ویلٹائن ڈے اور پاکستان کا مسلم معاشرہ
(Mir Afsar Aman, Karachi)
جب ہم پانچویں جماعت میں پڑھ رہے تھے تو
اسکول میں کھیلوں کے میلوں میں لکی ڈر اکا بھی انتظام کیا جاتا تھا۔ گھڑی
کی سوئی کو زور سے کھمایا جاتا تھا ۔ سوئی جس نمبر پر رکھتی تھی اس نمبر پر
رکھے گئی چیز سوئی گھمانے والے کو مل جاتی تھی یعنی اس سوئی گھمانے والے کی
لاٹری نکل آتی تھی۔ اب اس کی جدید سورت بن گئی ہیں سو روپے کے آئٹم خریدنے
والے کو کمپنییاں لاکھوں کے انعامات دیتیں ہیں۔ لوگ انعام یا لاٹری کی لالچ
میں اس کھیل میں شامل ہو جاتے ہیں۔صاحبو! اسلامی معاشرے میں لاٹری، پانسے،
لکی ڈرا،قسمت کا حال، جوا اور بے حیائی کے سارے کام حرام ہیں۔ اس سے اجتناب
برتنے کا حکم دیا گیا ہے۔آج کل میڈیا کا دور ہے اور میڈیا ہمارے گھروں میں
داخل ہو چکا ہے۔ مسلمان بچوں کو میڈیا کے غلط کاموں سے بچانا مشکل ہو گیا
ہے۔ہمارے الیکٹرونک میڈیا میں طرح طرح کی رسموں نے جگہ بنا لی ہے۔مغرب اور
ہندوستان کی شیطانی تہذیب ہمارے گھروں تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں ایک ویلنٹین
ڈے بھی ہے۔ جسے۱۴ ؍فروری کو دنیا اور اب ایک مدت سے پاکستان میں بھی منایا
جاتا ہے۔ پاکستان میں مغرب زدہ خواتین اور غیر ملکی این جی اوز پیش پیش
ہیں۔یہ بے حیائی کا یہ دن کیسے شروع ہوا وہ تو ہم بعد میں بتائیں گے۔ پہلے
مغربی تہذیب والوں کے جرائم کا ذکر کرتے ہیں تاکہ ان کی خباستیں مسلم
معاشرے میں ویلٹائن ڈے منانے کی خبط میں مبتلانوجوانوں کے سامنے آ جائیں۔
مسلم معاشرے میں اس بے حیا ڈے کے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس سے محفوظ
رہنے کی کچھ تدبیر ہو۔ صاحبو ! مغربی تہذیب والوں کے جد امجدبنی اسرائیل نے
اپنے ذاتی اور ناجائزخواہشات کو اپنی عوام میں سند کے طور پر پیش کرنے کے
لیے، اﷲ کے برگذیدہ بندوں پیغمبروں ؑ پر زنا کی تہمت لگائی تھی اور پھر اس
کوڈھال بنا کر معاشرے میں زنا کو عام کیا تھا۔ ان کی مقدس کتاب میں درج ہے
کہ فلاں پیغمبرؑ نے( نعوذ باﷲ) فلاں کے ساتھ زنا کیا اور فلاں پیدا
ہوا۔شیطان کے چیلوں نے شیطان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بے حیائی کو اپنے
معاشرے میں عام کیا۔ اب ان کے شیطانی معاشرے میں نوجوان بیٹی اپنے باپ سے
کہتی ہے او کے ڈیڈ، میرا بوائے فرینڈ آ گیا ہے میں اُس کے ساتھ انجائے کرنے
جا رہی ہوں۔ بے حیائی کا کھلا ارتکاب کرتے ہوئے ،باپ ، ماں،بیٹا، بیٹی سب
ایک ہی پانی کے تالاب میں نیم عریاں لباس پہن کر نہاتے ہیں۔ رات گئے کلبوں
کے اندر ڈانس کے بعد روشنیاں بند کر دی جاتی ہیں اور پھر جس کی بیوی
اندھیرے میں جس کے ہاتھ لگی وہ اُس کی ہو گئی۔ فعل قوم لوطؑ کو عام کیا گیا
ہے بلکہ بعض ملکوں میں اسے آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ مرد مرد کے ساتھ
شادی رچاتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل پاکستان میں امریکی سفارت خانے جو مغربی تہذیب
کا سرخیل ہے میں پاکستان کے ہم جنس جمع ہوئے اور اس قبیح فعل کو عام کرنے
کی کوشش کی تھی۔ اس پر پاکستان میں احتجاج کیا گیا تھا۔مغربی تہذیب میں
عورت کہتی ہے میں بچہ نہیں جنوں گی اس طرح میری تفریح میں خلل پڑتا ہے۔
مغربی تہذیب میں اس کے ریکارڈ کے مطابق ۴۰؍ فی صد حرام بجے زنا کی وجہ سے
پیدا ہوتے ہیں۔ کیاکیا بیان کیا جائے۔ حیرت تو ان بگڑے ہوئے مسلمانوں پر
ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اس شیطانی تہذیب کو اپنانے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
تُف ہے ان مسلم حکمرانوں پر ہے جن کی ناک کے نیچے ایسی قبیح حرکتیں ہوتیں
ہیں اور وہ ڈالر کی لالچ میں ان پر گرفت نہیں کرتے۔ہمارے معاشرے کے کچھ کم
علم لوگ اس بے حیائی کے وکیل بن جاتے ہیں۔ اور رہی سہی کسر ہمارا میڈیا
اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے پوری کر دیتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ہماری نئی
نسل یہود و نصارا کی شیطانی تہذیب کو اپنانے میں مصروف ِ عمل ہے اور اپنی
اسلامی تہذیب کو بھول رہی ہے ۔قرآن میں ہے کہ ’’ بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ
ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک
عذاب ہے(النور ۱۹) اس سے معلوم ہوا کہ فحاشی اور عریانی اور بے حیائی کی
اشاعت و تبلیغ منع ہے اس سے جنسی بے راہ روی اور اخلاق باختگی کے دروازے
کھلتے ہیں۔ اس وقت مغرب مکمل شیطان کے نرغے میں ہے۔اصلاح کے بجائے اس بے
راہ روی کرنے والوں کی حوصلہ افضائی کی جاتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا
ہے:۔
تہذیبِ نو کے منہ پر وہ تھپڑ رسید کر۔۔۔ جو اس حرام زادی کا حلیہ بگاڑ دے۔
مختصر یہ کہ رومن سوسائٹی میں قصہ مشہور کہ کیا گیاکہ ویلٹائن ایک پادری
تھا۔ اس کو ایک رہبہ سے محبت ہو گئی تھی، اسی طرح کہ ۲۷۰ ء زمانہ جاہلیت کا
ایک کیتھولک زانی سینٹ تھا جس کو اس جرم میں سزا دی گئی تھی کہ وہ ۱۴؍
فروری کے دن زنا کو جائز قرار دیا تھا۔( حوالہ انسا ئیکلو پیڈیا برٹانیکا؍
کیتھولک انس ئیکلو پیڈیا) ۔ پھر اس سے آگے دیو ملائی کہانیاں ہیں۔ ظاہرہے
کسی بھی مذہب کا پرچار کرنے والا اس مذہب کا نیک آدمی ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم
نے پہلے بیان کیا کہ مغربی شیطانی تہذیب میں کسی نیک آدمی پر تہمت لگا کر
ایک سند پیش کی جاتی ہے ۔ اور پھر اس فعل کو عام کر دیا جاتا ہے۔ مغربی
معاشرے میں اس پر عمل کر کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو بوائے فرینڈ
بنایا گیا۔ پھر وہ نقشہ سامنے ہے جس میں مغرب ڈوبا ہوا ہے۔ کیا اس شیطانی
تہذیب کومسلمانوں میں بھی عام ہونا چاہییے؟۔ نہیں ہر گز نہیں۔ مسلمان
معاشرہ اپنے پیارے پیغمبر ؐ کی لائی ہو ئی شریعت پر عمل کرنے کا پابند ہے۔
اس شریعت میں ایک دن کی بے حیا محبت تو سرے سے گنجائش ہی نہیں۔ بلکہ سال کے
۳۶۵ ؍دن شریعت کے مطابق ہونے چاہییں۔ جس میں عفت ما آب ماں کی محبت ہے، جس
کے قدموں میں جنت رکھی گئی ہے۔ بہن کی محبت ہے۔ بیوی کی محبت ہے۔ خاندان کی
محبت ہے۔ہمیں مغربی شیطانی معاشرے کی ایک دن کی بے حیا محبت کی کوئی ضرورت
نہیں۔جس میں انسان کو انسانیت سے گرا کر صرف حیوان بنا دیا گیا۔ ایک ہی
ٹیبل پر بیٹھ کر ہوٹل میں باپ اور بیٹا چائے کے بل تک علیحدہ علیحدہ ادا
کرتے ہیں ۔ جب کہ مسلم سوسائٹی میں مشترکہ خاندانی نظام میں ایثار اور
قربانی کی مثالیں پیش کی جاتیں ہیں۔مسلم معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے
ویلٹائن ڈے جیسے دنوں کے ساتھ اس کے نظام تعلیم کو بھی تبدیل کرنے کی
کوششیں کی جارہی ہیں۔پاکستان میں طلبہ اور طالبات کے دینی مدارس اسلامی
معاشرے کے ستون ہیں۔ دینی مدرسوں میں ویلٹئن ڈے جیسے نام کی کسی چیز کر دخل
نہیں۔ دینی جامعات میں طالب علموں میں ڈسپلن ہوتا ہے ۔ استادوں کی عزت کی
جاتی ہے۔وہاں طالبعلموں میں لڑائی جھگڑے بھی نہیں ہوتے۔وہاں امن قائم کرنے
کے لیے رینجرز بھی تعینات نہیں ہوتی۔ اب حکومت نے مغرب کے کہنے پر دہشت
گردی کے نام پر دینی مدرسوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔جماعت اسلامی کی وویمن
ونگ نے ویلٹائن ڈے کی مخالفت میں دس روزہ’’ اصلاح معاشرہ مہم‘‘ شروع کی
ہوئی ہے۔ پورے ملک میں سیمینار،تقاریراور ملاقاتوں کے ذریعے دوران طالبات
اور عام خواتین تک پہنچ کر مغربی تہذیب کی خرابیوں سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں مغربی تہذیب کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکے گی۔کلمہ لا الہ الا اﷲ
کے نام پر وجود میں آنے والے مثل مدینہ پاکستان میں اﷲ کے رسول ؐ کی شریعت
چلے گی۔ ویلٹائن ڈے پاکستان کے مسلم معاشر ے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو
گا۔ ان شاء اﷲ۔ |
|