زا حوالم محمد را خبر کن
(Zubair Ahmed Siddiqui, )
بلاشبہ مملکتِ خداداد ’’اسلامیہ جمہوریہ
پاکستان‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ، اُمت مسلمہ کی آخری اُمید، عالمِ
اسلام کا نادر ونایاب سرمایہ، اسلام کا قلعہ اور ہمارے اکابر واسلاف کی
انمول وراثت ہے۔ اس کے تحفظ وبقاء، سالمیت وترقی کے لئے ہر ممکن سعی اُمت
مسلمہ بالعموم اور اس ملک کے ہر شہری کا بالخصوص فریضہ ہے۔ وطن عزیز میں
ایک عرصہ سے جاری وساری دہشت گردی، بدامنی اور فساد کے عفریت کو قابو کرنا
بھی قومی وملی فریضہ ہے۔ اس ملک میں اس ملک کے مقصدِ قیام کے باعث نہ تو
سیکولر اِزم کی گنجائش ہے اور نہ ہی مسلح انتہاپسندی کی۔ تمام مسالک
بالخصوص مسلکِ اعتدال ’’اہل السنت والجماعت حنفی دیوبندی‘‘ کے زعماء کی
جانب سے ہر فورم پر اس حقیقت کو طشتِ ازبام کیا گیا ہے: ’’پاکستان میں مسلح
جدوجہد اور عسکریت کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘ بایں ہمہ 14دسمبر 2014ء کے بعد
سے اب تک مذہبی ذہن کے حامل محبت وطن پُراَمن شہریوں بالخصوص مسلکِ دیوبند
کے رضاکاروں پر دہشت گردی کی آڑ میں جو ریاستی یلغار کی گئی، اس کا نوحہ
سطور ذیل میں نہایت متین انداز میں زعماءِ ملت بالخصوص اکابرینِ دیوبند کی
خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ یقیناًاکابر ین مسلکِ دیوبند ان لرزہ خیز مظالم
سے واقف ہیں، تاہم مسلکی عصبیت اور طے شدہ ریاستی پالیسی سے متأثر ہونے
والے پُرامن بے گناہ خاندانوں کی آواز اکابرین تک پہنچانا اور ان سے
راہنمائی حاصل کرنا بحثیت ایک کارکن اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔
مورخہ 14دسمبر 2014ء کے پشاور میں المناک حادثہ کے بعد مذہب اور بالخصوص
مسلک دیوبند کو ٹارگٹ کر کے جو متنوع اقدامات اٹھائے گئے، اُن کی ایک جھلک
درج ذیل ہے:
(۱)۔۔۔ فورتھ شیڈول جیسے کالے قانون کے شکنجے میں کَس کر ہزاروں علماء،
خطباء، طلباء، سیاسی کارکن، مدرّسین، شیوخ الحدیث، مشائخ طریقت، ائمہ مساجد،
دین دار تاجر اور اپنے اپنے علاقوں میں عوامی اثر ورسوخ رکھنے والی شخصیات
سے شہری حقوق کا سلب کرنا، انسانی آزادی کا غصب، روزگار سے محرومی سب پر
عیاں ہے۔ عرصہ دراز سے چاروں صوبوں بالخصوص پنجاب کے ہزاروں بے گناہ افراد
بے بنیاد گمراہ کن رپورٹس کی زَد میں آکر ملک میں انسانی حقوق سے محروم ہو
کر رہ گئے ہیں۔ ان سے ملازمت وتجارت کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ سرکاری
اداروں کے ملازمین کو فارغ اور نجی اداروں میں کام کرنے والوں کو بھی نوٹس
جاری کر کے ہر قسم کے کام کاج سے روک دیا گیا۔ نوبت بایں جا رسید کہ فورتھ
شیڈول افراد نہ تو مسجد کی امامت کروا سکتے ہیں، نہ وعظ وتبلیغ، نہ درس
وتدریس، نہ مدرسہ واداروں کا انتظام وانصرام چلا سکتے ہیں اور نہ ہی
باقاعدہ تحریری اجازت لیے بغیر ملک وبیرون ملک سفر کر سکتے ہیں۔ بلکہ گزشتہ
