لقمہ حرام کے اثرات(حصہ اول)

ہم سمجھتے ہیں ہمارے بدن کو " ویٹامین "اور " پروٹین" کی ضرورت ہے جو ہمیں غذا سے حاصل ہوتے ہیں لیکن حلال و حرام غذا ان دونوں کو فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری روح و روان پر بھی بہت ہی مھم قسم کے اثرات مرتب کرتی ہے۔

معارف اسلامی میں حلال و حرام غذا کے متعلق بہت کچھ بیان ہوا ہے۔ کیونکہ حلال وحرام غذا انسانی زند گی میں بہت ہی عجیب قسم کے اثرات رکھتی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں ہمارے بدن کو " ویٹامین "اور " پروٹین" کی ضرورت ہے جو ہمیں غذا سے حاصل ہوتے ہیں لیکن حلال و حرام غذا ان دونوں کو فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری روح و روان پر بھی بہت ہی مھم قسم کے اثرات مرتب کرتی ہے۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہے"بروز قیامت اقوام لائی جائیں گی کہ جن کی نیکیاں تہامہ (مکہ) کے پہاڑوں کی طرح ہو ں گی ، حدیث میں حسنات آیا ہے اعمال نہیں ، حسنات اور اعمال میں بہت فرق ہوتاہے بعض اعمال صرف مشقت کی منزل تک پہنچتے ہیں یعنی انجام دینے والے کو صرف مشقت کا ٹنی ہوتی ہے ان اعمال کو حسنات نہیں کہا جاتا، لیکن یہ اقوام حسنات کے پہاڑ لے کر آئیں گی (نہ اعمال کے) ،اس کے باوجود ان کو جہنم میں ڈالنے کا حکم صادر کیا جائے گا۔ اصحاب عرض کریں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آیا یہ لو گ نماز گذار نہیں ہوں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے وہ نمازیں بھی پڑھتے ہونگے،وہ روزےبھی رکھتے ہوں گے،وہ راتوں کو اٹھ کر عبادت بھی کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنی نیکیوں کے ساتھ، اتنی نمازوں کے ساتھ(ٹرینوں سے اتر اتر کر نمازیں پڑھنے والے ،بسیں رکھوا کر نمازپڑھنے والے ،سفر میں بھی روزے رکھنے والے ،راتوں کو اٹھ اٹھ کرسجدہ کرنے والے ) جہنم میں کیوں ڈالے جائیں گے ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے ؛ "کانوا اذالاح لھم شيء من الدنیا وثبوا علیہ" اس لیے کیونکہ دنیا میں سےجب کوئی چیز ان کے سامنے آتی تھی تو خود کو اس کے اوپر گرا لیا کرتے تھے"لیکن مومن کو ایسا نہیں ہونا چاہیے ،مومن کو انتہائی محتاط ہونا چاہیے جو کچھ اس کے ہاتھ آئے اس کے بارے میں احتیاط کرنی چاہیےکہیں ایسا نہ ہو کہ حرام اس کی غذا میں شامل ہو جائے اور اس کے شکم میں جا پہنچے۔
کلی طور پر لقمے تین قسم کے ہوتے ہیں؛
1۔ لقمہ حلال،
2۔ لقمہ حرام،
3۔ لقمہ مشکوک،(جس کے حلال یا حرام ہونے میں شک ہو)
لقمہ حلال کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا باطن روشن اور نورانی ہو جاتا ہے، روح ہلکا محسوس کرنے لگتی ہے ،عبادات میں لذت ولطف آنے لگتاہےاس کے برعکس لقمہ حرام سے روح بھاری پن کا احساس کرنے لگتی ہے ،عبادت مشقت لگنے لگتی ہے ،کدورت و قساوت بڑ ھنے لگتی ہے۔ فارسی کا کیا خوب شعر ہے،
علم و حکمت زائد از لقمہ حلا ل عشق ورقّت آید از لقمہ حلال
چون ز لقمہ توحسدبینی ودام جہل و غفلت زاید آنرا دان حرام
