کیا کرایہ دار انسان نہیں؟؟؟

غریب لوگ روکھی سوکھی کھا کر گزارا ضرور کر لیتے ہیں مگر گرمی و سردی اور آندھی و بارش میں سر چھپانے کے لیے چھت کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ذاتی مکان نہ ہونے کی وجہ سے غریب لوگ قسمت کا لکھا سمجھ کر کرائے پر رہنے کو ہی بہتر تصور کرتے ہیں۔مہنگائی و بیروزگاری کے دور میں غریب کرایہ دار انتہائی کٹھن حالات میں گزر بسر کرتے ہیں۔کرائے پر مکان دینے والے مالکان اور دلوانے والے ڈیلر حضرات (کمیشن ایجنٹ) دونوں ہاتھوں سے کرایہ داروں کو لوٹتے ہیں ۔کرایہ پر مکان لینے کے لیے کوئی غریب ان کے پاس آجائے تو یہ ڈیلر ( کمیشن ایجنٹ) اپنی پانچوں انگلیاں گھی میں محسوس کرتے ہیں اور اطمینان کے ساتھ کرایہ دار کو خوب لوٹتے ہیں۔ مکان دکھانے کی فیس ،کرایہ داری اشٹام پیپر کی تیاری اور کمیشن کی مد میں ہزاروں روپے وصول کیے جاتے ہیں ۔کرایہ داری اشٹام ( معاہدہ کراداری) کی تمام شرائط مالک مکان کے حق میں ہوتی ہیں اور ہر لحاظ سے غریب کرایہ دار کو ہی لوٹا جاتا ہے۔مکان دکھانے کی فیس ایک سو سے پانچ سو روپے ، پچاس روپے والے اشٹام پیپر کے کم از کم پانچ سوسے ایک ہزار روپے اور کمیشن کی مد میں نصف کرائے کے برابر رقم کمیشن ایجنٹ وصول کرتے ہیں جبکہ گواہان کی تصدیق اور ایڈوانس کرایہ کے ساتھ کم از کم دو سے چار ماہ کے کرایہ کے برابر رقم سکیورٹی کی مد میں مکان مالکان وصول کرتے ہیں ۔سکیورٹی کی مد میں وصول کی گئی رقم قابل واپسی ضرور ہوتی ہے مگر مکان چھوڑنے کی صورت میں یہ رقم طرح طرح کی کٹوتیوں کی مد میں خرد برد کر دی جاتی ہے ۔