دنوں تو ان کے شناختی کارڈ، پاسپورٹ تک منسوخ کر کے انہیں گویا نکاح شادی
وجائیداد کی منتقلی وراثت، خرید وفروخت، کسی بھی چیز کے مالکانہ حقوق وغیرہ
تک سے محروم کر کے اچھوت بنا دیا گیا۔ ایسے ہزاروں علماء، مشائخ، طلباء اور
مذہبی کارکنوں کو مانیٹرنگ کے لئے چِپ (سم) ڈالنے یا ڈیجٹل رِنگ (کڑا)
پہنانے کا منصوبہ بھی شروع ہونے کو ہے۔
فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے یہ افراد صرف کالعدم تنظیموں سے متعلق نہیں بلکہ
اکثریت جمعیت علماء اسلام کے کارکن وعہدیداران، وفاق المدارس سے متعلق
علماء کرام، حق گو خطباء، ائمہ کرام، غیر تنظیمی سوچ کے حامل دیوبندی فکر
کے رضاکار، تاجر اور عام شہری ہیں۔ ان کاجرم صرف دین دار اور دیوبندی ہونے
کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کا گلا بھی گھونٹ دیا گیا اور منہ بھی بند کر دیا
گیا، یہ بے چارے برمی شہریوں کی طرح بے زبان مفلوک الحالی میں اپنی زندگی
بسر کر رہے ہیں۔ ان کی ہر حرکت نوٹ کی جا رہی ہے اور جب ادارے چاہتے ہیں
انہیں جیل کے اندر اور جب چاہتے ہیں جیل سے نکال کر ’’گھر کی جیل‘‘ میں
بھیج دیتے ہیں۔
(۲)۔۔۔ دہشت گردی میں ملوث افراد کو خفیہ اداروں اور مذہبی افراد کی سرکوبی
کے لئے قائم ادارہ سی۔ٹی۔ڈی (CTD) کی جانب سے لاپتہ کر دینا تو سمجھ میں
آتا ہے، اگرچہ یہ طریقہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق نامناسب ہے لیکن ملک
میں قیامِ امن کے لئے دیوبندی مکتبِ فکر نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا اور
نہ ہی مزاحمت۔ بایں ہمہ ہزاروں مذہبی کارکن، علماء کرام ایسے بھی ہیں،
جنہیں غلط اطلاع یا معمولی شک کی بنیادپر آناً فاناً غائب کر دیا جاتا ہے۔
بعض تو اُن میں سے پھر کبھی واپس نہیں آتے اور بعض برسہا برس تک اور بعض
مہینوں اور ہفتوں تک ایسی تکلیفیں واذیتیں سہہ کر واپس لوٹتے ہیں، جس کا
تصور نہیں کیا جا سکتا۔ رہائی پہ پتہ چلتا ہے کہ غلط فہمی میں انہیں دھر
لیا گیا تھا یا وہ بے چارے کسی متعصب اہل کار کے تعصب یا ذاتی عناد کا
نشانہ بن کر عقوبت خانوں کی نذر رہے۔
ملک میں کتنے خاندان ایسے ہیں جن کے لعل عرصہ دراز سے لاپتہ ہیں، نہ تو ان
پر کوئی مقدمہ چلا کر انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں، نہ ہی ان کا جرم
ان کے لواحقین کو بتایا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی اصلاح کی کوئی تدبیر کی
جاتی ہے۔ ایسے متاثرین کو نہ عدالتیں ریلیف دے رہی ہیں، نہ ہی میڈیا میں ان
کی شنوائی ہے۔ ہزاروں معصوم بچے، سینکڑوں بے سہارا خواتین اپنے سہاروں کی
منتظر ہیں اور سوائے اللہ تعالیٰ کے دربار کے انہیں دہائی سنانے کے لئے
کوئی مقام میسر نہیں۔
(۳)۔۔۔بلاشبہ دہشت گردی نہایت بھیانک ناقابلِ معافی جرم ہے، لیکن مجرم کے
