نبی ﷺ کے فضائل سے متعلق چند باتوں کی تحقیق
(Maqubool Ahmad, Suadi Arab)
نبی ﷺ کی شان سب سے نرالی ہے ، قرآن وحدیث
کے متعدد نصوص سے آپ ﷺ کے بے شمار فضائل اور لاجواب وبے مثال شان وشوکت کا
اندازہ لگتا ہے ۔ انسانی تاریخ میں ایسے پہلے آدمی ہیں جنہیں اللہ تعالی یہ
بلندمقام ومرتبہ دیا۔ آپ کی رفعت شان کے باوجود آپ ایک بشر ہیں ۔ ایک بشر
ہونے کے ناطے آپ میں ویسے ہی بشری اوصاف تھے جو ایک انسان میں پائے جاتے
ہیں ۔ ہاں آپ بعض بشری اوصاف میں انسانوں سے ممتاز ہیں جوصحیح دلیل سے ثابت
ہیں۔ مثلا آپ کا پسینہ بیحد خوشبودار تھا۔
آپ ﷺ کی شان میں غلو کرنے والوں نے وہ باتیں بھی آپ کی طرف منسوب کردی جو
بشری اوصاف سے اوپر ہیں اور جن کی کوئی صحیح دلیل وارد نہیں ہے ۔ اس قسم کی
باتوں کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
لا تُطْروني ، كما أطْرَتِ النصارى ابنَ مريمَ ، فإنما أنا عبدُه ، فقولوا
: عبدُ اللهِ ورسولُه(صحيح البخاري:3445)
ترجمہ: مجھے میرے مرتبے سےزیادہ نہ بڑھا ؤ جس طرح نصاری نے عیسی کے مرتبے
کو بڑھادیا۔میں تو صرف اللہ کابندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق
)کہ میں اللہ کابندہ اوراس کارسول ہوں۔
سطور ذیل میں چند باتوں کی تحقیق پیش کی جاتی ہے جو نبی ﷺ کی طرف منسوب کی
جاتی ہیں ۔
پہلی بات : نبی ﷺ کو کبھی اونگھ نہیں آتی تھی ۔
جواب : نیند انسان کی ضرورت اور ان کا خاصہ ہے ، اس لئے نبی ﷺ بھی سوتے اور
جاگتے بلکہ آپ ﷺ نے ہمارےلئے سونے اور جاگنے کا بہترین اسوہ پیش کیا ہے جس
میں جلدی سونے ، سوتے وقت اذکار پڑھنے،دائیں کروٹ سونے ، جلدی بیدار ہونے
،بیدارہوتے وقت دعا پڑھنے کے آداب سکھلائے ہیں ۔ بخاری شریف کی مشہور حدیث
ہے جس میں تین قسم کے افراد میں سے ایک نے کہا میں رات بھر نماز پڑھتا رہوں
گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھتا رہوں گا، تیسرے نے کہا میں عورتوں
سے الگ رہوں گا ،شادی نہیں کروں گا۔ جب یہ باتیں نبی ﷺ کو معلوم ہوئیں تو
آپ نے فرمایا:
أما واللهِ إني لأخشاكم للهِ وأتقاكم له ، لكني أصومُ وأُفطِرُ ، وأُصلِّي
وأرقُدُ ، وأتزوَّجُ النساءَ ، فمَن رغِب عن سُنَّتي فليس مني(صحيح
البخاري:5063)
ترجمہ: سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے
زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہوں لیکن میں اگر
روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور
سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کر تا ہوں ۔ میرے طریقے سے جس نے بے
رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
اونگھ بھی نیند کے قبیل سے ہے ، لہذا نبی ﷺ انسان کی طرح ہی سوتے تھے اور
آپ کو اونگھ بھی آتی تھی ۔ حدیث میں اونگھ کی بھی صراحت موجود ہے۔ایک بار
آپ نے فجر کی نماز کے بعد صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:
أما إنِّي سأحدِّثُكُم ما حبسَني عنكمُ الغداةَ: أنِّي قمتُ منَ اللَّيلِ
فتوضَّأتُ فصلَّيتُ ما قُدِّرَ لي فنعَستُ في صلاتي فاستثقلتُ، فإذا أَنا
بربِّي تبارَكَ وتعالى في أحسَنِ صورةٍ،(صحيح الترمذي:3235)
ترجمہ: میں آپ لوگوں کو بتاؤں گا کہ فجرمیں بروقت مجھے تم لوگوں کے پاس
مسجد میں پہنچنے سے کس چیز نے روک لیا، میں رات میں اٹھا، وضوکیا، (تہجد
