعلق حسبِ ذیل اصول قابلِ ملاحظہ ہیں۔
1. اغیار میں سے ہر شخص جو برطانوی رعایا ہونے کے لئے ضروری شرائط کی تکمیل کرچکا ہو،یہ اختیار رکھتا ہے کہ اپنی سابق قومیت ترک کرکے برطانوی قومیت میں داخل ہونے کی درخواست کرے۔اس صورت میں سیکریٹری آف اسٹیٹ اس کے حالات کی تحقیق کرنے کے بعد شاہ برطانیہ کی اطاعت و وفاداری کا حلف لے کر اُسے برطانوی قومیت کا سرٹیفیکٹ عطا کردے گا۔
2. کوئی شخص خواہ پیدائشی رعایا ئے برطانیہ ہو یا باختیارِ خود برطانوی رعایا میں داخل ہو ا ہو،ازروئے قانون یہ حق نہیں رکھتا کہ مملکت برطانیہ کی حدود میں رہتے ہوئے کسی دوسری قومیت کو اختیار کر لے اور اسکی مخالف کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھائے ۔یہ حق اسے صرف اس صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جبکہ وہ برطانوی حدود سے باہر مقیم ہو۔
3. برطانوی حدود سے باہر مقیم ہونے کی صورت میں بھی رعایا ئے برطانیہ کا کوئی فرد (خواہ وہ پیدائشی رعیت ہو یا رعیت بن گیا ہو)یہ حق نہیں رکھتا کہ حالتِ جنگ میں برطانوی قومیت ترک کرکے کسی ایسی قوم کی قومیت اور کسی ایسی اسٹیٹ کی وفاداری اختیار کرلے جو شاہِ برطانیہ سے برسرِ جنگ ہو۔یہ فعل برطانوی قانون کی رو سے غدرِ کبیرہے جس کی سزا موت ہے۔
4. برطانوی رعایا میں سے جو شخص بھی برطانوی حدود کے اندر یا باہر رہتے ہوئے بادشاہ کے دشمنوں سے تعلق رکھے اور ان کو مدد اور آسائش بہم پہنچائے یا کوئی ایسا فعل کرے جو بادشاہ کے دشمنوں کو تقویت پہنچانے والا یا بادشاہ اور ملک کی قوتِ حملہ و مدافعت کو کمزور کرنے والا ہو وہ بھی غدرِ کبیر کا مرتکب ہے اور اس کی سزا بھی موت ہے۔
5. بادشاہ ،ملکہ یا ولی عہد کی موت کے درپے ہونا یا اس کا تصور کرنا،بادشاہ کی رفیقہ یا اس کی بڑی بیٹی یا ولی عہد کی بیوی کو بے حرمت کرنا،بادشاہ کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنا یا نشانہ تاکنا یا ہتھیار اس کے سامنے لانا جس سے مقصود اس کو نقصان پہنچانا یا خوفزدہ کرنا ہو۔اسٹیٹ کے مذہب کو تبدیل کرنے یا اسٹیٹ کے قوانین کو منسوخ کرنے کے لئے قوت استعمال کرنا،یہ سب افعال بھی غدرِ کبیر ہیں اور ان کا مرتکب بھی سزائے موت کا مستحق ہے۔
6. بادشاہ کو اس کے منصب،اعزاز یا القاب سے محروم یا معزول کرنا بھی جرم ہے،جس کی سزا حبسِ دوام تک ہوسکتی ہے۔
ان سب امور میں بادشاہ سے مراد وہ شخص ہے جو بالفعل بادشاہ ہو،خواہ بالحق بادشاہ ہو یا نہ ہو،اس سے صاف ظاہر ہے یہ کہ قوانین کسی جذباتی بنیاد پر مبنی نہیں ہیں بلکہ اس اصول پر مبنی ہیں کہ قائم شدہ ریاست جس کے قیام پر ایک خطہء زمین میں سوسائٹی کے نظم کا قیام منحصر ہو،اپنے اجزائے ترکیبی کو انتشار سے روکنے اور اپنے نظام کو خرابی سے بچانے کے لئے طاقت کا استعمال کا حق رکھتی ہے۔
