دہشتگردی کا باعث بننے والی وجوہات کا خاتمہ ضروری ہے

تاریخ انسانی میں امن کبھی قائم نہیں ہوا تاریخ کے شروع دور میں بھی انسان بدامنی کا شکار تھا اور آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا آج کل دنیا میں جس دہشت گردی کا دور دورہ ہے وہ بدامنی کی ایک واضح مثال ہے یہ ان غیر قانونی کاروائیوں کا نام ہے جو جان ومال اور عزت و ابرو کے نقصان سے خوف وہراس کی فضاء پیدا کرنے کے لیے کی جاتی ہیں تاکہ متعلقہ فریق اپنے مخصوص مقاصد حاصل کر سکیں عالمی بدامنی کا ایک بڑا سبب وہ دہشت گردیا قومی تحریکیں بھی ہیں جو ہر ملک میں موجود ہیں اور سیاسی اقتصادی معاشرتی اور عسکری جدوجہد کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہیں اپنی نظر میں یہ تحریکیں آزادی کی تحریکیں ہیں لیکن مخالفین کی نظر میں دہشت گردی کی تحریکیں ہیں اس طرح یہ تعمیری اور تخریبی دونوں کردار کی حامل تصور کی جاتی ہیں چونکہ یہ تحریکیں شدید جدوجہد میں مصروف ہیں اس لیے امن عامہ کا متاثر ہونا ایک لازمی امر ہے۔ بدامنی کے اسباب میں حق تلفی ایک ایسی صورت حال ہے جو متاثرہ فریق کو جارحیت پر آمادہ کرتی ہے متاثرہ فریق احتجاج اور جوابی جارحیت کے ذریعے اس کا سد باب چاہتا ہے اس سے دوطرفہ محاذ آرائی شروع ہو جاتی ہے ۔طاقتور عدل وانصاف اور صلح کا راستہ ترک کر کے قوت سے بات منوانا چاہتاہے اس لیے صلح جوئی اور امن وانصاف کا اصول غیر موئژہو جاتا ہے اور دنیا میں جنگ و جدل اور فساد کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔ انسان جوں جوں زندگی کے سفر میں آگے بڑھتا گیا حق تلفی کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا آ ج اگر انسان ترقی کی بلندیوں پر نظر آتا ہے تو اس کی یہ بلندی حق تلفی کے حوالے سے بھی ہے افراد ہی نہیں معاشرے بھی اس کی زدمیں ہیں آج دنیا کا کون سا انسان اور معاشرہ ہے جو دوسرے کی زیادتی کا شکار نہیں ہے بدامنی کی اور اہم وجہ غربت اور جہالت بھی ہے عالمی سطح پر جو ممالک غریب ہیں وہ بدامنی کا زیادہ شکا ر ہیں ایک بھوکی ننگی قوم نہ صرف جہالت اور بیماریوں کا شکار ہوتی ہے بلکہ جرائم پیشہ بھی ہوتی ہے چوری ڈاکہ زنی قتل اغواورمنشیات کا عادی بن کر معاشرے میں بدامنی کو فروغ دیتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ بدامنی کو ختم کرنے کے لیے غربت کا خاتمہ کیا جاسکے اسی طرح جہالت بھی بدامنی کی جڑ ہے جہالت اندھیر ے کا نام ہے جس میں انسان کو اعلیٰ مقاصد کاشعور ،بنیادی حقوق اورقومی ترقی کاشعور حاصل نہیں ہوتا وہ پست سوچ، پست خیالات اور پست طرزعمل کا حامل ہوتا ہے پست اور حقیر مقاصد کی خاطر جیتا اور مرتا ہے یہ معاشرے کے بیمار لوگ ہیں جو خود بھی تکلیف میں زندگی بسر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ قومی وملکی سطح پر عوام کو خواندہ بنانے اور اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور کرنے کی کوشش کی جائے معاشرہ جتنا زیادہ مہذب اورتعلیم یافتہ ہوگا جرائم کی تعداد میں اتنی ہی زیادہ کمی واقع ہوگی اور امن وامان قائم رہے گا۔