تحریر: صبا ء چودھری، صادق آباد
آج کے دور میں والدین شکوہ کناں ہیں کہ ان کی تعلیم و تربیت کی تمام تر
کوششیں بے سود ثابت ہو رہی ہیں تو دوسری طرف اساتذہ کرام کا بھی یہی شکوہ
ہے کہ طلبا میں تربیت کا فقدان ہے ۔اداروں کے ماحول کو پاکیزہ اور علم کے
حصول کے لئے سازگار بنانے کی تمام تر سعی نقش بر آب ثابت ہو رہی ہیں۔ اس
صورت حال سے تنگ اساتذہ کرام طلبا کو ان کے حال پر چھوڑ کر بری الذمہ ہو
گئے ہیں اور شاکی ہیں کہ ان کو معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو اساتذہ
کے شایان شان ہوا کرتا تھا۔ استاد اور شاگرد کے درمیان ادب و احترام کا
رشتہ مفقود ہو گیا ہے ۔معاشرہ استاد کو تنخواہ دار ملازم سے زیادہ کا درجہ
دینے پر راضی نہیں ہے۔آخر اس معاشرتی اور اخلاقی زوال کا سبب کیا ہے ؟
کیا آج کے اساتذہ کرام ماضی کے اساتذہ کرام کے سے افعال رکھتے ہیں جن کے
جوتے اٹھانے کو خلیفہ کے بیٹے جھگڑتے تھے ۔اساتذہ کی ناقدری اور بیوقعتی کا
سبب کہیں خود ان کے قول و فعل میں تضاد تو نہیں ؟
آج ہماری حالت ایسی ہے کہ ہم اصلاح کا محتاج دوسروں کو سمجھتے ہیں اور اپنی
حالت زار پر توجہ نہیں دیتے۔اساتذہ کرام کا عمل خود ان کے قول کی نفی کر
رہا ہوتا ہے ۔استاد طلبا کو وقت کی قدر کا درس دے رہا ہوتا ہے اور خود ان
کے وقت کو اپنے ذاتی کاموں میں ضائع کر رہا ہوتا ہے ۔طلبا کو خیانت سے دور
رہنے اور ایمان داری کو اپنانے کی صلاح دے رہا ہوتا ہے اس کے بر عکس وہ خود
درس و تدریس کے وقت میں اپنے ذاتی کام ( اخبار پڑھنا ،تسبیح کرنا ،موبائل
کا استعمال وغیرہ )میں استعمال کر کے خیانت کر رہا ہوتا ہے۔
اب ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ ایسے استاد کی کہی بات کی نا قدری کیسے نہ
ہو۔ ان حالات میں ہم صرف بچوں کو تربیت کی کمی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے
۔دراصل ہم دوسروں کی اصلاح میں اپنی اصلاح بھول گئے ہیں ۔ جبکہ قرآن پاک
میں اس عمل کی نشاندہی کے ساتھ خوفناک وعید بھی آئی ہے۔
’’ کیا حکم کرتے ہو تم دوسرے لوگوں کو نیکی کے کام کا اور بھول جاتے ہو
اپنے آپ کو حالانکہ تم تو تلاوت کرتے رہتے ہو کتاب کی ،پھر تم کیوں نہیں
سوچتے۔‘‘(البقرہ )
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ شب معراج میرا گزر کچھ لوگوں پر ہوا جن کے ہونٹ اور زبانیں
آگ کی قینچیوں سے کترے جا رہے تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا ’’ یہ کون لوگ
ہیں ؟‘‘ جبرئیل نے فرمایا کہ یہ آپ کی امت کے دنیا دار واعظ ہیں جو لوگوں
کو تو نیکی کا حکم کرتے تھے مگر اپنی خبر نہ لیتے تھے ۔(ابن کثیر )
کہتے ہیں کہ ’’ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ‘‘۔ سوچنے کی بات یہ کہ
کیا ہمارے دل سے نکلی ہوئی اس قدر اثر انگیز ہے؟ ضرورت کردار کے غازی بننے
کی ہے، گفتار کے غازی تو دنیا بھر میں موجود ہیں۔ ضرورت اپنی اصلاح کی ہے۔
اپنے اسلاف پر نگاہ دوڑائیے آخر ان کے قول میں ایسی کیا تاثیر تھی کہ لوگ
جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے تھے اور آج کے مبلغین کے ہزاروں
بیانات بھی کوئی اثر نہیں رکھتے۔ اپنے اقوال و افعال کو قرآن و سنت کے تابع
کر لیں گے تو ہماری سادہ سی بات میں بھی وہ اثر ہو گا جو کسی عظیم مبلغ کے
مسجع و مقفی بیان میں نہ ہوگا ۔
آئیے آغاز اپنی اصلاح سے کرتے ہیں۔ اپنے کردار میں اپنے اسلاف کے سے اوصاف
پیدا کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔زندگی کے رخ باتوں سے نہیں بلکہ جدوجہد سے بدلا
کرتے ہیں۔ اسی لئے اﷲ نے قرآن کو کافی نہیں سمجھا بلکہ عمل کے طریقے
سیکھانے کی لئے انبیاکرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ اپنے عمل کو کڑی
نگاہ سے پرکھ کر انبیا کرام ؑکی سنت پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح اگر
والدین بچوں کی اچھی تربیت کے خواہاں ہیں تو انہیں اپنے عمل سے بچوں کے لئے
روشن مثال بننا ہوگا ورنہ اصلاح کی ہر کوشش یونہی رائیگاں جاتی رہے گی۔ |