ظُلم آخِر کب تک؟

رُتبہ اِک ایسی شے ہے جو مِل جائے تو پھر انسان کا اصلی چہرہ سامنے لے آتی ہے اور جب انسان کو رُتبہ مِل جاتا ہے تو پھر وہ شُکر کرنے کے بجائے انسان سے درندے کا رُوپ دھاڑ لیتا ہے․ جِس کی بے شمار مِثالیں آج کے معاشرے میں موجود ہیں, جنہیں دیکھ کر ہمیں اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے․ آج معاشرے میں انسان اپنی دولت, طاقت اور شہرت کا استعمال اُن لوگوں پر کرتا ہے جو اِس سے کمتر ہوتے ہیں․
"اے انسان غرور کس بات کا کرتا ہے تُو,
آخر دوسروں کی طرح مٹی میں گُھل جائے گا تُو"

اور اِس غرور کا شکار ہمارے معاشرے کا غریب طبقہ ہوتا ہے ,یہی وجہ ہے کہ آج معاشرے میں کمسن مُلازمین رکھنے کا رحجان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے․ جو چوبیس گھنٹے اِن کے گھرکو سنبھالتے ہیں اور پھر کئی ایسے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو غربت کے باعث گھروں میں مُلازمت کے لئے رکھوا دیتے ہیں, جن کی عمر تقریبا۱۰ سے ۱۲ سال ہوتی ہے , وہ فجر سے لے کر رات گئے تک گھروں میں کام کرتے ہیں اور اگر یہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں تو لوگ انہیں دھتکارتے ہیں اور اگر محنت سے روزی کمانے کا اِرادہ کر لیں تو انہیں سخت تکلیف پہنچائی جاتی ہے․ مالکان کے نزدیک اِن کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی , وہ ہمیشہ انہیں احساسِ کمتری کا احساس دلاتے ہیں اور انہیں غلام کی طرح رکھتے ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اسے مُلازم رکھا اور اِسے خرید لیا پھر وہ جس طریقے سے چاہیں اُس سے کام لے سکتے ہیں
جبکہ اِن معصوم کمسنِ مُلازمیں کی تنخواہ نہایت کم ہوتی ہے اور اِن سے ہر طرح کا کام لیا جاتا ہے لیکن اِنہیں اِن کی محنت کے برابر معاوضہ نہیں دیا جاتا․ اِن سے وہ کام بھی کروائے جاتے ہیں جو کام مالکان کے لئے بھی کرنا نہایت مُشکل ہوتے ہیں اور جب اِن معصوموں کی عمر کی طرف دیکھا جائے تو انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اِن کمسن ملازمین کی عمر کے بچے اسکول جاتے ہیں , وہ بس ہنستے مُسکراتے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور اُن کی زندگیوں میں سکون اور خوشی کے سوا کوئی غم نہیں ہوتا لیکن ان کمسنِ مُلازمین کے کندھوں پر گھر کا سارا بوجھ ہوتا ہے․جو اپنے معصوم ہاتھوں سے محنت و مُشقت کرکے والدین کو گھر کا خرچ دیتے ہیں, اُن کے ہاتھ کتابوں کے بجائے مزدوری کرنے میں مشغول ہوتے ہیں, تو کبھی یہ مالکان کے ظلم وستم کا شکار ہوتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں,جنہیں چھوٹی سی غلطی کی بنا پر عبرت ناک سزا دی جاتی ہے اور وہ روتے تڑپتے ان سب مظالم کو برداشت کرتے ہیں یا تو کوئی اِن کی پکار کو سُن کر انہیں مظالم سے بچا لیتا ہے ,دراصل اِن کی عمر تو چھوٹی ہوتی ہے لیکن وہ زندگی کی بڑی سے بڑی سختیوں کو سہنے کے عادی ہو جاتے ہیں جنہیں کبھی تو سزاکے طور کھانا نہیں ملتا , یا تو انہیں کسی کا بچا ہوا کھانا بھی کھانے کو دے دیا جاتا ہے․ اور مالکان کے نزدیک اِن کی اہمیت جُوتی کے برابر ہوتی ہے جو جب چاہیں اُسے استعمال کرتے ہیں اور جب چاہیں اُسے پھینک دیتے ہیں․

سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آخر کیوں والدین وقت کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں اور اپنی اولاد کو محنت و مزدوری کرنے کے لئے بھیج دیتے ہیں؟ دراصل یہ غُربت ہی ہے جو انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے جگر کے ٹُکرے سے محنت ومُشقت کروائے ورنہ وہ کون سے والدین ہونگے جو اپنی اولاو کو محنت ومُشقت کے لئے بھیجیں گے․لیکن آج معاشرے میں کمسِن مُلازمین بہت سی وجُوہات کے باعث گھر سے کام کرنے کے لئے نِکلتے ہیں اور وہ وقت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں․ دراصل ہمیں سوال تو اُٹھانے آتے ہیں, مگر ہم یہ جاننے کی کوشش نہیں کرنا چاہتے کہ آخِر کِن وجوہات کی بُنیاد پر اِنسان اپنی اولاد کو مُلازمت پر رکھواتا ہے,جب گھر میں کھانے کو دو وقت کی روٹی نہ مِلے,باپ بیماری میں مُبتلا ہو اور ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہو لیکن اُس کی تنخواہ سے نہ ہی گھر کا خرچ پُورا ہو رہا ہو اور نہ ہی باپ کی بیماری کی ادویات کی ادائیگی ہو تو پھر اولاد کو مجبوراَ گھر سے نکلنا پڑتا ہے․

اگر اثرات کی بات کی جائے تو یہ کمسِن مُلازمین احساسِ کمتری کا شکارتو ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ ذہنی دباؤ کا بھی شِکار ہو جاتے ہیں اور مالی حالات بہتر نہ ہونے کے باعث والدین اپنی اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کرواتے ․ جِس کے باعث مُستقبل میں بھی یہ اِسی حالت ہیں پائے جاتے ہیں , جس حالت میں اِس وقت موجود ہیں․ ہمارے معاشرے میں ایسے کم ہی لوگ پائے جاتے ہیں جو اِن کمسِن مُلازمیں کو اولاد کی طرح پیار کرتے ہیں اور انہیں تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کرواتے ہیں ․ اگر ہم چاہیں تو اِس معاشرے کو بدل سکتے ہیں , لیکن سب سے پہلے ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا اور اِس امیر, غریب کے فرق کو ختم کرنا ہوگا ․ اِن کمسِن مُلازمیں کو اپنی اولاد کی طرح پیار کرنا ہوگا اور جو لوگ اِس غرور کا استعمال کمسِن مُلازمین پر کرتے ہیں انہیں عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی اپنے غرور کا استعمال اِن معصوموں پر نہ کرسکے․
Iqra Zia
About the Author: Iqra Zia Read More Articles by Iqra Zia: 9 Articles with 13201 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.