حضرت
علامہ اقبال خودی کے علمبردار تھے۔ انہوں نے ہمیشہ خودی کی بات کی ہے اور
قوم کو بھی خودی ہی کی تعلیم دی ہے۔اقبال کی یہ خودی آج امتحان میں ہے۔خودی
سر بلند ہو یا اس دھرتی کے سپوت خودی کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔ اس ملک کو
کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ رب العزت کی مہربانی سے اسے قائم اور دائم رہنا ہے
مگر اس ملک کے عوام کو ضرور فرق پڑے گا۔ججوں کو فرق ضرور پڑے گا۔ تاریخ کے
اوراق میں کچھ چہرے ہمیشہ روشن نظر آئیں گے یا ان پر کالک مل دی جائے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ تاریخ بڑی ظالم ہے۔ معاف نہیں کرتی۔خودی کا امتحان آج عدالت
میں ہو رہا ہے جہاں کرپشن اور انصاف آمنے سامنے ہیں۔ کرپشن کو آئینی اور
قانونی موشگافیوں کا سہارا ہے جبکہ سب انصاف کے حامی ہمیشہ کی طرح آسمان کی
طرف دیکھ رہے ہیں۔لوگوں کو فقط انصاف سے غرض ہے۔ وہ کسی آئین اور قانون کو
نہیں مانتے اسلئے کہ آئین اور قانون کا سہارا لے کر ایک خاص طبقہ ہمیشہ خود
کو تحفظ دیتا رہا ہے۔ اس ملک کے ہر درد دل رکھنے والے شخص کو انصاف چائیے
فقط انصاف اورانصاف ہوتا پوری طرح نظر بھی آنا چائیے۔
کرپشن کی داستانیں اس وقت زبان زد عام ہوتی ہیں جب یہ حد سے گزر جاتی ہے۔
چھوٹے موٹے واقعات تو لوگ عموماً نظر انداز کر جاتے ہیں۔مگر جب ایک دفعہ
داستان کھل جائے تو پھر ہر چیز عیاں ہونے لگتی ہے۔چھوٹے واقعات بھی یاد آنے
لگتے ہیں۔ مجھے دو چھوٹے سے واقعات یاد آئے۔ پتہ نہیں اسے کرپشن کہا جائے
یا حکمرانی کا استحقاق۔ لوگ سن کر بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔
90 کی دہائی کے ابتدائی سال تھے۔ دو ہیڈماسٹر صاحبان جناب رزاق صاحب ، حاجی
اقبال اورتیسرا میں، ہم تین افراد بورڈ کی طرف سے مختلف سنٹروں کی چیکنگ پر
مامور تھے۔ہم کریسنٹ ہائی سکول کے سنٹر پر پہنچے تو ایک طالب علم بڑے سکون
سے چھت کو گھور رہا تھا۔ رزاق صاحب نے پوچھا کہ لکھ کیوں نہیں رہے؟ کھڑے ہو
جاؤ۔ طالب علم نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ امتحانی سنٹر کے سپریڈنٹ
اور ڈپٹی سپریڈنٹ بھاگتے ہوئے آئے کہ کیا کر رہے ہیں اور ہمیں بتایا کہ یہ
پنجاب کی اہم ترین شخصیت کے بیٹے ہیں۔ آپ خوامخواہ کیوں مصیبت مول لے رہے
ہیں؟ ہم سنبھل گئے اور بڑے پیار سے اس بچے کو حوصلہ دیا تو وہ بچہ بیٹھ گیا۔
مگر اس نے لکھا کچھ بھی نہیں۔ موقع پر موجود عملے نے بتایا کہ بچہ روز کمرے
میں بیٹھا چھت کو گھورتا رہتا ہے اور پیپر پر نام اور رول نمبر کے سوا کچھ
نہیں لکھتا۔ بعد میں کیا ہوا، یہ اﷲ جانتا ہے یا اس وقت کے بورڈ کے
ایماندار چیئرمین۔ کیونکہ جب نتیجہ آیاتو وہ بچہ پاس تھا۔ آج کل اس بچے کے
میڈیا میں بہت چرچے ہیں۔ پچھلے پچیس، تیس سال میں اس نے اپنی ذہانت کے بل
بوتے پر اس قدر کمایا ہے کہ حاسد لوگوں کی ضد میں ہے اوراسی وجہ سے اس کی
آمدن آج سپریم کورٹ میں سب سے زیادہ زیر بحث ہے۔ کیونکہ پاکستان بھر میں
کوئی دوسرابچہ ایسا نہیں کہ اتنے مختصر عرصے میں اتنا زیادہ سرمایہ کما سکے۔
پروفیسر منان یاسین میرے بزرگ اور ساتھی استاد تھے۔ ان کا اپنے بھتیجے سے
جائیداد کا جھگڑا تھا۔ بھتیجا چاہتا تھا کہ ماڈل ٹاؤن کا پلاٹ نمبر 8-B اس
کے نام کر دیا جائے۔ مگر پروفیسر صاحب اس کا مطالبہ تسلیم کرنے کو تیار
نہیں تھے۔ بھتیجا مسلح ہو کر پروفیسر کے گھر آیا اور اپنا مطالبہ دُہرایا۔
انکار پر پستول نکالی اور پروفیسر صاحب، ان کی بیگم اور دونوں بچوں کو اپنی
طرف سے ہلاک کر کے بھاگ گیا۔ چاروں کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا
گیا۔ پروفیسر صاحب اور ان کی بیگم بڑھاپے کے سبب زخموں کی تاب نہ لا سکے
اور دو دن میں ہسپتال میں دم توڑ گئے۔ بچے زیادہ زخمی ہونے کے باوجود بچ
گئے اور ان کے رشتہ دار اُن کی جان کو خطرے کے سبب انہیں کراچی لے گئے۔
موقع پر کسی گواہ کے نہ ہونے کے سبب بھتیجا چند ماہ بعد آزاد پھر رہا تھا۔
جعلی کاغذات بنا کر اس نے وہ پلاٹ اونے پونے داموں مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم
پی اے ملک احد کو بیچ دیا۔ عدالتوں میں مقدمات کے سبب ملک احد نے خطرہ
محسوس کیا تو وہ پلاٹ اونے پونے داموں حکمران خاندان کی ایک خاتون کو بیچ
دیا۔ کیس کچھ دن پہلے تک بھی عدالت میں تھا، مگر اس پر کوئی بھی پیش رفت نہ
تو ہوئی تھی اور نہ ہی امید تھی۔ میں نے پلاٹ کا نمبر بھی لکھ دیا ہے۔
تحقیق کرنے والے چیک کریں کہ اب یہ پلاٹ کس کے نام پر ہے اور کس کس نے اس
ظلم میں حصہ لیا ہے۔ امید ہے بہت سے چہرے بے نقاب ہوں گے۔ |