موجودہ دور میں اللہ نے اپنے بندوں پر
چھوٹے بڑے ہر طرح کی نعمتوں کی بارش کی ہوئی ہے۔ آج ایک عام آدمی کو بھی وہ
نعمتیں میسّرہیں جو کبھی بادشاہوں کی بھی پہنچ میں نہ تھی۔ اِن ہی نعمتوں
میں ایک چھوٹی سی نعمت ہے ’ ٹِشو پیپر‘۔
ٹِشو پیپر کہنے کولطیف قسم کی کاغذ ہے لیکن موجودہ شہری ضروریاتِ زندگی میں
شامل ہے۔ شہر کا متمول طبقہ اپنی کار اور ڈرائنگ و ڈائننگ رومز کو ٹِسو
پیپرز سے زینت بخشتا ہے۔
سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں محکمۂ اوقاف کے طرف سے مسجدوں میں نزلہ‘
زکام‘ کھانسی وغیرہ میں مبتلا نمازیوں کی صفائی ستھرائی کا خیال کرتے ہوئے
ٹِسو پیپرز کے ڈبے رکھے جاتے ہیں۔
لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جسے ایک یا دو ٹِسو پیپر کی ضرورت ہوتی ہے
وہ دس ٹِسو پیپرز کھینچ نکالتا ہے‘ اور اس طرح اپنے استعمال میں لانے سے
زیادہ ضائع کرتا ہے۔
اللہ کے اُس بندے کو یہ احساس ہی نہیں کہ ٹِسو پیپرز کی یہ نعمت جو اُسے
مفت مل رہی ہے لیکن مفت نہیں ہے‘ اس کا حساب اُسے یہاں نہیں لیکن اللہ کے
پاس دینا ہے۔ ضرورت سے زیادہ لے کر ضائع کرنے کی صورت میں وہ کفرانِ نعمت
اور دوسرے ضرورت مندوں کے حقوق کو پامال کرنے کا مجرم بن رہا ہےکیونکہ نعمت
کا غلط استعمال یا نعمت کا ضائع کرنا کفرانِ نعمت ہے اور اس نعمت کو ضائع
کرنے کی وجہ کر دوسرے ضرورت مندوں کو یہ نعمت نہیں ملے گی اس لئے وہ دوسروں
کے حقوق کو پامال کرنے والا بھی ٹھہرا۔
اس طرح مسجدمیں اللہ کی عبادت اور رضا مندی کیلئے آنے والا اللہ کی ناراضگی
مول رہا ہے۔
مومن بندے کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے کہ کہیں کوئی گناہ نہ ہو
جائے؟
تھوڑی سی لاپرواہی سے بے وزن ٹِشو پیپر باوزن گناہ بن سکتا ہے جو گناہوں کا
پلڑا جھکانے کیلئے کافی ہو۔
*** *** *** *** *** *** *** *** *** ***
اسی طرح جمعہ کے دن مسجدوں پانی کے بوتل بھی رکھے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اتنے
حریص ہوتے ہیں کہ ایک کی جگہ تین چار پانی کے بوتلیں اُٹھا لیتے ہیں۔ اور
تو اور اپنے بچوں کو بھی یہی سِکھاتے ہیں۔ ایک آدھ بوتل پانی کی وہیں پیتے
ہیں اور باقی گھر بھی لے جاتے ہیں۔ ان کے زیادہ بوتلیں لینے کی وجہ کر اکثر
ایسا ہوتا ہے کہ گرمیوں میں دورسے آئے ہوئے نمازیوں کو (جنہیں پیاس لگی
ہوتی ہے) پانی نہیں ملتا اور ضرورت مند کا حق مارا جاتا ہے۔
لیکن اِس امت میں اب ایسے لوگ کہاں جو جہاد میں زخموں سے چور ہونے کے
باوجود خود پانی نہیں پی کر دوسرے زخمی کو پانی پلانے کو کہےاور دوسرا
تیسرے کواور پھر سارے بغیر پانی پیئے جامِ شہادت نوش کریں۔
جس اُمت کے نبی ﷺ نے کتے کو پانی پلانے والے کی مغفرت کی خبر سنائیں‘ اُس
اُمت کے بعض لوگوں کا یہ حال ہوچکا ہے کہ سب کچھ خود ہی پی جاؤ۔
*** *** *** *** *** *** *** *** *** ***
سعودی عرب میں اکثریت نماز با جماعت پڑھنے کا اہتمام کرتی ہے۔
لیکن جب مغرب کا وقت ہو اور آذان ہو جائے تو ٹریفک کی بدتمیزی عروج پر ہوتی
ہے۔
ٹریفک قانونکا احترام کرنے والے ڈرائیور حضرات کسی سگنل یا مخرج پر لائن سے
اپنی گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اوپر سے آکر ساری گاڑیوں کو
روکتے ہوئے نکلنے کی کوشش میں ٹریفک جام کر دیتے ہیں ..
