COPYCAT KILLING - وارداتِ قتل کی نقالی

 قتل کا ایسا واقعہ جو کسی اور واردات کی ،خواہ حقیقی ہو یا فرضی ہو بہو نقل ہو۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اس طرح کی وارداتوں کی کثرت اور ذرائع ابلاغ میں انکی بھیانک تفصیلات کے انکشاف سے یہ بحث شروع ہوئی کہ فلموں میں اور ٹیلی وژن پرمار دھاڑ اورخون خرابے کے مناظر نوعمر ذہنوں کوکس حد تک خراب کر رہے ہیں ۔stanley kubrikنے خود اپنی 1972ء کی فلمclock work orange کوایک سال بعد ہی سینما میں دکھانے کی ممانعت کردی کیونکہ اس پر شدید اعتراضات کئے گئے تھے کہ اسکی نقالی میں قتل اور آبروریزیوں کے کئی واقعات ہوئے ہیں مثلاََ برطانیہ کے ایک شہر لنکا شائر میں لڑکوں کے ایک غول نے ایک لڑکی کی آبروریزی کی اور اس دوران میں اسی فلم کا ایک گیت گاتے رہے ۔اسی طرح ایک نو عمر لڑ کے نے فلم میں دکھایا جانے والا سفید ـ’اوورآل‘ اور سیاہ ہیٹ لگا کر ایک چھوٹے سے بچے کو مارا تھا جس پر جج نے فلم پر کڑی تنقید کی تھی ۔clock work orange دوبارہ 2000ء میں ریلیز کی گئی۔

اس طرح کے بے شمار واقعات روزمرہ ہمارے مشاہدات سے گزرتے ہیں مسلسل جرائم کا جو ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے ہر دن کی شروعات سے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اسمیں کمی کسی طور واقع نہیں ہو رہی ہے لوگ جرائم سے بھرپور فلم، ڈرامے ،خبروں اور دیگر پروگرامز کے زریعے ان واقعات کو ملاحظہ کرتے ہیں خصوصاََ نوجوان طبقہ جنمیں 12-32سال تک کی عمر رکھنے والے افراد کے دماغ پر یہ واقعات اپنا گہرااثر چھوڑتے ہیں اور جیسا کہ ماہرین کی تحقیق کے مطابق انسانی دماغ میں تجسس کا عنصر بہت غالب رہتا ہے اوروہ ہر اس کام میں دلچسپی لینے کی طرف مائل ہوتے ہیں جو خطرناک ہو جسکے کرنے سے کسی بھی قسم کے نقصان کا احتمال ہو۔گزشتہ دنوں کے متواتر واقعات کی کڑی بھی کسی نا کسی طرح copy cat killing کا حصہ سمجھی جا سکتی ہے۔ایک فرد یا گروہ یا کوئی ایجنسی کسی بڑی واردات میں ملوث ہو تو وقوع ہونے والے اُس واقعہ سے بہت سے دوسرے جرائم پیشہ عناصرین کو اس سے بہت تقویت ملتی ہے ،اور تخریبی اذہان رکھنے والے ملک دشمن افراد اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔

یہ تو صرف ایک فرد یا گروہ کی بات ہے گزشتہ دہائی میں خاص کر نوجوان طبقے میں خودکشی کے پہ درپہ واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ اس کو ایک دلچسپ اور خطرناک کھیل سمجھ کر اختیار کرنے لگے ہیں ابھی کچھ عرصہ پہلے اورنگی ٹاؤن سیکٹر10ربانی کالونی ابراہیم علی بھائی اسکول کے قریب مکان نمبر 15/13 پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش ملی پولیس کا کہنا تھا کہ متوفی احسن کو اُسکے والد مختیارنے اسکول نہ جانے پر ڈانٹا تھا جسکے بعد احسن نے دلبرداشتہ ہوکر گلے میں رسی کی مدد سے پھندا ڈال کر پنکھے سے لٹک کر خود کشی کر لی ،اس طرح یا اس سے کچھ مختلف بے شمار واقعات پاکستان کے مختلف مقامات پر ہر تیسرے چوتھے دن خودکشی کی وارداتیں خبروں کا لازمی جُز بن چکی ہیں ،اب آپ خود اندازہ لگائیے کہ بھلا اس بچے کو یہ کیونکر اندازہ ہوا کہ اُسے اپنی موت کیلئے اس طرح کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ،یقیناََ اسکی بھی نظروں سے اس قسم کے واقعات گزرے ہونگے تو اسکو یہ طرزِ عمل اختیار کرنا اپنی سمجھ کے مطابق آسان لگا ۔

یہ وارداتِ قتل کی نقالی کا رجحان صرف ملکِ پاکستان کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ تجزیہ نگاروں کے مطابق پوری دنیا کے مختلف خططات میں سالانہ تقریباََ900000افراد اسکا شکار ہوتے ہیں یا تو خودکشی کرتے ہیں یا انکو قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر وہ خود کسی جرم کا حصہ بن کر جرائم کا شکار ہو جاتے ہیں اور پاکستان میں خودکشی کی شرح سالانہ 300ہے اور مزید تحقیق کے مطابق گزشتہ سال قتل اور خود کشی کی مختلف وارداتوں میں 375افراد اس کا حصہ بنے ۔اس سال کی شروعات تو گزشتہ سال سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے ، دہشت گردی اور خودکش بمباری کا جو ایک متواتر سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے پورے ملک پاکستان کی سا لمیت کو نقصان پہنچ رہا ہے ہر شہری ان واقعات سے سہما ہو ا دکھائی دیتا ہے خوف و حراس کی ایک لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔

پیمرا نے کہا ہے کہ ٹی وی چینلز دہشت گردی کے واقعات کی کوریج میں احتیاط کریں تفصیلات کے مطابق پیمرا نے ٹی وی چینلز کو خبردار کیا ہے کہ بم دھماکوں ،دہشت گردی کے واقعات کی کوریج میں احتیاط کی جائے ناظرین کی ایک بہت بڑی تعدادنے بعض ٹی وی چینلوں کی طرف سے لاہور، پشاور ، کوئٹہ اور سیہون شریف میں ہونے والے بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات پر غیر زمہ دارانہ اور سنسنی خیز انداز میں خبریں و پروگرام نشر کرنے اور دھماکوں کا شکار افراد اور اُنکے لواحقین کی خون آلود تصاویر اور دل دہلا دینے والے انٹرویوز دکھانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔پیمرا نے اس طرزِعمل کو الیکٹرونک میڈیا کے ضابطہ اخلاق اور پیشہ ورانہ طرزِ عمل کے یکسر منافی قرار دیا ہے ،پیمرا نے پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسیشن اُسکے اراکین اور ٹی وی چینلز کے نیوز ڈائریکٹرز سے توقع کی ہے کہ وہ دہشت گردی سے متاثرہ افراد اُنکے اہلِ خانہ اور عوام الناس کے جزبات اوراحساسات کا خیال رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرینگے اور ایسے مواد و مناظر دکھانے سے اجتناب کرینگے جو ناظرین کے لئے زہنی صدمے اور تناؤ کا باعث ہوں یا بالواسطہ دہشت گردوں کی کاروائیوں میں مددگار ہوں ۔بغیر تصدیق مرنے والوں کی تعداد دہشت گرد تنظیموں کی زمہ داری قبول کرنے کے بیانات کو نشر کرناپیمرا کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔پیمرانے امید کی ہے کہ پی بی اے اور اسکے اراکین قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے ذمہ دارانہ اور پیشہ ورانہ طریقے سے اطلاعات کو عوام تک پہنچائیں گے ۔

پیمرا کے اس نوٹس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ copy cat killingکا رجہان کس تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے ناصرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اس رجہان کو تخریب کار عناصر یا اس جیسے ازھان کے لوگ کتنی تیزی سے قبول کرتے ہیں اور اگر پیمرا اس قسم کی اطلاعات پر کوئی حد نہیں رکھے گی تو اسکا نقصان ملکی سا لمیت کیلئے خطرہ بھی بن سکتا ہے وہ اس طرح کے دہشت گرد اور ان سے منسلک تنظیمیں یہ مناظر اس سے بھی ذیادہ دردناک انداز میں دیکھنا چاہتے ہیں جو انکو ٹی وی پر نظر آتے ہیں ،اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انکو اس سے کتنی تقویت ملتی ہے وہ خود کو اور بھی ذیادہ طاقتور سمجھنے لگتے ہیں ۔

یہ تو پیمرا کے اقدامات ہیں ایک شہری ہونے کے ناطے ہمارا کیا فرض بنتا ہے کہ ہم پُر سکون معاشرے کے قیام کیلئے اپنے اپنے طور پر ملکی سا لمیت کیلئے کتنا حصہ ڈال سکتے ہیں اس بات پر غور کیلئے سب سے زیادہ کردار والدین اور سرپرستوں کو کرنا ہوگا ،آپکو یہ دیکھنا ہے کہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب کون کون سے عناصر ہیں پہلے انکو دور کرنے کیلئے ایک مضبوط لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا اپنے بچوں کی تربیت سے پہلے خود اپنی ذات سے شروع کریں اپنے بچوں کی activities پر نا محسوس طریقے سے نظر رکھیں انٹرنیٹ پر ٹی وی پر کون کون سے پروگرامز دیکھنے چاہئیں اسکے لئے کوئی بہترین لائحہ عمل مرتب کریں کیونکہ معاشرے میں وارداتِ قتل کی نقل کا رجہان فلمز، ڈراموں ،نیوزاور اسی طرح کے دیگر پروگرامز سے بچے غلط راستوں پر جلدی مائل ہوجاتے ہیں ناصرف قتل بلکہ دیگر جرائم بھی سیکھ لیتے ہیں ۔ اگرآپ معاشرے میں امن اور سکون دیکھنے کے خواہاں ہیں توپھر ہمیں فرداََفرداََ اس کام کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ فرد سے ہی معاشرہ وجود میں آتا ہے،اسی لئے ہر شہری کا فرض بنتا ہے کہ وہ ملکی سا لمیت اور بقا کیلئے اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرے۔بقول اقبال علیہ الرحمتہ کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
Nida Yousuf Shaikh
About the Author: Nida Yousuf Shaikh Read More Articles by Nida Yousuf Shaikh: 19 Articles with 14325 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.