جرم کو ثابت کیے بغیر اسے سزا دینا بلکہ جان سے مار ڈالنا بھی کوئی انصاف
نہیں۔ ملک میں آئے روز مبینہ پولیس مقابلوں کے ذریعے نوجوانوں کا قتلِ عام
کسی سے مخفی نہیں۔ ان پولیس مقابلوں کی کہانی بھی تقریباً ملتی جلتی ہوتی
ہے: ’’دہشت گرد گرفتار ہوتے ہیں، انہیں چھڑانے کے لئے ان کے ساتھی پولیس پر
حملہ آور ہوتے ہیں، نتیجے میں بجائے اُن لوگوں کے جن پر حملہ ہوا دہشت
گردوں کے ساتھی ہی مارے جاتے ہیں۔‘‘ ایسے واقعات شاذ ونادر نہیں بلکہ عام
ہیں اور آئے روز پولیس مقابلوں میں باریش نوجوانوں کی موت کی خبریں آتی
رہتی ہیں۔ نہ جانے جن کے قتل کی خبریں میڈیا کو جاری نہیں کی جاتی، اُن کی
تعداد کیا ہو گی اور اُن کے کفن ودفن کا کیا ہوتا ہو گا۔ یہ سب کچھ یا تو
چوروں، ڈاکوں کے ساتھ ہو رہا ہے یا مسلکِ دیوبند کے اُن کارکنوں ورضا کاروں
کے ساتھ، جو ہرجماعت کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے
بھی انکار نہیں کہ ان میں شاید کچھ لوگ دہشت گردوں کے ساتھی ہوں یا دہشت
گرد ہونے کے ناطے مستحقِ سزا ہوں تو کیا عدالتیں اور ملک کا عدالتی نظام
موجود ہونے کے باوجود یہ طریقہ اختیار کرنا انصاف کہلاتا ہے؟ ہمارے اندازے
کے مطابق ایسے سینکڑوں بے زبان گھرانے موجود ہیں، جن کے لعل ان سے اس طریقے
سے چھین لئے گئے، جس کے نتیجے میں اُن کی نسلوں میں انتقام کا مادہ نشوونما
پاتا جا رہا ہے جو نہایت خطرناک ہو گا۔
(۴)۔۔۔ فرقہ واریت اور انتہاپسندی کو ہرسلیم الفطرت مسلمان بالخصوص
اکابرینِ دیوبند ہر لحاظ سے نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ شکنی
بھی کرتے ہیں۔ فرقہ پرست عناصر پہ نظر رکھنا اور انہیں کنٹرول کرنا ریاست
کا حق ہے، لیکن فرقہ واریت کے نام پر صرف ایک طبقہ کو موردِالزام ٹھہرا کر
پابندیوں اور جبر وظلم کا نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے؟ ملک بھر میں سروے
کروایا جائے تو ایسے ہزاروں علماء، کارکن دستیاب ہوں گے، جن پر فرقہ واریت
کے جھوٹے پرچے کاٹ کر انہیں پابندِسلاسل کیا گیا۔ ان میں سے بہت سے بے گناہ
ابھی تک جیلوں کی کال کوٹھڑیوں میں جل وسڑ رہے ہیں۔کبھی ان کا کالعدم
تنظیموں کے لئے چندہ کرنے کا جرم بتایا گیا، بعض افراد کو کافر کافر کا
نعرہ لگاتے پکڑے جانے کا جرم تحریر ہوا، بعض افراد کو لٹریچر تقسیم کرنے
جیسے جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگا کر برسہا برس تک جیل کی سزائیں دلوائی
گئیں، ان کا جرم بس دیوبندی ہونا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
(۵)۔۔۔دیوبندی مدارس بھی خصوصی نشانہ پر ہیں۔ پنجاب میں بیشتر مدارس پر
قربانی کی کھالیں جمع کرنے پر پابندی، آئے روز خفیہ اداروں کی مدارس میں
دراندازی اور مداخلت، اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والے ان تعلیمی اداروں پر
پولیس گردی اور یلغار، کوائف طلبی کے نام پر چڑھائی کسی سے مخفی نہیں، یہ