اس طرح نماز باجماعت ادا کرنے کیلئے بعض لوگ دوسروں کوتکلیف دیتے ہوئے اور
اُن کی حق تلفی کرتے ہوئے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسروں کے حقوق پامال کرکے مغرب کی نماز باجماعت ادا کرنا کہاں کی سعادت
مندی ہے ؟
اللہ تعالیٰ عقل سلیم سے نوازے۔ آمین
*** *** *** *** *** *** *** *** *** ***
کچھ لوگ وضو کرتے ہوئے پانی کا بے دریغاستعمال کرتے ہیں۔
وضو کرنے کیلئے پانی بھی مفت میں میسّرہے ۔ اگر یہ پانی انہیں بھاری قیمت
پر خریدنا پڑتا پھر دیکھا جاتا کہ کس طرح استعمال کرتےہیں۔
لیکن قیمت ادا کرنےکا احساس سے یہ بہتر نہیں کہ اللہ کے پاس اس نعمت کی
جواب دہی کا احساس پیدا ہو ۔
اگرچہ یہ نعمتیں آج ہمیں مفت میں مل رہی ہے لیکن یہ سب مفت نہیں ہے۔
آخرت میں ہمیں ان سب کی قیمت چکانی ہے۔
اللہ کے سامنے ان سب کا حساب دینا ہے۔
کاش مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہو جائے!
*** *** *** *** *** *** *** *** *** ***
شو ریکس ( shoe racks ) رہنے کے باوجود مسجد کے دروازے پر رکھے جوتے اور
چپل جو بے ہنگم منظر پیش کرتا ہے وہ اِس اُمت کی نظم و ضبط کے فقدان کا منہ
بولتا ثبوت ہے۔
مسجد کے اندر پوری نظم و ضبط کے ساتھ قیام‘ رکوع و سجود کرنے والے مسجد کے
دروازے پر ہی جب سارے نظم و ضبط بھول جاتے ہیں تو اپنے گھروں دفتروں اور
بازاروں میں کیا نظم و ضبط کا خیال رکھیں گے اور ایسی اُمت پر اللہ کی
پھٹکار نہیں برسے گی تو اور کیا ہوگا؟ کیا نظم و ضبط کا اس فقدان کے ساتھ
کوئی قوم دشمنون کا مقابلہ کر سکتی ہے؟
*** *** *** *** *** *** *** *** *** ***
مغرب کا وقت ہے ۔ کچھ لوگ وضو کی جگہ پر بیٹھے مسواک کئے جا رہے ہیں ۔
برابر سے چارآدمی وضو کرکےجا چکے ہیں لیکن صاحب کا مسواک کرنا ہی ختم نہیں
ہوتا۔ کیا پبلک وضو خانے میں یہ طریقہ اپنانا چاہئے؟۔ آپ اپنے گھر میں
گھنٹوں مسواک کرتے رہیں ۔۔۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن پبلک وضو خانے میں تو
دوسروں کا خیال کیجئے۔
*** *** *** *** *** *** *** *** *** ***
کچھ لوگ وضو کرتے ہوئے ’ خا‘ ’ خو‘ جیسی عجیب و غریب آوازیں حلق سےاِس زور
سے نکالتے ہیں کہ پاس بیٹھے دوسرے لوگوں کو کوفت ہوتی ہے۔
جب چھینککی آواز بھی پست کرنے کا حکم ہے تو پبلک وضو خانے میں بے ہنگم
آوازیں نکال کر دوسروں کوتکلیف دینا کہاں کا انصاف ہے؟
ایک مقدس عبادت کی تیاری کے وقت پاس بیٹھے دوسرے مسلمان بھائیوں کا خیال
رکھنا بھی تو عبادت ہی ہے!
نہ جانے کب یہ احساس پیدا ہوگا؟
|