عدل کا معنی: مساوی بدلہ افراط
وتفریط کے درمیان راستہ عدل کی ضد ہے ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اسکے مناسب
مقام میں نہ رکھنا یا بدلہ دینے میں کمی بیشی کرنا۔ہر اچھے اور برے کام کا
پورا بدلہ دینا عدل کہلاتا ہے اور اسمیں کمی بیشی کرنا ظلم کہلاتا ہے عدل
وانصاف کے بغیر مثالی معاشرہ قائم نہیں کیا جاسکتا جہاں فساد اور بے چینی
پیدا کرتا ہے وہاں عدل امن اطمینان اورترقی کا ضامن ہے عدل ہی ہر دنیا کی
ترقی اور خوشحالی کا دارومدار ہے دنیا کی کوئی قوم اسکی ضرورت و اہمیت کا
انکار نہیں کرسکتی۔ یہ ایک حقیت ہے کہ انسانی معاشرے میں افراد کی باہمی
کشکمش اور ٹکر کو عادل حاکم اور انصاف پسند عدلیہ کے ذریعہ ہی ختم کیا
جاسکتا ہے ایسی عدلیہ کا وجود جو مظلوم کی داد رسی کرے اور عدل و انصاف کے
مطابق فیصلے کر کے امن کے قیام کی خاطر انتہائی ضروری ہے چونکہ مقدمات کے
صحیح فیصلے سچی شہادت کے بغیر نہیں ہوسکتے اسلئے اسلام جہاں عدل وانصاف کا
حکام دیتا ہے وہاں صحیح شہادت دینے کو بھی لازم قرار دیتا ہے۔ عدالتوں میں
بے انصافی یا گواہی میں غلط بیانی کے دو سبب ہوتے ہیں یا تو یہ کہ ہم کسی
رشتہ داری کی بنا پر سچی گواہی دینے اور حق کا فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں کرتے
یا کسی عدادت ہمیں غلط بیانی یا ظلم اور نا انصافی پر مجبور کرتی ہے اللہ
تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان دونوں اسباب کی بنا پر غلط بیانی اور بے انصافی
کرنے سے منع کردیا اور عدل کا حکم دیا ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ :اے
ایمان والوں! انصاف پر قائم رہنے والے اللہ کیلئے گواہی دینے والے بن جاؤ
اگرچہ وہ گواہی اپنی ہی ذات یا والد ین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ
ہو۔ اور دوسری جگہ فرمایا:ترجمہ: اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس بات پر
آمادہ نہ کرے کہ انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو انصاف کرنا ہی پرہیزگاری کے
زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔
عد التی نظام کی کامیابی کا دارومدار اگر ایک طرف متقی خدا ترس اور پیکر
انصاف جج اور قاضی ہے تو دوسری طرف پیکر صدق وفا گواہواں پر بھی ہے۔ اس لئے
یہ بتایا گیا ہے کہ کسی شخص کیساتھ بغیر کسی کمی بیشی اور اچھے یا برے جذبے
کے وہ سلوک کرنا چاہیے جسکا وہ واقعی مستحق ہے اور عدل و انصاف کی ترازو
ایسی اور درست ہونی چاہئے کہ بڑی سے بڑی محبت اور شدید سے شدید عداوت اسکے
دونوں پلڑوں میں سے کسی کو جھکا نہ سکے۔ ہمارے سامنے حضور ﷺ کا اسوہ حسنہ
ہونا چاہئے آپ ﷺ نے کافروں اور دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کیا اور کبھی
ایسا نہیں ہوا کہ کسی کے کفر وشرک یا مخالفانہ رویہ کیوجہ سے بے انصافی کی
ہو آپ ﷺ کے عہد مبارک میں یہودی اور نصرانی بھی اپنے مقدمات کا فیصلہ
