جسمانی نقص قدرت کی طرف سے ہو یا کسی حادثے
کا نتیجہ زندگی کا روگ بن جاتا ہے۔ ایسے نقائص کا شکار افراد معاشرے کے
منفی رویوں کا بھی نشانہ بنتے ہیں اور ایک ایسے دیس میں جہاں تعلیم یافتہ
اور مکمل طور پر صحت مند افراد بھی بے روزگاری کی اذیت جھیل رہے ہوں وہاں
جسمانی محرومی کا شکار لوگ روزگار کے مسائل سے کس طرح دوچار ہوں گے یہ
اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بات بس یہیں تک نہیں، اب تو شاید ہماری حکومت ان
افراد کے وجود سے بھی انکاری ہے، اس لیے مردم شماری میں انھیں شمار ہی نہیں
کیا جارہا۔ ان اطلاعات پر خدشات میں مبتلا جسمانی معذوری کا شکار افراد سوچ
رہے ہیں کہ انھیں پاکستان کے شہریوں کی فہرست سے خارج کرکے مزید نظرانداز
کردیا جائے گا۔ چناں چہ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انھیں بھی مردم شماری میں
شامل کیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مردم شماری کے سوالات میں جسمانی نقائص کے
بارے میں بھی سوالات شامل کیے جائیں، تاکہ ان کی صحیح تعداد سامنے آسکے۔
محرومیوں کے شکار ان افراد کو گلہ یہ ہے کہ حکومت مردم شماری کے لیے جو
فارم لارہی ہے اس میں جسمانی نقائص کے حوالے سے کالم موجود نہیں، جس کی وجہ
سے ایسے افراد کا شمار کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق چھٹی مردم شماری آٹھ سال کی تاخیر کے بعد 15
مارچ کو ہونے جارہی ہے۔ یہ اہم ترین فریضہ بھی عدالت کی جانب سے سوموٹو
ایکشن لینے کے بعد ادا کیا جارہا ہے۔ کچھ دنوں پہلے Aging Disability Task
Force (ADTF) کے نمائندوں نے اسپیشل افراد کے لیے کام کرنے والی چالیس
مقامی اور غیرملکی این جی اوز کے عہدے داروں کے ساتھ ایک پریس بریفنگ دیتے
ہوئے مردم شماری کے فارم میں معذور افراد کے لیے بھی کالم شامل کرنے کا
مطالبہ کیا ہے، جو بالکل درست مطالبہ ہے۔
فیڈرل بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس مردم شماری کے لیے 2009 میں چھپنے والا فارم
استعمال کر رہا ہے، جس میں اسپیشل افراد کے حوالے سے کوئی سوال شامل نہیں۔
یعنی انھیں مردم شماری سے باہر کردیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ان افراد کو شمار نہیں کیا گیا تو حکومتی اداروں کو کیسے
پتا چلے گا کہ پاکستان میں کتنے افراد ایسے ہیں جو جسمانی معذوری کا شکار
ہیں، ایسا نہ ہوا تو ایسے افراد کے روزگار، ان کی صلاحیتیں ابھارنے، علاج،
فنی تربیت اور بحالی کے حوالے سے پالیسی مرتب کرنا اور اقدامات کرنا بہت
مشکل ہوگا۔
ریاست ہر شہری کے مسائل حل کرنے کی ذمے دار ہوتی ہے۔ ریاست ایک ماں کی طرح
ہوتی ہے اور ماں کے کندھوں پر اپنے ہر بچے کی ذمے داری ہوتی ہے، چاہے وہ
بچہ ذہانت وصلاحیت میں اعلیٰ ہو یا ادنیٰ، جسمانی طور پر مکمل ہو یا کسی
نقص کا شکار، خوبیوں کا پیکر ہو یا خامیوں کا مجموعہ، ماں اپنے ہر بچے پر
توجہ دیتی ہے اور اس پر اپنی محبت نچھاور کرتی ہے۔ یہی کام ریاست کا ہے۔
لیکن ہمارے ہاں تو صورت حال یہ ہے کہ ریاست اور حکومت کو عام آدمی کے مسائل
اور مشکلات سے کم ہی غرض ہے، اسی وجہ سے بنیادی نوعیت کے مسائل اور معاملات
پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ ایسے میں جسمانی معذوری کے شکار افراد کو
مردم شماری سے محروم رکھنا کوئی حیرت انگیز عمل نہیں۔ تاہم یہ عمل نہایت
افسوس ناک ہے۔
گذشتہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق، جو 1998میں ہوئی تھی، پاکستان میں
معذوری کا شکار افراد کی تعداد 3.28ملین تھی۔ یہ تعداد ملک کی آبادی کا
تقریباً دو فی صد ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اب یہ تعداد کئی گنا زیادہ
بڑھ چکی ہوگی۔ ٹریفک حادثات، دیگر نوعیت کے حادثے اور دہشت گردی کے واقعات
نے یقیناً ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ کیا ہے جو کسی نہ کسی جسمانی نقص
کا شکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب ایسے افراد کی تعداد پانچ ملین سے
تجاوز کرچکی ہے۔
یہ بھی ایک خوف ناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں جسمانی طور پر معذور افراد کی
تعداد کا تناسب عالمی طور پر سب سے زیادہ ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان دو ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو کا مرض اب بھی موجود
ہے۔ اس کے علاوہ خواندگی کی کم شرح اور غربت کی اونچی شرح کے باعث ہمارے
ہاں جسمانی معذوری میں مبتلا افراد کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ علاوہ
ازیں قدرتی آفات اور دہشت گردی کے حملوں کے باعث بھی ہمارے ملک میں جسمانی
نقائص کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے قیدیوں اور جسمانی معذوری کے شکار افراد کے حقوق کے حوالے
سے کنونشن کی دستاویز پر دستخط کرچکا ہے، تاہم پاکستان معذور افراد کو
معاشرے کا مساوی شہری بنانے کے لیے اب تک مناسب اقدامات نہیں کرسکا ہے۔ یہ
اقدامات کیسے ہوں جب ہمیں یہ پتا یہ نہیں ہوگا کہ ہمارے ملک میں ایسے افراد
کی تعداد کیا ہے اور انھیں کس نوعیت کے مسائل اور مشکلات درپیش ہیں۔ حکومت
کو چاہیے کہ جسمانی نقائص کے شکار افراد کے مطالبے پر توجہ دیتے ہوئے انھیں
مردم شماری کا حصہ بنائے۔ یہ خاص لوگ (اسپیشل پرسن) اﷲ کی طرف سے ریاست کی
خاص ذمے داری ہیں، اس لیے ان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، نہ کہ انھیں
مردم شماری ہی سے باہر کردیا جائے۔ |