تہیہ

 تہیہ بھی عجیب چیز ہے، یہ ایسی کرنے کی چیز ہے جسے زیادہ تر حکمران ہی کرتے ہیں، اور کر کے رکھ دیتے ہیں۔ قوم پر یہ راز کبھی فاش نہیں ہو سکا کہ یہ تہیہ کر کے کہاں رکھا جاتا ہے؟ جس طرح بے شمار معاملات وسیع تر قومی مفاد میں عوام کے سامنے نہیں لائے جاتے ، شاید تہیہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ اپنی حکومتوں کے پاس اس طرح کے نہ جانے کتنے خفیہ گودام ہیں، جن میں بے شمار سربستہ راز اس بے ہنگم طریقے سے رکھے جاتے ہیں کہ نکالنے کے امکانات معدوم ہی رہتے ہیں۔ حکمرانوں اور ان کی کچن کابیناؤں کے ارکان کے دل بھی سمندر جیسے گہرے ہوتے ہیں، جہاں کرپشن کے خوفناک مگر مچھ بھی رہتے ہیں، خواہشات کی رنگارنگ مچھلیاں بھی، مخالفت اور کینہ پروری کے دریائی گھوڑے بھی اور نفرت کی آلودگی بھی۔ ہو سکتا ہے کہ ’’سمندروں‘‘ میں دیگر آلائشوں کے ساتھ تہیئے بھی یہیں کہیں رکھ دیئے گئے ہوں، یہ امکان بھی غالب ہے کہ ان ’سمندروں‘ میں سب سے زیادہ تو خواہشات کا ذخیرہ ہی ہو گا، پھر کرپشن کا نمبر ہو سکتا ہے اور تیسری چیز یہی تہیہ ہی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر جو کچھ ’سمندر‘ میں غرق ہو گیا ، اس کی بازیابی تو اک خواب ہی ہو سکتا ہے۔

کہنے کو تو تہیہ کسی کام کے کرنے کی تیاری کا نام ہے، جو انسان ذہنی طور پر کچھ کرنے کی نیت کرتا ہے وہی اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اگر ابتداء نیم دلی یا مایوسی سے کی جائے تو منزل دور ہوتی جاتی ہے۔ جو شخص اعلانیہ تہیہ کرتا ہے اس پر اعتراض اور شک مناسب رویہ نہیں۔ اکثر تہیے تو حکمران خود اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں، بعض اوقات افسران وغیرہ اپنے ماتحتوں کے ذمہ لگا دیتے ہیں کہ وہ ان کے تہیوں کو عوام تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیں۔ حکومتوں نے تو اپنے موقف وغیرہ بیان کرنے کے لئے الگ سے نمائندے مقرر کر رکھے ہیں۔ مقامِ حیرت ہے کہ صدر مملکت کے تہیے بھی اخبارات میں شائع ہو تے رہتے ہیں، حالانکہ ایوانِ صدر میں تہیہ رکھنے کی بہت جگہ ہے،گویا وہ تہیہ کرکے وہیں رکھ بھی سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کے تہیے بیان کر رہے ہیں، مثلاً ’’حکومت نے غربت اور مہنگائی کے خاتمے کا تہیہ کر رکھا ہے‘‘۔ تو سوچنے والی بات ہے کہ صدر صاحب کو حکومت کے تہییوں کا کیسے پتہ چل گیا؟ فرض کریں حکومت نے اپنے تہیوں سے خود انہیں آگاہ کیا ہے، تو انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس قدر تہیے کر لینے کے بعد حکومت انہیں کہاں ذخیرہ کرتی ہے؟ اپنے ہاں ’’صدرِ مملکت‘‘ کی یہی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے بھجوائے گئے بیانات وغیرہ جاری کیا کریں، اُن کے تہییوں سے قوم کو آگاہ کریں۔ ہم صدر کو یہ مشورہ دینے اور صدر اس پر عمل کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں کہ محترم! جب جناب کا کوئی ذاتی تہیہ ہے ہی نہیں تو دوسروں کے تہیے پڑھ کر سنانے سے قوم کی کونسی خدمت سرانجام دی جارہی ہے؟ جن کا تہیہ بیان کیا جاتا ہے اگر وہ خود ہی اس پر عمل پیرا نہ ہوں تو صدر قوم کو کیا جواب دیں گے؟

حکمرانوں کے چند مشہور تہیے اس طرح ہیں، ’حکومت نے غربت کو ختم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے‘، ’حکومت نے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کا تہیہ کر رکھا ہے‘، ’حکومت نے ملک میں سبز انقلاب لانے کا تہیہ کر رکھا ہے‘، ’حکومت نے شرح خواندگی کو بہتر کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے‘، ’حکومت نے تعلیم مفت اور لازمی کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے‘ ، ’حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کا تہیہ کر رکھا ہے‘، ’حکومت نے سستا اور فوری انصاف ہر گھر کی دہلیز پر پہنچانے کا تہیہ کر رکھا ہے‘۔ ان بڑے اور قومی تہیوں کے علاوہ ذاتی اور مقامی تہیے بھی ہیں، بہت سے تہیے محکمانہ بھی ہوتے ہیں، جو حکومتوں نے محکموں کے بارے میں یا خود محکموں نے اپنے طور پر کر رکھے ہوتے ہیں۔ ’’سرکاری‘‘تہیے اپنے پس منظر، نتائج اور اثرات کے لحاظ سے ایک دوسرے حکمرانوں سے قطعی طور پر مختلف ہوتے ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ متضاد ہوتے ہیں تو بے جانہ ہوگا۔ کوئی بھی حکومتی دعویٰ جسے تہیہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، کبھی اس پر عمل نہیں ہوتا، یوں کہا جاسکتا ہے کہ جس کام یا قول پر حکومت نے عمل نہ کرنا ہو تو اس کو تہیہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472202 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.