سب کچھ صرف ایک مسلک کے مدارس کے ساتھ ہی کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ بات
قابلِ غور نہیں! ایک ہی مسلک کے اداروں کے خلاف منظم پروپیگنڈا، ان کے
اداروں کے معاونین کو اداروں سے دور رہنے کی غیر اعلانیہ ترغیب وترہیب کو
ہر دیوبندی بخوبی جانتا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ غیر محسوس طریقے سے ان
مدارس کے وسائل ختم کر کے انہیں ناکام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نہ تو ان
اداروں کو کوششِ بسیار کے باوجود رجسٹر کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کے بینک
اکاونٹ کھولے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب رجسٹریشن اور مالیات پر نظر رکھنے کی
باتیں کی جا رہی ہیں۔ مفت تعلیم کے ان اداروں کے وجود کو اب اس قدر خطرہ
لاحق ہو گیا ہے کہ شاید اس سے قبل ایسے خطرات کبھی محسوس نہیں کئے گئے۔
(۶)۔۔۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملکی اداروں کی منظم انداز سے مسلک دیوبند کے
خلاف باقاعدہ ذہن سازی کر کے ان کے ’’مباح الدم‘‘ ہونے کا تصور دیا گیا۔ اس
لئے کہ ملک بھر سے ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ بعض ججز اور تفتیشی
افسر صراحت کے ساتھ دیوبندی ہونے کو جرم قرار دیتے ہیں۔ نیز وہ اعلانیہ طور
پر اس مسلک کو اپنے غیض وغضب کا نشانہ بناتے ہیں۔ تفتیشی مراحل سے گزر کر
آنے والے کارکنوں سے یہ دریافت کیا جا سکتا ہے کہ ان سے اس نوعیت کے کس طرح
سوالات کئے گئے اور انہیں اپنے مسلک کے بارے میں کیا کچھ نہیں سننا پڑا؟
بعض متعصب اہل کاروں کے ہاں صرف دیوبندی ہونا ہی ثبوتِ جرم کے لئے کافی ہے۔
اس صورت حال کا ادراک کرنا ضروری ہے کہ یہ سوچ وفکر معاملات کو کہاں تک لے
جائے گی؟
(۷)۔۔۔نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کے بعد سرکاری مساجد سے دیوبندی آئمہ کی بے
دخلی اور دیگر مسالک کی آئمہ کی تقررّی، سرکاری افسران کا متعصبانہ طرزِ
عمل، دیوبندی مخالف قوتوں کی حوصلہ افزائی، دیوبندی فکر کے خلاف اعلانیہ
تقاریر واقدامات پر چشم پوشی بلکہ سرپرستی بھی اس ضعیف وبے سہارا قوم کا
ایک درد ہے۔
(۸)۔۔۔نیشنل ایکشن پلان کے بعد ملک میں ضلعی سطح پر انٹیلی جنس اداروں کو
فعال ومتحرک کرنے کے ساتھ باہم معلومات کے تبادلہ اور اشتراکِ عمل کی
پالیسی بنائی گئی۔ ہر ضلع میں انٹیلی جنس اداروں کے ماہانہ مشترکہ اجلاس
میں طے شدہ امور کو حتمی سفارش قرار دے کر کاروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ان
اداروں کے بعض اہلکار ذاتی عناد، مسلکی تعصب، خاندانی یا علاقائی تنازعات
کی بنیاد پر بے قصور، پرامن لوگوں کے نام دہشت گردوں یا سہولت کاروں میں
شامل کر دیتے ہیں، جنہیں دیگر ادارے بھی رواداری میں قبول کرتے ہوئے ہاں
میں ہاں ملا کر متفقہ رپورٹ تحریر کر کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کر دیتے