اب دیکھئے کہ برطانوی قانون جنہیں”اغیار” کہتا ہے ان کی حیثیت تھوڑے سے فرق کے ساتھ وہی ہے جو اسلامی قانون میں ان لوگوں کی حیثیت ہے جو “ذمی”کہلاتے ہیں۔جس طرح برطانوی رعایا کا اطلاق پیدائشی اور اختیاری رعایا پر ہوتا ہے اسی طرح اسلام میں بھی “مسلمان” کا اطلاق دو قسم کے لوگوں پر ہوتا ہے ایک وہ جو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوں،دوسرے وہ جو غیر مسلموں میں سے باختیار خود اسلام قبول کریں۔
ذمی کی بحث کو سمجھنے کے لئے یہ ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ برطانوی قانون میں “غیر” (ELIEN) سے مراد وہ شخص ہے جو تاج برطانیہ کی وفاداری کا ملتزم نہ ہوا اور برطانوی حدود میں آکر رہے ایسے شخص کو بشرطیکہ وہ جائز طریقے سے ملک میں آئے اور ملک کے قوانین و نظم و نسق کا احترام ملحوظ رکھے،برطانوی حدود میں تحفظ تو عطا کیا جائے گا مگر مکمل حقوق شہریت نہ دیئے جائیں گے۔حقوق شہریت صرف اُن لوگوں کا حصہ ہیں جو تاج برطانیہ کی وفاداری کے ملتزم ہوں ۔علاوہ بریں “غیر” بن کر حدود برطانیہ میں رہنے کا حق صرف عارضی طور ہر باہر سے آکر رہنے والوں ہی کو دیا جاسکتا ہے۔برطانوی مملکت کے مستقل باشندوں اور پیدائشی باشندوں کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ “غیر”بن کر (یعنی تاج برطانیہ کے سوا کسی اور کی وفاداری کے ملتزم ہوکر) بھی رعایا کے حقوق کے ساتھ حدود برطانیہ میں رہیں۔اس کے برعکس اسلام کا دستوری قانون اُن لوگوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے جو خدا اور رسول کی وفاداری کے ملتزم نہ ہوں پھر وہ ان کو حیثیات اور حقوق کے لحاظ سے اس طرح تقسیم کرتا ہے:
1. جو غیر مسلم باہر سے اسلامی مملکت میں جائز طریقے سے آئیں اور ملک کے قوانین اور نظم و نسق کے احترام کا التزام کریں وہ”مستامن”ہیں ان کو تحفظ عطا کیا جائے گا۔مگر حقوق شہریت نہ دیئے جائیں گے۔
2. جو غیر مسلم اسلامی مملکت کے مستقل اور پیدائشی باشندے ہوں اُن کو بھی اسلامی قانون (تمام دنیا کے دستوری قوانین کے بخلاف)یہ حق دیتا ہے کہ وہ مملکت میں “غیر مسلم”بن کر رہیں یعنی خدا اور رسول کی وفاداری کے ملتزم نہ ہوں۔ایسے لوگ اگر اسلامی مملکت کی اطاعت و خیر خواہی کا اقرار کریں تو اسلامی قانون ان کو “ذمی رعایا” بنا لیتا ہے اور اُنہیں صرف تحفظ ہی عطا نہیں کرتا بلکہ ایک حد تک شہریت کے حقوق بھی دیتا ہے۔
3. باہر سے آنے والے غیر مسلم بھی اگر ذمی رعایا بننا چاہیں تو ذمّیت کی شرائط پوری کرکے وہ اس زمرے میں شامل ہوسکتے ہیں اور ان کو بھی تحفظ کے ساتھ نیم شہریت کے حقوق مل سکتے ہیں۔لیکن ذمّی بن جانے کے بعد پھر ان کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اسلامی مملکت میں رہتے ہوئے “ذمّہ” سے خارج ہوسکیں “ذمّہ”سے نکلنے کی صورت ان کے لئے صرف یہ ہے کہ مملکت سے نکل جائیں۔
