ڈراوے

رات بھیگ چکی تھی ‘ میں نے لا پرواہی سے کتاب کے ورق الٹے ‘ پڑھتے پڑھتے بور ہونے لگا تھا۔ نیند بھی غائب تھی ۔ معاً ایک صفحے پر نظریں جم گئیں کہانی کا عنوان تھا ’’دہشت کے پتلے‘‘ اور لمحوں میں یہ کہانی پڑھ ڈالی ۔ کتنی باراپنا بچپن یاد آیا ۔ کتنی بار اﷲ رکھا آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا ۔ مدت بعد اس کی یاد آئی ہے وہ اس دنیا میں نہیں اپنے رب کے پاس پہنچ چکا ہے ۔ یہ تیس بتیس برس ادھر کی بات ہے ۔کل کی بات لگتی ہے کہ ایک روز جو صبح ہماری آنکھ کھلی تو گھر کے سامنے والے پہاڑ پر دھوپ اپنا ڈیرہ جما چکی تھی ۔ درختوں کے پتوں سے اوس اڑگئی تھی اور بابا اﷲ رکھا اپنی کدال کے ساتھ کھیتوں میں پسینہ پسینہ بروئے کار آ چکا تھا ۔مجھے اﷲ رکھا کا صبح اٹھنا اور یوں کھیتوں میں کام کرنا ہمیشہ بھلا لگتا تھا گرمیوں کی چھٹیوں میں جب وہ یہاں کھیتوں میں آتاتو میں تمام کام چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس جا بیٹھتا ۔وہ مسلسل کدال چلاتا اس کا بدن تربتر ہو جاتا تو ایک لمحے کے لیے کدال زمین پر ٹیکتا اس کے دستے پر ہاتھ جماتا ‘ منہ میں پڑی نسوار کی گلوری انگلی سے نکال کر دور پھینکتا اور زور سے زمین پر تھوک کر کہتا ۔
’’ پتراوئے ذرا پانی دینا۔‘‘ اور میں جو پانی اس کے لیے لے کر آتا تھا گلاس میں انڈیل کر اسے پکڑاتا وہ پہلے کلی کرتا پھر غٹا غٹ پورا گلاس چڑھا جاتا ایک دو ڈکار مارتا اور پھر زمین پر چوکڑی مار کر بیٹھ جاتا ۔ ایک لمحے سورج کو گھورتا ماتھے سے پسینہ پونچھتا اور میرے چہرے پر نظریں گاڑ کر پوچھتا ۔
’’ اور سناؤ پڑھائی ہو رہی ہے ؟‘‘
منظر ہے توبہت پرانا لیکن یہ بہار کی صبح میں کھلنے والے پھولوں کی طرح آج بھی تازہ ہے ۔جب جب چھٹیاں ہوتی تھیں میرے مشغلوں میں ایک یہ بھی شامل تھا۔ مجھے کھیتوں میں کام کرتا اﷲ رکھا بہت اچھا لگتاتھا۔ جس روز کا ذکر ہو رہا ہے وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا لیکن آج بابے نے کدال ایک طرف رکھ دی تھی اور مکئی کے پودوں کے درمیان دور دور تک اگے بھنڈیوں کے نوخیز پودوں کے اندر ایک عجیب سا کام شروع کر رکھا تھا۔ لکڑی کے مختلف ٹکڑے ڈھیر کر رکھے تھے ۔ وہ ایک لکڑی اٹھاتا اور اس کے اگلے سرے پر کراس کر کے دوسری لکڑی مہارت کے ساتھ باندھ دیتا ۔ یوں وہ لا تعداد صلیبیں تیار کر کے فصل کے درمیان گاڑنے لگا ۔ میرے لیے یہ منظر عجیب سا تھا ۔اﷲ رکھااس قدر اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ کام کر رہا تھا جیسے انسان بہت بڑی مہم سر کر کے سکون حاصل کرتا ہے ۔صلیبیں گاڑنے کے بعد اس نے ایک کھیت کے کنارے پڑے ایک بنڈل کو کھولا تو اس کے اندر سے مختلف رنگ کی قمیضیں برآمد ہونا شروع ہو گئیں ۔ میری ہنسی چھوٹ گئی ۔ وہ اطمینان سے قمیضیں لے کر آگے بڑھا اور سب سے آخری صلیب پر چڑھا دی ۔اب ایک لمحے کو یوں لگا جیسے ایک انسان ہاتھ لہرائے کھڑاہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یکے بعد دیگرے کھیتوں میں دور دور تک انسانوں کے ہیولے کھڑے ہو گئے ۔

