مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی پیدائش
(Dr Tasawar Hussain Mirza, Lahore)
تنظیم ِ مغلیہ جہلم اور ندیم ساجد مغل ایک
چیز کے دو نام ہیں، ویسے بھی جب کوئی انسان کسی چیز کو بناتا ہے تو قدرتی
طور پر اس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے ۔ اگر محبت ہو اور وہ بھی عشق کی صورت
میں نہ ہو تو انسان کو ’’ بانی ‘‘کا اعزاز حاصل نہیں ہو سکتا۔ بھائی ندیم
ساجد مغل کا شمار ان متحرک لوگوں میں ہوتا ہے جو محنت اور محبت کو اپنا
شیواہ بنا کر لوگوں کے دلوں میں رچ بس جاتے ہیں ۔ بحثیت انسان خطائیں اور
غلطیوں سے کوئی بشر مبرا نہیں ۔ اچھے لوگوں کی خاصیت ہوتی ہے وہ لوگوں کی
برائیاں چھوڑ کر ’’ اچھائیاں ‘‘ تلاش کرتے ہیں ۔
آج کے اس مادہ پرستی کے دور میں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر برادی کے لئے
دن رات ایک کرنا یہ کوئی آسان کام نہیں ۔ یہ اعزاز بھی جہلم کے سپوت ساجد
ندیم مغل کو ہی جاتا ہے۔
آج سے تقریباً پانچ سال قبل 2012ء سے ندیم ساجد مغل نے تنظیم مغلیہ جہلم کو
آرگنائز کردیا جو 2010ء کو انکی سوچ تھی اس کو عملی جامعہ 2012 ء میں پہنا
کر جہلم سرائے عالمگیر، سوہاوہ دینہ اور گردونوح تک ہی نہیں بلکہ پاکستان
کے چپہ چپہ سے مغل برادی کے چشم و چراغوں کو اکھٹا کیا یہ اگر نہ ممکن نہیں
تھا تو مشکل ضرور تھا۔ کام کاج گھر بار بیوی بچے اور فیملی کو وقت دینے کی
بجائے ’’ برادری ‘‘کو وقت دیایہ کہنے میں بہت آسان ہے مگر کرنے میں بہت
مشکل ہے بھر حال میں بات کو لمبا کرنے کی بجائے اسے ’’ خدا کی طرف سے توفیق
‘‘ کہہ کر اصل جانب آتا ہوں ۔
وہ تنظیم مغلیہ جہلم جس کی بنیاد ’’ مغل براد ی کی یک جہتی ‘‘ کے لئے رکھی
تھی،مجھے یہ بتانے میں فخر ہو رہا ہے تنظیم مغلیہ جہلم جو سن 2012ء میں
نومولود تھی آج ایک قد آور سر سبزو شاداب درخت کی مانند ہو چکی ہے۔
تنظیم مغلیہ جہلم نے ندیم ساجد مغل کی انتھک محنت اور جہدوجہدسے ہندوستاں
میں پہلے مغل اور مسلمان بادشاہ مرزا ظہیر الدین مغل کی پیدائش 14
فروری2014 ء سے منانا شروع کی جس کی دیکھا دیکھی اب ملک عزیز کے اکثرو
پیشتر شہروں میں بڑی آن بان اور ٹھان سے منائی جا رہی ہے ، یہ سلسلہ اب
جہلم ، پنجاب اور پاکستان سے ہوتا ہوا ، بھارت، سری لنکا،بنگلا دیش سمیت برِ
صغیر میں پھیلانا شروع ہو گیا ہے۔ اور ہر سال پہلے کی نسبت زیادہ شہروں میں
زیادہ جوش و جزبہ کے ساتھ دیکھنے میں نظر آتا ہے۔ تو کیا اس سہرا ندیم ساجد
مغل کے سر نہیں جاتا؟ ۔
کسی بھی تنظیم ، سوسائٹی یا ٹرست کی کامیابی کے لئے تین شرائط ہوتیں ہیں
اول :۔ جزبہ ، دوئم :۔وقت،
سوئم :۔ پیسہ
ندیم ساجد مغل کے ساتھ چند ایسی بھی شخصیات ہیں جن کا اگر زکر نہ کیا جائے
تو زیادتی ہوگی ان میں سرپرست میاں نعیم بشیر چیف ایگزیکٹیو KDC، ڈاکٹر
سلطان سکندر مرزا عائشہ کلینک جہلم ، مرزا محمد آصف منیجر PTCL جہلم ، اسی
طرح احسان الحق مغل دینہ ، افتخارمغل دینہ ،اور سوہاوہ سے مرزا عبدالغفار
سرپرست تنظیم مغلیہ سوہاوہ، محمد سعید مغل عرف چہچا ، ملک عدنان مغل سوہاوہ