کی) نماز پڑھی جتنی بھی میرے نام لکھی گئی تھی، پھر میں نماز میں اونگھنے
لگا یہاں تک کہ مجھے گہری نیند آگئی، اچانک کیا دیکھتاہوں کہ میں اپنے
بزرگ وبرتر رب کے ساتھ ہوں و ہ بہتر صورت وشکل میں ہے۔
اللہ کی ذات ہی تن تنہا ایسی ہے جسے کبھی اونگھ نہیں آتی ۔ فرمان رب
العالمین ہے :
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ
سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ(آية الكرسى)
ترجمہ: اللہ تعالی ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ
اورسب کاتھامنے والا ہے ، جسے نہ اونگھ آئے نہ نیند۔
دوسری بات : آپ کے جسم پر کبھی مکھی نہیں بیٹھی ۔
مکھی انسانی سماج کا حصہ ہے ۔ جہاں انسان رہتے سہتے ہیں وہاں مکھیاں بھی
عام طور سے پائی جاتی ہیں ۔خاص طور سے کھاتے پیتے وقت مکھیاں آجایا کرتی
ہیں ۔ اس لئے نبی ﷺ نے مکھی سے متعلق ارشاد فرمایاہے :
إذا وقَع الذُّبابُ في شَرابِ أحدِكم فلْيَغمِسْه ثم لْيَنزِعْه ، فإنَّ في
إحدى جَناحَيه داءً والأخرى شِفاءً .( صحيح البخاري:3320)
جب مکھی کسی کے پینے ( یا کھانے کی چیز ) میں پڑجائے تو اسے ڈبودے اور پھر
نکال کر پھینک دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور اس کے دوسرے ( پر
) میں شفا ہوتی ہے ۔
مکھی کبھی جسم پر، کبھی دیوار پر تو کبھی کھانے پر بیٹھ جایا کرتی ہے ،
کوئی بعید نہیں کہ آپ ﷺ کے جسم مبارک پر بھی بیٹھ جاتی ہو کیونکہ آپ بھی
بشر تھے ، آپ بھی کھاتے پیتے تھے اور انسانی سماج میں رہتے تھے ۔ آپ ﷺ کے
جسم مبارک پر مکھی نہ بیٹھنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔اگر آپ ﷺ کے لئے مکھی
سے متعلق کوئی خصوصیت تھی تو ضرور آپ ہمیں اس سے متعلق رہنمائی فرماتے یا
آپ کے پیارے اصحاب جو آپ سے سدا چمٹے رہتے اور آپ کے ادنی واعلی اوصاف بیان
کرتے تھے وہ ضرور ہمیں اس سلسلے میں آگاہ کرتے مگر ایسی کوئی بات نہ نبی ﷺ
سے اور نہ ہی کسی صحابی سے ثابت ہے البتہ اس سلسلے میں علماء کے بعض اقوال
ملتے ہیں مگر کسی صحیح نص سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے یہ اقوال تسلیم نہیں
کئے جائیں گے۔
اقوال کے علاوہ ایک وجہ غلوکرنے والے کی طرف سے ہے جو نبی ﷺ کونورمجسم
مانتے ہیں اور نورمجسم کے جسم پر مکھی کا بیٹھنا قادح مانتے ہیں، اس لئے
نبی ﷺ کے جسم پر مکھی بیٹھنے کا انکار کرتے ہیں ۔آپ یہ جان لیں کہ نبی ﷺ نہ
تو نور مجسم ہیں اور نہ ہی بشر سے الگ کوئی دوسری مخلوق ہیں ۔ بلاشبہ آپ
بشر ہی ہیں اور جب آپ بشر ہیں تو آپ میں بشری اوصاف ہی تسلیم کئے جائیں گے
الا یہ کہ آپ کی کسی خصوصیت کی الگ سے کوئی دلیل آئی ہو۔
لوگوں کے لئے ایک وجہ یہ بھی ہے جس سے نبی ﷺ کے جسم پر مکھی بیٹھنے کا
انکار کیا ہے کہ یہ گندگی پر بیٹھتی ہے اورگندی چیز نبی ﷺ کے جسم کو نہیں
لگ سکتی ۔
اولا : مکھی صرف گندگی ہی پر نہیں بیٹھتی ،اگر ایسا ہے تو پھر دیوار پر،
کھانے پر، پانی پر، انسان پرکیوں بیٹھتی ہے جبکہ یہ سب گندگی تو نہیں؟
ثانیا: مکھی گندی چیز پر بیٹھنے سے نجس ہوجاتی ہے تو نبی ﷺ کبھی بھی یہ نہ
فرماتے کہ مشروب میں مکھی گرجائے تو مزید اس میں ڈبودو اور پھر پیو بلکہ
فرماتے مشروب میں مکھی گرنے سے نجس ہوگیا اسے پھیک دو۔
ثالثا: مکھی نجس اور گندی چیز پر بھی بیٹھتی ہے مگر اس کی نجاست اس قدر