کروانے کے لئے آپ ﷺ کے ہاں آیا کرتے تھے اور انہیں آپ ﷺ کے عدل وانصاف
کا فیصلہ کروانے کے لئے آپ ﷺ کے ہاں آیا کرتے تھے اور انہیں آپ و عدل
وانصاف پر پورا پورا اعتماد تھا۔
ایک بار ایک یہودی اور انصاری مسلمان کا تنازعہ حضور ﷺ کے ہاں پیش ہوا آپ
ﷺ نے فیصلہ یہودی کے حق میں دیا اور یہ نہ دیکھا کہ دوسری طرف ایک مسلمان
ہے بلکہ حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمایا کسی بڑے سے بڑے صحابی کو آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں سفارش یا کسی فریق کے بارے میں کچھ عرض کرنیکی
جرات نہ ہوتی تھی۔ ایک بار ایک قریشی خاتون چوری کے الزام میں پکڑی گئی
اسکا قبیلہ چاہتا تھا کہ اسے ہاتھ کاٹنے کی سزا میں کچھ نرمی فرمائی جائے
آپﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا: پہلی قومیں اسی لئے تباہ ہوئیں
کہ ان میں جب کوئی غریب جرم کرتا تو اسے قانون کیمطابق سزا دیجاتی اور جب
کوئی بااثر شخص جرم کرا رتکاب کرتا تو اسکے لئے قانون میں تاویلیں کر کے
اسے بچالیا جاتا آپ ﷺ نے اس عورت کو شرعی قانون کے مطابق سزا دی۔ اسلامی
قانون کے نگاہ میں تمام افراد مساوی ہیں قانون الہٰی کو سب پر بالادستی
حاصل ہے حضورﷺ نے اپنے آپ ﷺ کو بھی کبھی قانون سے بالاتر نہیں سمجھا تھا۔
حضرت عمر ؓ کا بیان ہے کہ میں نے حضور ﷺ کو بھی قصاص وبدلہ کیلئے اپنے آپ
کو پیش کرتے ہوئے دیکھا۔ جب آپ ﷺ کا دنیا سے کوچ فرماجانے کا وقت تھا تو
صحابہ ؓ کو پکار کر کہا کہ جس کسی نے مجھ سے کوئی بدلہ لینا ہے وہ لے لے
میں حاضر ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جب حضور ﷺ نے اپنے آپ ﷺ کو بھی قانون سے
بالاتر نہ سمجھا تو مسلمانوں کا ہر حاکم یا خلیفہ اپنے آپ ﷺ کو قانون کے
سامنے اسی طرح جوابدہ سمجھتا تھا جس طرح ایک ادنیٰ خادم خلفائے راشدین نے
اپنے دور میں عدل وانصاف کی مثالیں قائم کی ہیں اور حضورﷺ کے نقش قدم پر چل
کر انصاف کا حق ادا کیا ہے حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓ کا انصاف تو مثل ہی بن
گیا تھا۔ ایک بار حضرت علی ؓ ایک مقدمہ کے سلسلے میں قاضی کی عدالت میں
بطور فریق پیش ہوئے قاضی نے آپ ؓ کو ابوتراب کہہ کر پکارا آپ ؓ نے
فرمایا: تم نے مجھے کنیت سے کیوں پکار ا ہے جو عزت کی علامت ہے تم نے بے
انصافی کی اتنی سی بات کو بھی حضرت علی المرتضی نے قانونی مساوات کے خلاف
سمجھا اور قاضی کو مکمل مساوات برتنے کی نصیحت کی۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے کو شرعی سزا دیکر عدل و انصاف کا بول بالاکر دیا
آپ ؓ کے عہد میں بڑے سے بڑا گورنر اور بااثر انسان بھی قانون کی زد سے
نہیں بچ سکتا تھا۔ حضورﷺ نے قاضیوں اور ججوں کیلئے ایک ضابطہ اخلاق دیا
جسکے چند اہم اصول یہ ہیں
۱۔ مدعی اور مدعا علیہ کے بیانات سن کر فیصلہ دیا جائے کسی ایک فریق کے
بیان پر اعتماد کر کے یک طرفہ فیصلہ نہ کیا جائے۔
حضورﷺ نے حضرت علی ؓ کو یمن بھجتے ہوئے فرمایا تھا: ترجمہ :جب تیرے سامنے