منظر دلچسپ لیکن نا قابل سمجھ تھا ۔ پہلے تو میری ہنسی چھوٹ رہی تھی لیکن اب اس قدر انوکھا نظارہ دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی ۔ اﷲ رکھا بھنڈیوں کے پودوں سے باہر آیا تھا ‘ حیرت ‘ تجسس اور میری سوالیہ نظروں کو دیکھ کر بولا ’’پتر تمہیں معلوم ہے ایسا کیوں کرتے ہیں ؟‘‘ پھر خود ہی بولا دیکھو ! جب فصل تیار ہونے لگتی ہے تو وہ سامنے والی پہاڑیوں سے پرندے‘ خرگوش ‘ گیدڑ اور دیگر جانور نکل کر کھیتوں میں آ جاتے ہیں اور فصل چٹ کر جاتے ہیں ۔ یہ چرند پرند ایسے وقت آتے ہیں جب کھیتوں میں کوئی نہیں ہوتا۔ ایسے وقت یہ بھنڈی توری ‘ مکئی اور سبزی کی دیگر فصل کے علاوہ پھلوں کو بھی بری طرح سے نقصان پہنچاتے ہیں ۔ صدیوں سے اس کا حل یہ تلاش کیا گیا ہے کہ ہم فصل کے تیار ہوتے ہی’’ ڈراوے‘‘ کھڑے کر دیتے ہیں جب ان پہاڑوں کے اس پار سے اس طرح کی مخلوق کھیتوں کی طرف آتی ہے تو یہاں ’’ انسانوں‘‘ کو دیکھ کر واپس بھاگ جاتی ہے۔‘‘ اﷲ رکھا سانس لینے کے لیے رکا تو ہم نے پوچھا ’’ باوا جی یہاں آپ کسی انسان کو بندوق دے کر کیوں کھڑا نہیں کرتے ہیں ۔‘‘
ہمارے بچگانہ سوال پر وہ کھلکھلا کر ہنسا اور بولا۔
’’ ہم ایسا نہیں کر سکتے پتر۔‘‘ ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘ ایک انسان چوبیس گھنٹے یہاں کھڑا نہیں رہ سکتا ‘ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم کسی کو بندوق دیں گے تو وہ چڑیوں ‘خرگوشوں‘ طوطوں اور چرند پرند کو مار دے گا ۔ اﷲ کی مخلوق کو مارنے سے گناہ ہو گا۔‘‘ یہ کہہ کراس نے خاک آلودہاتھ اپنے کانوں کو لگائے اور شہادت کی انگلی ناک پر مارتے ہوئے بولا ’’ توبہ کرو پتر توبہ ‘‘ جو باتوں سے ڈر جائے اسے تھپڑ نہ مارو ‘ جو ڈراوے سے ڈرجائے اسے گولی نہ مارو ۔ یاد رکھو چند پرندوں اورخرگوشوں کو مار دینے سے ان کی نسل ختم نہیں ہوتی ۔ نہ ان کا کام ختم ہوتا ہے ۔ ان کو اپنا کام کرتے رہنا ہے ۔ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ’’ ڈراوے ‘‘ کھڑے کر دیں ۔‘‘