نہیں ہوتی کہ وہ کسی سامان میں گرنے سے اسےنجس کردے جیسےزیادہ پانی میں
معمولی گندی چیز گرجائے مگر اس کا رنگ ، یا بو ، یا مزہ نہ بدلے تو پاک ہے
۔
رابعا: اگر مکھی پر واضح طور سے نجس چیز لگی نظر آرہی ہے اور وہ مشروب میں
گر جائے تو اسے پھیک دے یا جسم پر بیٹھ جائے اور جسم سے بدبو ظاہر تو اس
جگہ کو صاف کرلے ، یہ نظافت کا تقاضہ ہے ۔
طاہرالقادری نے اپنے ایک مضمون میں امام بخاری رحمہ اللہ کے خواب سے متعلق
واقعہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے" حضور ﷺ کے جسم اقدس پر مکھیوں کا بیٹھنا" ۔
اس عنوان کے تحت نیچے امام بخاری ؒ کا خواب درج ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ
علیہ خواب دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ تشریف فرماہیں اور امام بخاری ہاتھ والے
پنکھے سے ہوا دے رہے ہیں ، کچھ مکھیاں حضورﷺ کی طرف جارہی ہیں ، آپ پنکھے
سے بدن اقدس سے مکھیاں اڑا رہے ہیں ۔ آگے خواب کی تعبیرکا ذکر ہے ۔میں مزید
آگے کچھ نہیں لکھنا چاہتا،مقصود کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
تیسری بات : آپ ہمیشہ اپنے قریب کھڑے شخص سے ذرا لمبے رہتے تھے۔
جواب : انسانی سماج میں انسان کے قد تین قسم کے ہوتے ہیں ۔
(1) کچھ لوگ لمبے ہوتے ہیں ۔
(2) کچھ لوگ درمیانہ ہوتے ہیں ۔
(3) کچھ لوگ پست قد ہوتے ہیں ۔
ان تینوں میں درمیانہ قد سب سے بہتر مانا جاتا ہے حالانکہ ساری تخلیق اللہ
کی ہی ہے مگر اللہ نے نبی ﷺ کو ایسی قامت دی جو انسانی سماج میں بھی قدر کی
نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ربعةً ليسَ بالطَّويلِ ولا
بالقَصيرِ حسنَ الجِسمِ أسمرَ اللَّونِ وَكانَ شعرُهُ ليسَ بجعدٍ ولا سَبطٍ
، إذا مشى يتوَكَّأُ(صحيح الترمذي:1754)
رسول اللہ ﷺ میانہ قدتھے ، آپ نہ لمبے تھے نہ کوتاہ قد، گندمی رنگ کے سڈول
جسم والے تھے، آپ کے بال نہ گھنگھریالے تھے نہ سیدھے ،آپ جب چلتے تو
پیراٹھاکرچلتے جیساکوئی اوپرسے نیچے اترتاہے ۔
جو صحابی یا جو انسان آپ سے قد میں لمبے ہوں گے ، ظاہر سی بات ہے کہ آپ ﷺ
ان کے پاس بحیثیت جسم کچھ چھوٹے نظر آئیں گے ۔ اس بات سے شان رسالت پر کوئی
فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی آپ کی عظمت ووقار پر کوئی حرف آتا ہے ۔ اس بات کو
ایک انوکھی مثال سے سمجھاتا ہوں ۔ کچھ صحابہ کرام آپ ﷺ سے قد میں بڑے رہیں
ہوں گے تو کچھ عمر میں بھی بڑے رہے ہوں گے ۔ فضائل الصحابہ میں بسند صحیح
یہ واقعہ مذکور ہے، رزین ؒسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ
عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ ؟ پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ
عمر میں کون بڑے ہیں ؟ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ رسول اللہ
ﷺ مجھ سے بڑے ہیں مگر میں پہلے پیدا ہوا ہوں ۔ (فضائل الصحابہ لامام احمدبن
حنبل ،حدیث رقم:1831)
اس واقعہ سے ایک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی قد میں یا عمر میں نبی ﷺ
سے بڑا ہے تو اس سے وہ نبی ﷺ کے مقام ومرتبہ میں بڑا نہیں ہو سکتا ، اللہ
تعالی نے نبی ﷺ کو اتنا بلند مقام دیا کہ کوئی اس کو چھو نہیں سکتا ۔دوسری
بات یہ معلوم ہوئی کہ صحابہ کرام بات کرنے میں حد درجہ ادب ملحوظ رکھتے تھے