4. اسلامی مملکت میں مکمل شہریت (Full Citizenship) کے حقوق صرف ان لوگوں کے لئے خاص ہیں جو “مسلم”یعنی خدا اور رسول کی وفاداری و اطاعت کے ملتزم ہوں خواہ مملکت کے پیدائشی باشندے ہوں یا باہر سے ہجرت کرکے آئیں۔مگر جو شخص مسلم ہو یا مسلم بن چکا ہو وہ مملکت میں رہتے ہوئے پھر غیر مسلم نہیں بن سکتا۔یہ پوزیشن وہ مملکت سے باہر جاکر چاہئے تو اختیار کرلے لیکن مملکت کے اندر وہ ایسا کرے گا تو صرف یہی نہیں کہ اسے “ذمی” یا مستامن کے حقوق نہ ملیں گے بلکہ اس کا یہ فعل بجائے خود”غدر” قرار دیا جائے گا۔
موازنہ
1. برطانوی قانون بادشاہ اور شاہی خاندان کو صاحب حاکمیت ہونے کی حیثیت سے جو مقام دیتا ہے اسلامی قانون وہی حیثیت خدا اور اس کے رسول کو دیتا ہے ۔پھر جس طرح برطانوی رعایا اور اغیار کے حقوق و واجبات میں فرق کرتا ہے اسی طرح اسلام بھی مسلم اور ذمی کے حقوق و واجبات میں فرق کرتا ہے.
2. جس طرح برطانوی قانون برطانوی رعایا میں سے کسی شخص کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ حدود مملکت برطانیہ میں رہتے ہوئے کسی دوسری نیشنلٹی کو اختیار کرےاور کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھاۓ یا (برطانیہ کی حدود میں رہتے ہوئے) اپنی سابق قومیت کی طرف پلٹ جاۓ اسی طرح اسلامی قانون بھی کسی مسلم کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ دار الاسلام.کے اندر رہتے ہوۓ کوئی دوسرا دین اختیار کرے یا اس دین کی طرف پلٹ جاۓ جسے ترک کر کے وہ دین اسلام میں آیاتھا۔
3. جس طرح برطانوی قانون کی رو سے برطانوی رعایا کا وہ فرد سزاۓ موت کا مستحق ہے جو برطانوی حدود کے باہر رہتے ہوۓ شاہ برطانیہ کے دشمنوں کی قومیت اختیار کرے اور کسی دشمن سلطنت کی وفاداری کا حلف اٹھاۓ اسی طرح اسلامی قانون کی رو سے وہ مسلمان بھی سزا کا مستحق ہے جو دار الاسلام کے باہر رہتے ہوۓ حربی کافروں کا دین اختیار کرے۔
4. جس طرح برطانوی قانون ان لوگوں کو اغیار کے حقوق دینے کیلۓ تیار ہے جنھوں نے برطانوی قومیت چھوڑ کر کسی برسر صلح قوم.کی قومیت اختیار کرلی ہو اسی طرح اسلامی قانون بھی ان مرتدین کے ساتھ معاہد قوم کے کافروں کا سا معاملہ کرتا ہے جو دار الاسلام سے نکل کر کسی ایسی کافر قوم سے جا ملے ہوں جس سے اسلامی حکومت کا معاہدہ ہو۔
اب یہ ہمارے لۓ ایک ناقابل حل معمہ ہے کہ جن لوگوں کی سمجھ میں اسلامی قانون کی پوزیشن نہیں آتی انکی سمجھ میں برطانوی قانون کی پوزیشن کیسے آجاتی ہے.؟
امریکہ کی مثال:
برطانیہ کے بعد اب دوسرے علمبردار جمہوریت ملک امریکہ کو لے لیجۓ اس کے قوانین اگرچہ تفصیلات میں برطانیہ سے مختلف ہیں لیکن اصول میں وہ بھی اس کے ساتھ پوری موافقت رکھتے ہیں فرق بس یہ ہے کہ یہاں جو مقام بادشاہ کو دیا گیا ہے وہاں وہی مقام ممالک متحدہ کی قومی حاکمیت اور وفاقی دستور کو دیا گیا ہے ۔
امریکہ کا پیدائشی شہری وہ ہے جو شہری کی اولاد سے پیدا ہواہو یو ایس کی حدود میں پیدا ہوا ہویا ان سے باہراور اختیاری شہری ہر وہ شخص ہوسکتا ہے جو چند قانونی شرائط کی تکمیل کے بعددستورممالک متحدہ کے اصولوں کی وفاداری کا حلف اٹھاۓ۔ ان دو قسم.کے شہریوں کے ماسوا باقی سب لوگ امریکی نگاہ میں غیر ہیں ۔شہری اور اغیار کے حقوق وواجبات کے درمیان امریکی قانون وہی فرق کرتا ہے جو برطانوی قانون رعیت اور اغیار کے حقوق و واجبات کے درمیان کرتا ہے۔ ایک غیر شخص شہریت کی قانونی شرطیں پوری کرنے کے بعدامریکہ کا شہری بن جانے میں تو آزاد ہے مگر شہری بن جانے کے بعد پھر اسے یہ آزادی حاصل نہیں رہتی کہ ملک کی حدود میں رہتے ہوۓ دوبارہ اپنی سابق قومیت کی طرف پلٹ جاۓ۔ اسی طرح کسی پیدائشی شہری کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ امریکہ کی حدود میں کسی دوسری قومیت کو اختیار کرے اور کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھاۓ۔ علی ہذا القیاس شہریوں کیلۓ غدر اور بغاوت قوانین امریکہ میں انہی اصولوں پر مبنی ہیں جن پر برطانوی قانون غدر و بغاوت کی اساس رکھی گئ ہے اور یہ کچھ ان دونوں سلطنتوں پر موقوف نہیں ہے بلکہ دنیا کے جس ملک کا بھی قانون آپ اٹھا کر دیکھیں گے وہاں آپ کو یہی اصول کام کرتا نظر آۓ گا کہ ایک اسٹیٹ جن عناصر کے اجتماع سے تعمیرہوتا ہے وہ ان کو بزور منتشر ہونے سے روکتا ہے اور ہر اس چیز کو طاقت سے دباتا ہے جو اس کے نظام.کو درہم برہم کرنے کا رجحان رکھتی ہو..
ریاست کا فطری حق :

یہ ایک جدا گانہ بحث ہے کہ ایک اسٹیٹ کا وجود بجائے خود جائز ہے یا نہیں .. اس معاملہ میں ہمارا اور دنیوی ریاستوں کے حامی کا نقطۂ نظر مختلف ہے ہمارے نزدیک خدا کی حاکمیت کے سوا ہر دوسری حاکمیت پر ریاست کی تعمیر سرے سے ناجائز ہے اس لئے جو ریاست بجائے خود ناجائز بنیاد پر قائم ہو اس کے لئے ہم اس بات کو جائز تسلیم نہیں کرسکتے کہ وہ اپنے ناجائز وجود اور غلط نظام کی حفاظت کے لئے قوت استعمال کرے اس کے برعکس ہمارے مخالفین الہی ریاست کو ناجائز اور صرف دنیوی ریاست ہی کو جائز سمجھتے ہیں اس لئے ان کے نزدیک ایک دنیوی ریاست کا اپنا وجود و نظام حفاظت میں جبر سے کام لینا عین حق اور الہی ریاست کا یہی فعل عین باطل ہے ۔لیکن اس بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ قاعدہ اپنی جگہ عالمگیر مقبولیت رکھتا ہے کہ ریاست اور حاکمیت کی عین فطرت کس امر کی مقتضی ہے کہ اسے اپنے وجود اور اپنے نظام کی حفاظت کے لئے جبر اور قوت کے استعمال کا حق حاصل ہو..
