کوئی معاشرہ، ملک یا قوم تعلیم کو نظر
انداز کر کے ترقی کا تصور تک نہیں کر سکتی۔ جن ملکوں میں خواندگی کی شرح
بہتر ہے وہ زندگی کے ہر میدان میں آ گے ہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیم کی افادیت
و اہمیت کا زبانی جمع خرچ کی حد تک اظہار، تسلسل کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر
کوئی بھی شخص، ادارہ یا طبقہ اس حوالے سے اپنے فرائض پورے نہیں کر رہا یہی
وجہ ہے کہ آج ہمارے بچوں کی عظیم اکثریت اسکولوں سے باہر گلی کوچوں میں
دربدر ہے۔ تاہم بعض تنظیمیں ناخواندگی کے خلاف مصروف ہیں جو رسم و روایت سے
کسی قدر ہٹ کر فروغ تعلیم میں غیر رسمی انداز اپنا کر خدمات انجام دے رہی
ہیں۔ یوتھ کمیشن فار ہیومن رائٹس (وائی سی ایچ آر) کے زیر اہتمام ہوم سکول
ایجوکیشن پراجیکٹ اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ رسمی تعلیم سے مراد وہ نظام
تعلیم ہے جس کے تحت ہمارے عام سکول چل رہے ہیں۔ ان سکولوں کی ایک باقاعدہ
عمارت ہوتی ہے۔ ان سکولوں میں بچے مخصوص وقت کے لئے آتے اور تعلیم حاصل
کرتے ہیں۔ بچوں کا اپنا یونیفارم ہوتا ہے۔ اساتذہ معقول تعداد میں ہوتے ہیں۔
داخلے کے لئے بچے کی عمر عموماً پانچ سے چھ سال تک ہوتی ہے۔ ایک کلاس کا
دورانیہ ایک سال ہوتا ہے۔ رسمی سکولوں میں پرائمری تعلیم پانچ سال میں مکمل
ہوتی ہے جبکہ غیر رسمی سکولوں کی اپنی عمارت نہیں ہوتی بلکہ متعلقہ کمیونٹی
ہی سکول کے لئے جگہ فراہم کرتی ہے۔ ان سکولوں کے اوقات تعلیم و تدریس کم
اور لچکدار ہوتے ہیں۔ اسٹوڈنٹس کے لئے یونیفارم کی پابندی نہیں ہوتی۔ غیر
رسمی سکولوں میں اسی علاقے کی پڑھی لکھی لڑکیوں کو ٹیچر کے طور پر ذمہ
داریاں تفویض کر دی جاتی ہیں ان سکولوں میں جنہیں ہوم سکولز کا نام دیا گیا
ہے داخلے کے وقت عمر کی کوئی قید نہیں۔ پانچ سال سے لے کر چودہ سال تک کی
بچیاں اور بچے داخلہ لے سکتے ہیں۔
یوتھ کمیشن فار ہیومن رائٹس (وائی سی ایچ آر) کے زیر اہتمام ہوم سکول
ایجوکیشن پروجیکٹ کے تحت غیر رسمی تعلیم کے 20 ہوم سکول قائم کئے گئے ہیں
جو تعلیمی فقدان دور کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو رہے ہیں۔ ان سکولوں کے
اجرا سے پہلے کمیشن نے قابل قدر صوابدید کا مظاہرہ کیا وہ یوں کہ ابتدا میں
انتہائی پسماندہ آبادیوں میں خدمات کا آغاز کیا اس مقصد کے لئے پنجاب کے
دواضلاع کا انتخاب کیا گیا۔ ایک لاہور دوسرا مظفر گڑھ۔ کہا جا سکتا لاہور
کیونکر پسماندہ قرار پایا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ لاہور میں کچی اور
پسماندہ آبادیوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ بند روڈ سے نیچے دریائے راوی کے کنارے
آباد انتہائی دور افتادہ اور پسماندہ بستی میں سکول قائم کئے گئے ہیں لاہور
میں پانچ اور مطفر گڑھ میں پندرہ سکول کھولے گئے ہیں۔ ’’ہوم سکول‘‘ کے نام
سے اس بنا پر موسوم کئے گئے ہیں کہ تعلیم جاری رکھنے کے لئے ٹیچرز اپنے ہی
گھر کا ایک کمرہ سکول کے لئے مختص کر دیتی ہیں۔ یہ ٹیچرز اپنے اپنے علاقوں
سے سرکاری یا نجی اداروں میں نہ جانے والے بچوں کو اپنے ہوم سکول میں رجسٹر
کر کے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں۔
ہوم سکولز میں ملٹی گریڈ ٹیچنگ ہوتی ہے۔ طلبہ و طالبات دونوں زیر تعلیم ہیں
مگر طالبات کی تعداد زیادہ ہے۔ سکول میں مختلف کلاسز کے بچے تعلیم حاصل
کرتے ہیں اس بنا پر یہ ایک چیلنج ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اساتذہ کی
خصوصی تربیت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ تربیت پانچ روز تک جاری رہی جس کا