اﷲ رکھا کی باتیں ذہن کے کسی گوشے میں ہمیشہ کے لیے چپک گئیں۔ ہم جوان ہوتے گئے اور باوا اﷲ رکھا مزید بوڑھا ہوتا رہا ۔ ہم اپنے گاؤں سے نکل کر دوسرے گاؤں پھر قصبات اور شہروں اور ان کے نواح تک چلے گئے ۔ فصل کے دور میں ہر کہیں ہمیں یہ ڈراوے نظر آتے تھے اور ہم سوچتے تھے جس کسی نے یہ سوچا کتنا خوب سوچا تھا۔ چرند پرند مرنے سے بچ گئے ۔سانپ مر گیا لاٹھی بھی نہ ٹوٹی ……فصل تباہی سے بچ گئی چرند پرند مرنے سے بچ گئے ۔ اﷲ کی مخلوق کو گولی سے بچا کر ’’ ڈراوے ‘‘ سے بھگادیا۔
اب آئیے اس چینی کہانی کی طرف جو اس رات ہمیں ماضی میں لے گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ دہشت کے لیے کھڑے کیے جانے والے ان پتلوں کی عمر سات ہزار برس پرانی ہے ۔ یہ اس دور سے استعمال میں آنا شروع ہو ئے تھے جب انسان زراعت سے آشنا ہوا تھا۔ ابتدا میں دہقان عام سی شلوار قمیض کسی لکڑی پر کھڑا کر دیتا تھا۔ کچھ عرصے بعد ہر قوم اور تہذیب میں اس کا استعمال مختلف طریقوں سے ہونے لگا تھا۔ اس حوالے سے کچھ عقائد بھی جنم لینے لگے تھے۔ مثلاً قدیم یونان اورروم کے باشندے ان ’’ ڈراووں ‘‘ کو دیوتا مانتے تھے۔ ان کو فصل میں کھڑا کرنے کے بعد یہ تصور کرتے تھے کہ یہ دیوتا ان کے کھیتوں کے محافظ ہیں ۔ پرندے ان دیوتاؤں سے ڈرتے تھے چنانچہ جب باغوں میں پھل تیار ہو جاتا تو پھل اتارنے سے قبل ان دیوتاؤں کے ’’ قدموں ‘‘ میں نذرانے رکھے جاتے اور ممنونیت کا احساس کیاجاتا ۔ اسی طرح جاپانی میں ان ’’ ڈراوؤں ‘‘ کو ’’ شوھودوناکمی‘‘پہاڑ کی اولاد قرار دیتے اگرچہ وہ بھی اﷲ رکھا کی طرح انہیں خود بناتے تھے۔ لیکن تصور یہ تھا کہ اس پہاڑ نے یہ عطا کیے ہیں ۔ چاولوں کی تیاری کے موسم میں یہ پہاڑ اپنا مسکن چھوڑ کر ان پتلوں کی نگرانی کے لیے کھیتوں میں آ جاتا ہے ۔یہاں وہ ہر ایک پتلے کے اندر سماجاتا ہے اور خزاں کے موسم تک کھیتوں میں رہتاہے۔

رفتہ رفتہ انسان نے نت نئے طریقے بھی ایجاد کیے ۔ مثلاً فصلوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بیسیوں صدی میں ایک ایسی بندوق بنائی گئی جس کا دھماکہ جانوروں اور پرندوں کے لیے ’’ ڈراوا‘‘ ثابت ہوتا تھا لیکن اس کی آواز انسانوں کے لیے بھی بہت خوف ناک تھی چنانچہ اس کا استعمال ترک کر دیا گیا ۔یہ کہانی جدید چین کو سامنے رکھ کر لکھی گئی تھی جس کے اختتام پر ایک پر دادا اپنے پڑپوتے کو یہ سمجھا رہا تھا کہ اسے اپنی فصلوں کو چرند پرند سے بچانے کے لیے بندوق اور گولی ہر گز استعمال نہیں کرنی چاہیے ۔یہ چرند پرند ہمارے دوست ہوتے ہیں ۔ ان کو اﷲ نے کسی مقصد کے لیے پیداکیا ہے ۔ اگر ان کو ہم گولی مار دیں گے تو اس کا خمیازہ بھی ہمیں ہی بھگتنا ہوگا ان کو دوست سمجھنا چاہیے اور دوست کو آپ حالات کی نزاکت کا ’’ڈراوا ‘‘ دے سکتے ہیں ۔ اسے ضائع نہیں کر سکتے۔ دہشت کے لیے پتلے ضرور کھڑے کرنے چاہئیں۔ دوست سے منہ نہیں موڑنا چاہیے ۔ دوست چاہے کتنا ہی برا کیوں نہ ہو اس سے تعلق ختم نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ پانی خواہ کتنا ہی گندا کیوں نہ ہو جائے وہ آگ بجھانے کے کام آسکتا ہے۔

کہانی پڑھے کئی روز ہو گئے ۔ چینی بوڑھا ژان ین اور پاکستانی بوڑھا اﷲ رکھا مسلسل ذہن میں گھوم رہے ہیں ۔ ان دونوں کی باتوں میں مماثلت تلاش کرتے ایک نئی حسرت نے ذہن میں گھر کر لیا ہے ۔ کاش کوئی بوڑھا ژان ین یا اﷲ رکھا آج ہمارے پاس بھی ہوتا جو ہمیں سکھاتا کہ اپنی فصل کو بچانے کے لیے ’’ ڈر اوے کھڑے کرنے چاہئیں ۔ دوست ضائع نہیں کرنے چاہئیں۔‘‘پانی گندا بھی ہو تو آگ بجھانے کے کام آ ہی سکتا ہے ۔
 
Muhammad Saghir Qamar
About the Author: Muhammad Saghir Qamar Read More Articles by Muhammad Saghir Qamar: 51 Articles with 34001 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.