ایک طرف جہاں گلی محلے اور بازاروں میں ڈیرے جمائے ڈیلر حضرات (کمیشن ایجنٹ ) کرایہ داروں سے بھاری کمیشن کی وصولی کی صورت میں غریبوں پر ظلم کرتے ہیں وہاں مالک مکان بھی کرایہ دار پر ظلم و ستم کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ایک مکان کوچھوٹے چھوٹے ڈربے نما کمروں میں تقسیم کرکے اور زیادہ منزلیں تعمیر کر کے غریبوں کو لوٹنے کا سلسلہ عام ہو چکا ہے۔آجکل ایک بیڈ روم پر مشتمل مکان کم از کم آٹھ سے دس ہزارروپے کرایہ میں ملتا ہے جبکہ گیس ، پانی و بجلی کے بل الگ ادا کرنا ہوتے ہیں۔آٹھ ہزار کرایہ پر ملنے والے مکان کے پہلے مہینے کم از کم تیس ہزار اور پھر ہر مہینے دس بارہ ہزار ادا کرنا پڑتے ہیں۔فیکٹری ایریا اور دیگر ایسے علاقے جہاں دور دراز سے لوگ روزی روٹی کے حصول کے لیے محنت مزدوری کرنے کے لیے آتے ہیں ایسے علاقوں میں کرایہ تمام حدیں عبور کر چکا ہے ۔ایسے علاقوں میں ڈیلر حضرات اور مالک مکان غریب کرایہ داروں کو جی بھر کر لوٹتے ہیں اور اپنی مرضی کا کرایہ وصول کرتے ہیں۔کیا کرایہ داری کی کوئی حد مقرر نہیں ہونی چاہیے؟ کیا کرایہ دار انسان نہیں ؟ دن رات محنت کرنے اور خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود بھی غریب خوشحال کیوں نہیں ہو پاتے؟ مالک مکان تھوڑے ہی عرصے بعد دوسرا مکان کیسے خرید لیتا ہے ؟ کیا ان مکان مالکوں کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے کہ دن بدن امیر سے امیر ترین ہوتے جارہے ہیں جبکہ کرایہ دار خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود بھی خوشحال نہیں ہو پا رہے ؟غریب بیچارے جائیں تو کدھر جائیں؟ غریبوں پر ہر لحاظ سے ظلم و ستم ہو تا دکھائی دے رہا ہے۔ بھاری کرائے اور کمیشن کی ادائیگی کے بعد بھی کرایہ داروں کی سکون کی زندگی گزارنے نہیں دی جاتی اور مالک مکان حیلے ،بہانے بنا کر کرایہ دار پر ظلم و ستم جاری رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والی خبر نے جھنجھوڑ کے رکھ دیا کہ ایک مالک مکان کی جانب سے ظلم و ستم کی انتہاء کی گئی اور کرایہ صرف ایک دن لیٹ ہو جانے کی وجہ سے کرایہ دارخاتون پر تشدد کرکے اسے زخمی کردیاگیا۔اس سے زیادہ ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ کرایہ صرف ایک دن لیٹ ہو جانے سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ متاثرہ خاتون نے سیشن عدالت کا رخ کیا تو فاضل جج صاحب نے پولیس کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔جب تک عدالت میں رپورٹ پیش ہوگی تب تک مالک مکان اس متاثرہ خاتون کو دھکے دے کر مکان خالی کروا لے گایاپھر مالک مکان کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کی بناء پر متاثرہ خاتون اپنا کیس ہی واپس لے چکی ہوگی ۔اور اگر ایسا نہ بھی ہوتب بھی فیصلہ مالک مکان کے حق میں ہی آئے گا کیونکہ تاریخ پر تاریخ والا سلسلہ غریبوں کو کیس کی پیروی نہیں کرنے دیتا اور حق پر ہونے کے باوجود غریب ہمیشہ ہار جاتے ہیں۔ماضی میں روٹی ، کپڑا اور مکان فراہم کرنے کے نعرے ضرور لگائے گئے مگر یہ سلسلہ صرف نعروں تک ہی محدود تھا۔غریب کرایہ داروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور یہ ہمیشہ ہی مکان مالک اور ڈیلر حضرات ( کمیشن ایجنٹس) کے ظلم کا شکار ہوتے آئے ہیں۔کچھ ڈیلر حضرات نے تو جھوٹ ، فریب ، دھوکادہی کو ہی اپنا ہتھیار بنایا ہوا ہے اور مکان دلوانے کے نام پر پیشگی وصولی کے بعد حیلے ، بہانے اور ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں اور پیشگی وصولی کے نام پر (جس کو ٹوکن کا نام دیتے ہیں) ہزاروں روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔غریب کرایہ دار ایسے ڈیلر حضرات کے دفتر میں بار بار چکر لگا کر آخر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں مگر ان کو پیشگی وصولی( ٹوکن) کی مد میں جمع کرائی گئی رقم واپس نہیں ملتی۔ لاہور جیسے شہر میں ایسی مثالیں موجود ہیں ضرورت صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بیداری کی ہے ۔

کرایہ داروں پر مکان مالک اور ڈیلر حضرات کے مظالم روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ کرایہ داری کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بناکر مکان مالک اور ڈیلر حضرات کی جانب سے کی جانے والی کرپشن اور کرایہ دار پر ہونے والے ظلم کو کم کیا جا سکتا ہے۔مکان کی مناسبت سے کرایہ کی حد اور ڈیلر حضرات کی کمیشن کی حد مقرر کرنا ہو گی تاکہ غریب کرایہ داروں کی خون پسینے کی کمائی محفوظ ہو سکے۔مخصوص حد سے زیادہ کمیشن وصول کرنے والے ڈیلر حضرات اور حد سے زیادہ کرایہ وصول کر نے والے مکان مالکوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور ان کو ایسی سزا دی جائے کہ آئندہ کے لیے نشان عبرت بن جائیں۔اس طرح غریب کرایہ داروں کو ان مکان مالکوں اور ڈیلر حضرات ( کمیشن ایجنٹس) کے چنگل سے نجات مل سکتی ہے۔اﷲ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین
 
Malik muhammad Shahbaz
About the Author: Malik muhammad Shahbaz Read More Articles by Malik muhammad Shahbaz: 54 Articles with 44586 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.