دو فریق مقدمہ بیٹھ جائیں تو اسوقت تک فیصلہ نہ سنا جب تک دوسرے فریق کا
بیان اسطرح نہ سن لے جس طرح پہلے کا سنا۔
۲۔قانون لوگوں کی نیتوں اور اندرونی باتوں پر مواخذہ نہیں کرتا اس لئے قاضی
کو چاہئے کہ ظاہری شہادت اور ثبوت کے مطابق فیصلہ کر لے مطابق کر لے حضور ﷺ
بھی ہر مقدمہ میں ظاہری ثبوت اور گوہواں کی شہادت کے مطابق فرمایا کرتے
تھے۔
آپ ﷺ کا فرمان ہے۔ ترجمہ: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ظاہر کے مطابق فیصلہ
کروں اور اللہ دلوں کے بھیدوں کا ایک مالک ہے۔
۳: عدالتی کاروائی کے کسی مرحلے پر قاضی کو کسی ایک فریق کی طرف جھکاؤ کی
قطعاً اجازت نہیں قاضی کو چاہئے کہ وہ دیکھنے اور بات کرنے میں بھی فریقین
کے درمیان مکمل مساوات رکھے ارشاد نبوی ہے:۔ ترجمہ: نگاہ اور کلام میں بھی
فریقین کے مابین مساوات رکھے۔
۴۔ مقدمات میں منصفانہ فیصلے پر پہنچنے کے لئے قاضی کو ہر قسم کے ذہنی
کھنچاؤ سے اور غیظ وغیب سے آزاد ہونا چاہئے بصورت دیگر قاضی ذاتی جذبات سے
مغلوب ہوکر مجرم کواس کے جرم سے بڑھ کر سزادے بیٹھے گا اور انصاف نہ کرسکے
گا۔ ترجمہ: غصہ کی حالت میں قاضی فریقین کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔
۵۔ مجرم کو ثبوت جرم پر سزا دی جائے اگر اسکے خلاف شہادتیں کمزور ہوں جس سے
اسکا جرم مشبتہ ہوجائے تو اسے شک کا فائدہ دیا جائے۔ اس سلسلے میں اسلام کا
اصول یہ ہے۔ ترجمہ: بے شک امام یا قاضی کا کسی کو معاف کرنے میں غلطی کرنا
بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی کو سزا دینے میں غلطی کرے۔
۶۔ ثبوت مدعی کے ذمہ ہے اور بصورت عدم شہادت مدعی علیہ سے اپنی بے گناہی کی
قسم لیجائے آپ ﷺ کا فرمان ہے:۔ ترجمہ: شہادت اور ثبوت مدعی کے ذمہ ہے اور
قسم منکر مدعی علیہ کے ذمہ ہے۔
۷۔ فیصلہ کرنے سے پہلے دیکھ لیا جائے کہ اگر مقدمے کا حل قرآن وسنت میں
موجود ہے تو اس کے مطابق فیصلہ کردیا جائے ورنہ قرآن وسنت میں اسکے مشابہ
فیصلے سامنے رکھ کر قیاس کرلیا جائے ایسی صورت میں جبکہ کسی مقدمے کا صریح
فیصلہ قرآن وحدیث میں نہ ملنا ہو تو قاضی کو قیاس کر کے اپنی رائے پر
انصاف کیساتھ فیصلہ کرنیکی اجازت ہے آپ ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو جب قاضی بناکر
بھیجا تو ان سے پوچھا کہ مقامات کا فیصلہ کیسے کرو گے حضرت معاذ ؓ نے عرض
کیا قرآن کے احکام کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر قرآن میں اس کا حکم
موجود نہ ہو تو پھر کیا کرو گے ؟حضرت معاذ ؓ نے جواب دے :پھر اللہ کے رسول
ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا آپ ﷺ نے پوچھا اگر وہاں بھی حکم موجود نہ
ہو پھر کیا کرو گے؟حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ پھر اپنی رائے پر فیصلہ کروں
گا آپ ﷺ نے حضرت معاذؓ کے اس طر ز کو پسند فرمایا یہی طریقہ بعد کے تمام
قاضیوں کیلئے نمونہ بن گیا ۔ |