مفید نتیجہ برآمد ہو رہا ہے کیونکہ تربیت یافتہ ٹیچرز کی کارکردگی کا جائزہ
لے کر دیکھنے میں آیا کہ وہ بچوں کے ذہنی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے موثر
انداز میں تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں تا کہ انہیں معاشرے کے مفید سے مفید
تر شہری بنایا جا سکے۔
پسماندہ ترین اضلاع کی آبادیاں ہوم سکولز کے لئے کیوں منتخب کیں؟ اس سوال
کا جواب نہایت سادہ اور آسان ہے۔ وہ یہ کہ اولاً پسماندہ علاقے آسانی سے
رسائی میں آ جاتے ہیں ثانیاً قومی شرح خواندگی بہتر بنانے کے لئے ترجیحاً
یہی طرز عمل اپنانا ضروری تھا۔ 1998ء کی سینسز رپورٹ کے مطابق مظفر گڑھ کی
مجموعی شرح خواندگی صرف 28.5 فیصد تھا۔ لڑکوں کا 40.9 فیصد اور لڑکیوں کا
14.8 فیصد۔ الف اعلان کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رینکنگ 2015ء کے مطابق ضلع کی نیٹ
انرولمنٹ پرائمری کی لڑکیوں کے لئے 48 فیصد اور لڑکوں کے لئے 56 فیصد ہے۔
مظفر گڑھ میں ہر3 میں سے 2 بچے سکول نہیں جا رہے۔ اس حد تک پسماندہ صورت
حال ہی کے سبب یوتھ کمیشن فار ہیومن رائٹس نے ضلع مظفر گڑھ کے پراجیکٹ
ایریا کے لئے منتخب کیا۔ جہاں تک لاہور کی نظر انداز اور پسماندہ آبادی کا
تعلق یہاں پانچ سکول انتہائی نادار و غریب شہریوں پر مشتمل ایسی آبادیوں
میں قائم کئے گئے ہیں جو بند روڈ کے نیچے دریائے راوی کے کنارے واقع ہیں۔
یہ پانچ سکول پائیلٹ پراجیکٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ پسماندہ بستیوں میں
قائم ان سکولوں کے لئے جائے وقوع کے انتخاب میں یہ بات مدنظر رکھی گئی ہے
کہ وہاں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہونی چاہئے۔
بچوں کے لئے ٹیچر کے لئے یہ معیار مقرر کیا گیا کہ ان کا تعلق اسی بستی یا
آبادی سے ہو جہاں ہوم سکول جاری کیا جا رہا ہے۔ ان کی کم از کم تعلیمی
استعداد انٹرمیڈیٹ ہو اور وہ ہوم سکول میں تدریس کے لئے صدق دل سے آمادہ
ہوں۔ اس کمیونٹی میں رہائش پذیر ہوں۔ تجربہ کار ٹیچر کو ترجیح دی گئی ہے۔
کسی بھی پراجیکٹ کی کامیابی کے لئے مانیٹرنگ کا نظام بنیادی اہمیت کا حامل
ہوتا ہے۔ ہوم سکولز کی مانیٹرنگ کے لئے طے کیا گیا کہ پراجیکٹ پیریڈ کے
دوران میں پراجیکٹ اسٹاف سکولوں کی مانیٹرنگ کرے گا۔ اس کے علاوہ سکول
مینجمنٹ کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ جن میں سے ہر کمیٹی 10 ارکان پر
مشتمل ہے۔ والدین میں سے چار مرد اور چار عورتیں کمیٹی میں شامل ہو جاتی۔
ایک ہوم سکول ٹیچر اور ایک یوتھ کمیشن فار ہیومن رائٹس کا نمائندہ ہے۔ سکول
مینجمنٹ کمیٹی سکول سے متعلقہ تمام امور کی نگرانی کر رہی ہے۔
ہوم سکولز میں اس وقت تک 400 لڑکے اور 606 لڑکیاں داخلہ لے چکی ہیں۔ رسمی
سکول بچوں کو ابتدائی تعلیم کے بعد رسمی سکولوں میں داخل کروانے کے حوالے
سے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں وائی سی ایچ آر نے پہلے مرحلے میں 83 لڑکے
اور 136 لڑکیوں کو باقاعدہ رسمی سکولوں میں داخل کروایا ہے۔یہ پراجیکٹ
بنیادی طور پر سکول نہ جانے والے بچوں کو سکول بھیجنے کی ایک کاوش ہے۔ ہوم
سکول سے انتہائی ابتدائی تعلیم کے بعد طلبہ و طالبات کو باقاعدہ سکولوں میں
بھیجنا مقصود ہے اور ابتدائی اقدامات ہی کے دوران میں باقاعدہ سکولوں میں
بچوں کو بھیجنے کا کام شروع بھی ہو چکا ہے۔ ابتدائی تجربہ کامیاب رہا ہے اس
لئے یوتھ کمیشن فار ہیومن رائٹس نے ناخواندگی ختم کرنے کی یہ مہم جاری
رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تسلسل اور استحکام ہی سے نئی نسل کو تعلیم سے
آراستہ کرنے کا قومی مقصد حاصل کیا جائے گا! ان شاء اﷲ۔ |