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سے چیز لینے میں بہت دقت فرماتے تھے اور جب تک اس کے حلال ہونے کا یقین نہیں ہوتا تھا اس کو نوش نہیں فرماتے تھے ، تاریخ میں نقل ہوا ہے ایک بہت ہی گرم دن "ام عبداللہ " جو کہ شداد بن اوس کی بہن تھی انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دودھ سے بھرا برتن بھیجا تاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے افطار فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ قبول نہیں فرمایا مگر یہ کہ لانے والے سے فرمایا ؛ جاؤ ام عبداللہ سے پوچھو یہ دودھ کہاں سے آیا ، اس نے جواب دیا یہ میری بکری کا دودھ ہے ،آپ نے فرمایا بکری کہاں سے آئی اس نے کہا اپنے پیسوں سے خریدی ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا ۔ جب ام عبداللہ سے ملاقات ہوئی تو اسنے علت پوچھی،کہ کیا وجہ تھی کہ آپ نے اتنی دقت فرمائی اس کے بعد دودھ قبول فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ؛ "بذلک امرت الرسل ان لا تا کل الا طیّباو لا تعمل الا صالحا" ہم رسولوں کو اسی طرح حکم دیا گیا ہے (یعنی حکم کلی بیان فرمادیا) کہ طيّب و پاکیزہ غذا کے علاوہ غذا نہ کھائیں اور صالح ونیک اعمال کے علاوہ عمل انجام نہ دیں
پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنی وصیت میں حضرت علی کرم اللہ وجھہ کو فرمایا ؛اے علی ، دسترخوان کے متعلق بارہ چیزیں ایسی ہیں جو ہر مسلمان کو معلوم ہونا چا ہیں جن میں سے چار واجب ، چار مستحب، اور چارآداب ہیں۔
دسترخوان کے واجبات؛
1۔ جس چیز کو کھانا چاہتے ہو اس کی شنا خت ، حلال ہے یا حرام، تیرے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ، آیا اس کے کھانے کا وقت ہے(فالمعرفۃ بما یاکل)۔
2۔بسم اللہ پڑھ کر شروع کر نا(والتسمیّۃ)۔
3۔ کھاتے وقت اور کھانے کے بعد شکر خدا بجا لانا۔(والشکر)
4۔ جو کچھ اللہ نے دیا اس پر راضی ہونا۔(والرّضا)
دسترخوان کے مستحبات؛
۱۔ دستر خوان پر کھانا تناول کرتے وقت بائیں ران پر بیٹھنا۔(فالجلوس علی الرجل الیسری)
2۔تین انگلیوں سے لقمہ منہ میں ڈالنا۔(والاکل بثلاث اصابع)
3۔اپنے سامنے سے غذاکھانا۔(ان یاکل ممّایلیہ)
4۔انگلیوں کو چاٹنا۔(ومصّ الاصابع)
دستر خوان کے آداب؛
1۔ لقمے چھوٹے چھوٹے لینا۔(تصغیر اللقمۃ)
2۔خوب چباکر کھانا۔(والمضغ الشدید)
3۔لوگوں کی طرف کم دیکھنا۔(وقلّۃالنظرفی وجوہ الناس)
4۔ ہاتھوں کا دھونا۔(غسل الیدین)
رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں؛انّ اللہ یحبّ ان یری عبدہ تعبا فی طلب الحلال،خدا وند متعال پسند فرماتا ہے کہ اپنے بندے کو رزق حلال کی تلاش میں تکلیف اٹھاتے ہوئے دیکھے۔ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہيں؛لا تدع طلب الرّزق من حلّہ فانّہ عون لک علی دینک، رزق حلال کی تلاش ہرگز ترک مت کرنا بیشک یہ دین داری میں تمہاری مدد کرے گی۔یعنی اگر دیندار بننا چاہتے ہو تو رزق حلال کھاؤ ، کہ دیندار بننے میں رزق حلال تمہاری مدد کرے گا۔اس کے مقابلے میں اگر تم دیندار بننا چاہو گے لیکن تمہارا رزق حلال نہیں ہو گا تو تم دیندار نہیں بن پاؤ گے۔
حضرت بہلول اور جنید بغدادی کا قصّہ؛
شیخ جنید بغدادی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے آپکا شمار بغداد کے عرفاء میں ہوتا ہے بلکہ آپ سیدالطائفہ ہیں،ایک دفعہ اپنے مریدوں اور شاگردوں کے ساتھ بغداد شہر کی سیر کے لیے نکلے انھوں نے بہلول کے بارے میں پوچھا، تو کسی نےکہا سرکار وہ تو ایک دیوانہ شخص ہے اور اپنے عصا کو گھوڑا بنا کر سواری کر رہا ہوتا ہے ،شیخ صاحب نے کہا مجھے اسی دیوانہ سے کام ہے آیا کسی نے آج اس کو دیکھا ہے ؟ ایک نے کہا میں نے فلاں مقام پر اس کو دیکھا ہے سب اس مقام کی طرف چل دئیے، حضرت بہلول وہاں ریت پر بیٹھے ہوئے تھے، شیخ صاحب نے بہلول کو سلام کیا،
بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا کون ہو؟
شیخ صاحب نے بتایا، بندے کو جنید بغدادی کہتے ہیں،
بہلول نے کہا وہی جو لوگوں کو درس دیتے ہیں؟
کہا جی الحمد للہ ۔
بہلول نے پوچھا شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟
کہنے لگے ،بسم اللہ کہنا ،اپنے سامنے سے کھانا،لقمہ چھوٹا لینا،سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا،اللہ کا ذکر کرنا ، الحمدللہ کہنا، اول وآخر ہاتھ دھونا۔
بہلول نے کہا؛ لوگوں کے مرشد ہو اور کھانےکے آداب نہیں جانتے !اپنے دامن کو جھاڑا اور وہا ں سے اٹھ کر آگے چل دئیے۔
شیخ صاحب بھی پیچھے چل دئیے ،مریدوں نے اصرارکیا ، سرکار وہ دیوانہ ہے ،لیکن شیخ صاحب پھر وہاں پہنچے،پھر سلام کیا۔
بہلول نے سلام کا جواب دیااور پھر پوچھاکون ہو؟
کہا جنید بغدادی جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔
بہلول نےپوچھا اچھا بو لنے کے آداب تو جانتےہوں گے۔
جی الحمد،متکلم مخاطب کے مطابق بولے،بےموقعہ ،بے محل اور بےحساب نہ بولے،ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔
بہلول نے کہا کھانا تو کھانا،آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے ،بہلول نے پھر دامن جھاڑا اورتوڑا سااور آگے چل کر بیٹھ گئے۔
شیخ صاحب پھروہاں جا پہنچے سلام کیا ۔
بہلول نے سلام کا جواب دیا، پھر وہی سوال کیا کون ہو؟
شیخ صاحب نے کہا ،جنید بغدادی جو کھانے اور بولنے کے آداب نہیں جانتا۔
بہلول نے اچھا،سونے کے آداب ہی بتادیں؟
کہا نماز عشاء کےبعد ،ذکرو تسبیح،سورہ اور وہ سارے آداب بتا دئیے جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں۔
بہلول نے کہا آپ یہ بھی نہیں جانتے، اٹھ کر آگے چلناہی چاہتے تھےکہ شیخ صاحب نے دامن پکڑ لیااور کہا جب میں نہیں جانتا تو بتانا آپ پر واجب ہے۔
بہلول نے کہا جو آداب آپ بتا رہے ہيں وہ فرع ہیں اور اصل کچھ اورہے ،اصل یہ ہے کہ جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام،لقمہ حرام کو جتنا بھی آداب سے کھاؤ گے وہ دل میں تاریکی ہی لائےگانور وہدایت نہیں،
شیخ صاحب نے کہا جزاک اللہ۔
بہلول نے کہا کلام میں اصل یہ ہے کہ جو بو لو اللہ کی رضاو خوشنودی کیلئے بو لو اگر کسی دنیاوی غرض کیلئے بولو گے یا بیھودہ بول بولو گے تو وہ وبا ل جان بن جائے گا ۔
سونے میں اصل یہ ہے کہ دیکھو دل میں کسی مؤمن یا مسلمان کا بغض لیکریا حسد و کینہ لیکر تو نہیں سو رہے ،دنیا کی محبت ،مال کی فکر میں تونہیں سو رہے ،کسی کا حق گردن پر لیکر تو نہيں سو رہے ۔۔۔۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کبھی کبھی ہم علم نظری میں اور فروعات میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ علم عملی اور اصول تک ہماری رسائی مشکل ہوجا تی ہے۔(جاری ہے)

tawakal shamsi
About the Author: tawakal shamsi Read More Articles by tawakal shamsi: 6 Articles with 8635 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.