ہیں۔ ایسے شخص کے خلاف ہوم ڈیپارٹمنٹ سے زندگی بھر کے لئے سخت احکام لاگو
ہو جاتے ہیں، حالانکہ ان تمام مراحل کی بنیاد ’’عصبیت‘‘ پر ہوتی ہے۔ بار
بار چیخنے چلانے کے باوجود نہ یہ سلسلہ تھم سکا اور نہ ہی ایسے متعصب
اہلکاروں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی، نتیجتاً بے
گناہوں کی جان پر بن پڑی۔
(۹)۔۔۔ملک میں فرقہ پرستی، انتہاپسندی اور دہشت گردی کی بنیاد پر کچھ
تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا۔ کالعدم قرار دینے اور کالعدم تنظیموں کے
خلاف کاروائیوں کے سلسلہ میں بھی واضح جانب داری عیاں ہے۔ ایک طبقہ جو فرقہ
پرستی، فتویٰ بازی اور تشدد میں کسی سے کم نہیں، کو اس پابندی سے مستثنیٰ
رکھا گیا۔ کالعدم تنظیموں میں دیوبندی خیال کی تنظیموں کو شجرِ ممنوع قرار
دے کر جڑ سے اُکھیڑ پھینکا گیا، کارکنان کا ماورائے عدالت قتل، مقدمات،
فورتھ شیڈول کسی سے مخفی نہیں۔ جبکہ دیگر کالعدم تنظیموں کے ساتھ دوستانہ
تعلقات، سرگرمیوں کی آزادی بلکہ سرکاری سطح پر ان کی سرپرستی کسی سے ڈھکی
چھپی نہیں۔
سطورِ بالا میں تحریر کردہ چند امور بطورِ نمونہ ذکر کئے گئے ورنہ بہت سے
ایسے اقدامات بھی اُٹھائے جا رہے ہیں، جنہیں تحریر کرنا خطرات سے خالی
نہیں۔ ان حالات میں مسلکِ دیوبند کے اکابرین سے بالخصوص اور ملک کے اہلِ حل
وعقد سے بالعموم گذارش ہے کہ اس صورت حال کا جائزہ لے کر قوم کی راہنمائی
کا فریضہ سرانجام دیں، اس ظلم کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا فرمائیں۔ اس
صورتِ حال کو قابو میں اس لئے بھی لانا ضروری ہے کہ یہ اقدامات اس طبقہ کو
شدت پسندی پر اُبھار رہے ہیں، اگر ان زخموں پر مرہم نہ رکھی گئی تو زخم
ناسور ہو کر معاشرہ کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں اس
امر کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا یہ سب کچھ جبری مذہب کی تبدیلی کی
طرح جبری طور پر مسلکِ تبدیلی کی تحریک تو نہیں؟
ایک طبقہ پر عرصۂ حیات کیوں تنگ کیا جا رہا ہے؟ آپ حضرات پہلے بھی اپنے
فرائضِ منصبی سے پوری طرح سبکدوش ہو رہے ہیں، مزید اتفاق واتحاد، بصیرت
وحکمت کے ساتھ ہزاروں مایوس، مفلوک الحال خاندانوں کا سہارا بنیں، ان کی
اَشک شوئی فرمائیں، اپنا اثر ورسوخ استعمال فرمائیں اور قوم کو ایک راہ
دیں، قوم کو آپ کی راہنمائی کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر مایوسی مذہبی کارکنوں
پر وباء کی طرح سوار ہو گئی تو پھر یہ صورتِ حال تباہ کن ہو گی۔ آج لاکھوں
مائیں، بہنیں، بچے، بیوگان، یتامیٰ، بے گناہ، اسیری میں شب وروز گذارنے
والے اپنا رونا کس کے آگے روئیں۔۔۔!!! وہ بے بسی اور لاچارگی کے عالم میں
گویا ہیں
نسیما جانبِ بطحا گذرکن
زا حوالم محمد را خبر کن
مشرف گرچہ شد جامی زلطفت
خدایا! ایں کرم یار دگر کن
|
|