مسئلہ مادری زبان کا!

قریب ہی بیٹھے ایک صاحب کو بات پسند نہ آئی، ادبی تقریب برپا تھی، ذکر ’ماں بولی‘ کا چھِڑ گیا۔ ناچیز کو بھی بات کرنے کا موقع ملا، ’’ماں بولی بھی ماں کی طرح ہی ہے، جسے سن کر ماں کی یاد آجاتی ہے، یادوں کا ایک ریلا سا امڈنے لگتا ہے، محبتوں کی دھند ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اردو، عربی اور انگریزی وغیرہ کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلّمہ ہے، مگر ماں بولی کی حفاظت تو ہر کسی کو خود ہی کرنا پڑے گی‘‘۔ بات طویل نہ تھی، محبت کا اظہار تو تھا، جذبات کا تذکرہ کم تھا۔ اُن صاحب کو بات اچھی نہ لگی، تنقید کو انہوں نے ضروری خیال کیا، گویا انہوں نے پیشرو کی نفی نہ کی تو شاید ناکامی کی خلش رات دن کا سکون برباد کردے گی۔ فرمایا،’ ’دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، ٹیکنالوجی کا دور ہے، یہاں ماں بولیوں کی باتیں کی جارہی ہیں، ہمیں تعصب کی نہیں، چھوٹی چھوٹی باتیں چھوڑ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، فی زمانہ ٹیکنالوجی ہی ہماری ماں ہے‘‘۔ ماحول مقابلہ بازی یا ایک دوسرے سے الجھنے کا نہیں تھا،اس لئے ایک دوسرے کی باتوں پر بحث نہ ہوئی۔ میرے آبا مشرقی پنجاب کے ضلع لدھیانہ سے ہجرت کر کے آئے تھے، (دل کے خوش رکھنے کو میرا یہ دعویٰ ہے کہ بھارتی پنجاب میں لدھیانہ کی زبان میں ہی سب سے زیادہ مٹھاس پائی جاتی ہے)مگر پاکستان آکر وہ جس گاؤں میں آباد ہوئے، وہاں مختلف اضلاع سے آنے والے اور مختلف لہجے میں پنجابی بولنے والے لوگ اکٹھے ہوگئے، یوں کسی کی بھی زبان خالص نہ رہی۔ ہمارے والدین کی میٹھی بولی ان کے ساتھ ہی تہہ خاک اپنا وجود کھو بیٹھی۔

ماں کی بولی کو یاد کرنا، یا اسے بچا کر رکھنے کی سعی کرنا، ہمارے نزدیک تعصب کی کسی ذیل میں نہیں آتا، کیونکہ ہر کسی کی ماں بولی اپنی ہے، اور وہ اس سے محبت کر سکتا ہے، اس کی حفاظت کر سکتا ہے، ہاں وہ دوسروں کی نفی کرے ، تب اسے تعصب قرار دیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی عالمی سطح پر منائے جانے والے کسی دن میں تعصب تلاش کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ البتہ عالمی دنوں کے موقع پر یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ یہ دن کسی ایک دن نہیں منایا جانا چاہیے، بلکہ سال کا ہر دن ا س کو منانے کی ضرورت ہے۔ بہت سے عالمی دن ایسے ہیں، جو دم توڑتے ایشوز کے بارے میں منائے جاتے ہیں، جو چیزیں اپنا وجود کھوتی جارہی ہیں، انہیں بحال اور زندہ رکھنے کے لئے عالمی دن کا اہتمام ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ماں بولی بھی ایک ایسی ہی چیز ہے، جو ہماری تمام تر خواہشات اور کوششوں کے باوجود اپنا وجود کھو رہی ہے۔ مثلاً جو لوگ ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے، ان کی زبان کا لہجہ جو بھی تھا، وہ خالص تھا، کیونکہ صدیوں سے وہ لوگ ایک ہی جگہ پر قیام پذیر تھے۔ پاکستان میں آنے سے وہ یکجائی نہ رہی، کوئی بھی زبان اور برادری وغیرہ خالص نہ رہی، یوں پہلی زبان دوسری نسل کے ہوتے ہوئے بہت حد تک اپنے انجام کو پہنچ گئی، بلکہ ہجرت کرکے آنے والوں میں نوجوان اور نوعمر لوگ تو اپنی مادری زبانوں سے مکمل طور پر لاتعلق ہو گئے۔ اب تیسری نسل کا عالم یہ ہے کہ وہ دوسری زبانوں سے گڈ مڈ ہونے والی ناخالص زبان سے بھی نا آشنا ہیں، اور وہ صرف اردو کی طرف پلٹ گئے ہیں، (یہ الگ بات ہے کہ اردو بھی انہیں اچھی طرح نہیں آتی)۔

عالمی دن کے موقع پر اس مرتبہ اس دن کے لئے جو موضوع چنا گیا ہے، وہ بذات خود قابلِ غور ہے۔ ہمارے وہ نقاد بھائی موضوع پر نگاہ ڈالیں تو شاید سیخ پا ہو جائیں، ’’مختلف زبانوں کے ذریعے پائیدار مستقبل کی جانب پیش قدمی‘‘۔ بہت سی اقوام میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ بچے کو ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں ہی دی جانی چاہیے، کیونکہ اسے سمجھنے اور سمجھانے میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا۔ چونکہ بے شمار مقامی زبانیں ایسی ہیں جو نصاب کا حصہ نہیں ہیں، یا رائج ہی نہیں ہیں، اس لئے ہر زبان میں تعلیم نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں ہر کوئی اردو کو نہایت آسانی اور آرام سے سمجھتا، بولتا اور حتیٰ کہ لکھتا بھی ہے، اس لئے ہر کوئی جلد اردو کی طرف پلٹ جاتا ہے۔ بہت ہی پڑھے لکھے اور غیر ملکی زبانوں خاص طور پر انگریزی کے شوقین لوگ گھر میں اردو بھی بولنا گوارہ نہیں کرتے۔یوں قومی اور بین الاقوامی زبانیں مگر مچھ کی صورت چھوٹی زبانوں کو کمزور مچھلیاں سمجھ کر کھا جاتی ہیں، اور کھا رہی ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427841 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.