ایک منظم سوسائٹی جو ریاست کی شکل اختیار کرچکی ہو ایسے لوگوں کے لئے اپنے حدود عمل میں بمشکل ہی گنجائش نکال سکتی ہےجو بنیادی امور میں اس سے اختلاف رکھتے ہوں۔فروعی اختلافات تو کم و بیش برداشت کیے جاسکتے ہیں۔لیکن جو لوگ سرے سے ان بنیادوں ہی سے اختلاف رکھتے ہوں جن پر سوسائٹی اور ریاست کا نظام قائم ہوا ہو، ان کو سوسائٹی میں جگہ دینا اور اسٹیٹ کا جزو بنانا سخت مشکل ہے۔
مرتد کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اپنے ارتداد سے اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ سوسائٹی اور اسٹیٹ کی تنظیم جس بنیاد پر رکھی گئی ہے اس کو نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کرتا بلکہ اس سے کبھی آئندہ بھی یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ اسے قبول کرے گا ایسے شخص کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ جب اپنے لئے اس بنیاد کو ناقابلِ قبول پاتا ہے جس پر سوسائٹی اور اسٹیٹ کی تعمیر ہوئی ہے تو خود اس کے حدود سے نکل جائے مگر جب وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے لئے دو ہی علاج ممکن ہیں یا تو اسے اسٹیٹ میں تمام حقوق شہریت سے محروم کرکے زندہ رہنے دیا جائے یا پھر اُس کی زندگی کا خاتمہ کردیا جائے۔پہلی صورت فی الواقع دوسری صورت سے شدید تر سزا ہے۔کیوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى کی حالت میں مبتلا رہے اور اس صورت میں سوسائٹی کے لئے بھی وہ زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی ذات سے ایک مستقل فتنہ لوگوں کے درمیان پھیلتا رہے گا اور دوسرے صحیح و سالم اعضا میں بھی اس کے زہر کے سرایت کرنے کا اندیشہ ہوگا۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ اسے موت کی سزا دے کر اس کی اور سوسائٹی کی مصیبت کا بیک وقت خاتمہ کردیا جائے۔
اس معاملہ میں اسلام میں جتنی رواداری برتی ہے،دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی دوسرے نظام نے نہیں برتی ،دوسرے جتنے نظام ہیں وہ اساسی اختلاف رکھنے والوں کو یا تو زبردستی اپنے اصولوں کا پابند بناتے ہیں یا انہیں بالکل فنا کردیتے ہیں۔یہ صرف اسلام ہی ہے جو ایسے(غیر مسلم) لوگوں کو ذمی کا درجہ دے کے اور اُنہیں زیادہ سے زیادہ ممکن آزادی عمل دے کر اپنے حدود میں جگہ دیتا ہے اور ان کے بہت سے ایسے اعمال کو برداشت کرتا ہے جو براہ ِراست اسلامی سوسائٹی اور اسٹیٹ کی اساس سے متصادم نہیں ہوتے ہیں۔اس رواداری کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام انسانی فطرت سے مایوس نہیں ہے وہ خدا کے بندوں سے آخر وقت تک یہ امید وابستہ رکھتا ہے کہ جب انہیں حق کے ماتحت رہ کر اس کی نعمتوں اور برکتوں کے مشاہدہ کا موقع ملے گا تو وہ بالاَخر اس حق کو قبول کرلیں گے ‘جس کی روشنی فی الحال انہیں نظر نہیں آرہی۔اسی لئے وہ صبر سے کام لیتا ہے اور ان سنگریزوں کو جو اس کی سوسائٹی اور ریاست میں حل نہیں ہوتے اس امید پر برداشت کرتا رہتا ہے کہ کبھی نہ کبھی ان کی قلب ماہیت ہوجائے گی اور وہ تحلیل ہونا قبول کرلیں گےلیکن ۔۔۔۔۔۔جو سنگریزہ ایک مرتبہ تحلیل ہونے کے بعد پھر سنگریزہ بن جائے اور ثابت کردے کہ وہ سرے سے اس نظام میں حل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔اس کا کوئی علاج اس کے سوا نہیں کہ اُسے نکال کر پھینک دیا جائے اور اس کی انفرادی ہستی خواہ کتنی ہی قیمتی ہو،مگر بہرحال وہ اتنی قیمتی تو نہیں کہ سوسائٹی کے پورے نظام کی خرابی اس کی خاطر گوارہ کی جائے۔
 
محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 40 Articles with 54821 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.