اور حاجی عمران اسلم مغل صدر مغل ویلفیئر فورم جہلم
تنظیم مغلیہ جہلم اس بار 14فروری کو مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی پیدائش
کا 534واں سال بڑی دھوم کے ساتھ منارہی ہے اور سالگرہ کا کیک نوید طالب مغل
پروپرائٹرز پنجاب کی جانب سے پیش کیا جارہا ہے ۔ اس کیک کی چند مخصوص
خصوصیات ہیں مثلاً اس کا مٹیریل مقامی نہیں بلکہ امریکن ہوگا۔ اور اس کی
خاص خصوصیات میں مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی سالگرہ جیسا کہ 534 ویں ہیں
اسی طرح کیک کا وزن 50.340 پونڈز ہوگا۔ اس سے قبل کہ آپ سے اجازت چاہوں
تاریخ سے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے سنہری حروف سے کچھ عرض کرنا چہاتا
ہوں کہ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطان ابراہیم لودھی شاہ دہلی کے
درمیان 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ہوئی۔ سلطان ابراہیم لودھی کی فوج
ایک لاکھ جوانوں پر مشتمل تھی۔ اور بابر کے ساتھ صرف بارہ ہزار آدمی تھے۔
مگر بابر خود ایک تجربہ کار سپہ سالار اور فن حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔
سلطان ابراہیم لودھی کی فوج نے زبردست مقابلہ کیا۔ مگر شکست کھائی۔ سلطان
ابراہیم لودھی اپنے امراء اور فوج میں مقبول نہ تھا۔وہ ایک شکی مزاج انسان
تھا، لاتعداد امراء اس کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے، یہی وجہ ہے کہ دولت خان
لودھی حاکم پنجاب نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کررنے کی دعوت دی اور مالی
وفوجی مدد کا یقین دلایا۔
بابراور ابراہیم لودھی کا آمناسامنا ہوا تو لودھی فوج بہت جلدتتر بتر
ہوگئی۔ سلطان ابراہیم لودھی مارا گیا بابر فاتح تھا۔پانی پت کی جنگ میں فتح
پانے کے بعد بابرنے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر فاتحانہ
انداز میں دہلی میں داخل ہوا۔یہاں اس کا استقبال ابراہیم لودھی کی ماں بوا
بیگم نے کیا۔بابر نے نہایت ادب واحترام سے اسے ماں کا درجہ دیا۔ دہلی کے
تخت پر قبضہ کر نے کے بعد سب سے پہلے اندرونی بغاوت کو فرو کیا پھر
گوالیار، حصار، میوات، بنگال اور بہار وغیرہ کو فتح کیا۔ اس کی حکومت کابل
سے بنگال تک اور ہمالیہ سے گوالیار تک پھیل گئی۔ 26 دسمبر، 1530ء کو آگرہ
میں انتقال کیا اور حسب وصیت کابل میں دفن ہوا۔ اس کے پڑپوتے جہانگیر نے اس
کی قبر پر ایک شاندار عمارت بنوائی جو بابر باغ کے نام سے مشہور ہے۔ بارہ
سال کی عمر سے مرتے دم تک اس بہادر بادشاہ کے ہاتھ سے تلوار نہ چھٹی اور
بالآخر اپنی آئندہ نسل کے لیے ہندوستان میں ایک مستقل حکومت کی بنیاد ڈالنے
میں کامیاب ہوا۔ توزک بابری اس کی مشہور تصنیف ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ
نہ صرف تلوار کا دھنی تھا، بلکہ قلم کا بھی بادشاہ تھا۔ فارسی اور ترکی
زبانوں کا شاعر بھی تھا اور موسیقی سے بھی خاصا شغف تھا۔
اﷲ پاک مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین
|
|