، سائل کا مقصد عمرکے متعلق سوال تھا،جواب میں یہ کہہ سکتے تھے کہ میں نبی
ﷺ سے عمر میں بڑا ہوں مگر انہوں نے کہا کہ بڑے تو نبی ﷺ ہی ہیں البتہ میں
پہلے پیدا ہواہوں۔ سبحان اللہ ۔
جوتھی بات : آپکے فضلات یعنی بول و براز کو زمین فورا کھالیتی تھی۔
جواب : یہ بات ایک گھڑی ہوئی روایت میں مذکور ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا سے روایت ہے :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كان إذا دخلَ الخلاءَ ثُمَّ
خرجَ : دخلْتُ فلا أرى أثرَ شيءٍ ، إلَّا أَنِّي أَجِدُ رِيْحَ الطِّيبِ ،
فذكرْتُ ذلكَ لهُ فقال : أما علِمْتَ أنَّا معشرَ الأنبياءِ نَبَتَتْ
أَجْسامُنا على أَجْسادِ أهلِ الجنةِ ، فما خرجَ مِنَّا ابْتَلَعَتْهُ
الأرضُ۔
ترجمہ: جب نبی ﷺ بیت الخلاء جاتے اور نکلتے تو میں اس میں داخل ہوتی اور
وہاں کسی چیز کا اثر نہیں پاتی البتہ وہاں خوشبوکا اثر پاتی۔ میں نے اس بات
کا نبی ﷺ سے ذکر کیا توآپ نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتی ، ہم انبیاء کی
جماعت ہیں ، ہمارے اجسام جنتیوں کے اجسام پر بنائے گئے ہیں ،ان سے جو کچھ
بھی نکلتا ہے زمین اسے نگل لیتی ہے ۔
ابن عدی نے اس روایت کو الکامل فی الضعفا ء میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ
اس میں حسین بن علوان ہے جس کی احادیث عام طور سے موضوع ہوتی ہیں اور یہ
احادیث گھڑنے والا ہے ۔ ابن حبان نے بھی اسے موضوع کہا ہے ، ان کے علاوہ
بہت سارے محدثین نے اس حدیث اور اس کے راوی حسین پر سخت جرح کی ہے ۔
اس گھڑی ہوئی حدیث کو بنیاد بناکر لوگوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے فضلات یعنی
پیشاب وپاخانہ پاک ہے جبکہ اس حدیث سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح
خون وپیشاب پینے والی روایات سے بھی آپ ﷺ کے فضلات کی پاکی پر استدلال کیا
جاتا ہے مگر ان میں سے کوئی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے ۔ گویا بشر ہونے کے
سبب نبی ﷺ کے فضلات (پیشاب وپاخانہ) ناپاک ہیں ،اسی سبب آپ ﷺ پیشاب وپاخانہ
کرکے ان سے پتھر،مٹی یا پانی سے پاکی حاصل کرتے اورقضائےحاجت کے بعد نماز
کے لئے وضو کرتے ۔ اس موضوع پہ میں نے مفصل بحث کی ہے جو میرے بلاگ" مقبول
احمدبلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام" پر دیکھا جاسکتا ہے ۔
پانچویں بات : نبی ﷺ کا جسمانی سایہ نہیں تھا۔
جواب : آپ ﷺ کا ویسے ہی سایہ تھا جیسے ایک بشر کا ہوتا ہے ۔ قرآن وحدیث میں
ایسے کئی دلائل موجود ہیں۔ انسانی سایہ کو نبی ﷺ نے نماز کے اوقات کےتعین
کا معیار بنایا ہے ۔ اس انسانی سایہ میں آپ ﷺ، دیگر بشر سے مختلف نہیں ہیں
۔ایک تو بشر ہونے کی حیثیت سے آپ کے جسمانی سایہ کا انکار نہیں کیا جاسکتا
دوسرا یہ کہ احادیث میں بالخصوص آپ ﷺ کےجسمانی سایہ کا بھی ذکر ملتا ہے
۔مسند احمد اور مجمع الزوائد میں ہے کہ ایک دفعہ نبی ﷺ زینب رضی اللہ عنہا
کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے پہلے نبی ﷺ کا سایہ دیکھا جو گھر میں گھس
رہاتھا۔
اس موضوع پہ میں نے ایک بریلوی لڑکا محمد عبدالقیوم حیدر قریشی سے بحث
ومباحثہ کیا اور وہ لاجواب ہوکر جواب دینے سے قاصر رہا ، اسے بھی میرے بلاگ
پر جاکر پڑھ سکتے ہیں ۔
|
|