بدامنی کی فوری اور مسلسل وجہ حکمرانوں اور انتظامیہ کی وہ غیر آئینی و غیر قانونی سرگرمیاں ہیں جو وہ اپنے اقتدار اور ذاتی مفادات کے لیے بروئے کار لاتے ہیں دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے کہ جہا ں مختلف اوقات میں مختلف سطحوں پر اورمختلف تناسب سے یہ غیر آئینی و غیر قانونی اقدام نہ کئے جاتے ہوں ملکوں میں سربراہوں اور اعلیٰ عہدیداروں کے جو بڑے بڑے سیکنڈل منظر عام پر آتے ہیں ان کی اصل وجہ یہ ہے خصوصاََ غیر ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی اقتصادی اور معاشرتی بحران زیادہ جنم لیتے ہیں جس سے عوام اورحکمران لاقانونیت کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور بدامنی کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں اختیارات کا ناجائز استعمال سرکاری خزانے کا خرد برد رشوتوں اور کرپشن کے بڑے بڑے سیکنڈل اور اقرباپروری کے واقعات اسی لیے ظہور پذیر ہوتے ہیں دنیا میں سپر پاورں کے ایجنڈے عالمی بدامنی کا موجب بنتے ہیں وہ فاتح عالم اور مقتدر عالم بننے اور ترقی کی معراج پر پہنچنے کیلے عالمی پیمانے پر اکھاڑپچھاڑ کا سلسلہ شروع کرتے ہیں جس سے لشکروں کے حملے گولہ بارود کا استعمال قتل و غارت ، وسائل پیداوار پر قبضہ اورخود غرضی پر منبی داخلی اور خارجی پالیسیوں کا اطلاق مسلسل وسیع اور سنگین بدامنی کا ماحول پیدا کرتے ہیں یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابدتک جاری رہے گا ناانصافی بدامنی کی جڑہے اچھے خاصے مہذب تعلیم یافتہ اور عقل وفہم کے مالک لوگ جب ناانصافی کا شکار ہوتے ہیں اورمسلسل ہوتے رہتے ہیں تو ممکن نہیں کہ وہ خاموش ہیں اور اپنے ردِ عمل کا اظہار نہ کریں افراد گروہوں اور حکومتوں کی طرف سے روا رکھی جانے والی ناانصافی لازماََ بدامنی کو جنم دیتی ہے اس وقت دنیا میں جتنے بھی تخریب کا ر نظر آتے ہیں ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ جو حقوق انسانی کے حوالے سے اور معاشی ناانصافیوں کی وجہ استعمال کا شکار ہوتے ہیں ذرا سوچئے بم دھماکوں ،خودکش حملوں ،اغوا اور اس جیسی دوسری وارداتیں دنیا میں بدامنی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں دہشت گردی جو دنیا کے مختلف حصوں میں واقعہ ہو رہی ہے جس میں بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا دیا جا رہا ہے چار شعبوں میں دیکھی جا سکتی ہے اول اقتصادی محرومی ہے دوم عدم برداشت ونفرت ہے جو نسلیت اور مذہب کی بنیاد پر روا کھی جاتی ہے سوئم ریاست کا معاشرتی اور اقتصادی شعبے میں عدل کے فراہم کرنے میں ناکامی ہے اور چہارم وہ حل طلب عالمی مسائل ہیں جو تصفیہ کے بغیر چھوڑدئیے گئے ہیں انتہا پسندوں کے غیر مطمئن گروہ راتوں رات پیدا نہیں ہو گئے ہیں وہ اس تسلسل کا نتیجہ ہیں جس نے انہیں پیدا ہونے، منظم ہونے متحرک ہونے اور ایسی کاروائیاں عمل میں لانے کا جواز فراہم کیا ہے جو عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔
Choudhary Muhammad Ashfaq
About the Author: Choudhary Muhammad Ashfaq Read More Articles by Choudhary Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 169600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.