پبلک سروس کمیشن خیبرپختونخواکے حالیہ انٹرویوز

لو جی ایک او رچونکا دینے والی خبر سے باخبر ہوجائیے کہ پبلک سروس کمیشن خیبر پختونخوا میں انٹرویو دینے والے امیداروں نے کچھ ایسے ایسے جوابات دیے کہ عقل حیران تو ساتھ انسان افسوس صد افسوس کرتا رہے،حالانکہ یہ کوئی نئی بات بھی نہیں کہ جس پر حیرانگی کا کچھ اس طرح سے اظہار کیا جائے کیونکہ پاکستان میں نجی تو نجی اب تو سرکاری تعلیمی ادارے بھی قریباً غیر معیاری کی صورت اختیار کرچکے ہیں،جہاں تعلیم کے ساتھ کھلواڑ فخر سمجھاجاتاہو وہاں ایسی خبریں لطیفے تو ہوسکتی ہیں افسوس کے قابل نہیں۔ہوسکتا ہے مذکورہ امیدواران معاشی حالات کی وجہ سے بوقت انٹرویو گھبراگئے ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امیدواران موجودہ حالات کی وجہ سے ذہنی کوفت کاشکارہوں،مگرجناب ایسا تب ہی تصورکیاجاسکتاہے جب امیدواران ایک عرصہ سے بے روگازی کی چکی میں پس کر انٹرویو کے مرحلے تک پہنچے ہوں،کیونکہ یہاں تو حالات ہی کچھ اور تھے۔ایک اخباری خبر کے مطابق امیدواران میں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدوارشریک تھے وہاں سیاسیات میں گولڈ میڈلسٹ امیدواربھی تشریف لایا تھا جو گولن سٹالن کے بارے میں لاعلمی کا شکار نظرآیا۔اس کے علاوہ ایک امیدوار نے تو پاکستان کا وفاقی بجٹ 5کروڑ کرڈالا اسی طرح دیگرامیدواران بھی اوٹ پٹانگ جوابات دے کر رخصت ہوتے رہے۔اور یوں ثابت ہوا کہ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام قریباًفرسودہ اور بے کار ہوچکاہے۔اورہوگا کیوں نہیں جب آپ کے ہر گلی محلہ میں دو سے چار مرلہ کی عمارت میں سکول موجود ہوں اس پر تعلیم کے ساتھ گھٹیامذاق کہ انتہائی کم رقبہ میں قائم کالج اور اس پر انتہائی افسوس کے ساتھ یونیورسٹیاں ہیں۔جیسے پہلے پہل پشاور میں دو سے چار سرکاری یونیورسٹیاں تھیں کہ جن میں باقاعدہ شعبہ جات تو ساتھ کھیلوں اور دیگر سرگرمیوں کے لئے مناسب جگہیں میسر ہوتی ہیں۔اور ایک آج کی یونیورسٹیاں ہیں جو صرف ڈگریاں بانٹتی پھررہی ہیں۔ایسے میں بے چارے امیدواران مثبت جوابات دینے سے قاصرنہیں ہونگے تو اورکیاہوگا۔بہرحال فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے حالیہ نتائج بھی حوصلہ افزاء نہیں رہے اس ساری صورتحال کی وجہ تعلیمی انحطاط اور محنت وقابلیت کی کمی ہے۔جہاں ملک کے نامور ادارے ببانگ دھل دعوے کرتے نظرآتے ہیں وہاں ان کی پول حالیہ فیڈرل اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کے امتحانات نے یکسر کھول کے رکھ دی ہے،ایسے میں طلباء تو ساتھ خاص طورسے والدین سر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔حالانکہ جدید دور میں رہتے ہوئے صرف ایک کلک پر آپ دنیا جہاں کی معلومات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں،مگر بے سودکیونکہ ہمارے ہاں نوجوان انٹرنیٹ کا استعمال تو اچھی طرح جانتے ہیں لیکن اس کا مثبت استعمال کیسے ہوتاہے شاید یہ انہیں نہیں پتاورنہ تو جدید دور میں رہتے ہوئے انہیں دنیا میں یاپھر اپنے ملک میں رونما ہونے والے حالات واقعات بارے اچھی خاصی جانکاری حاصل ہوتی ۔خیر ہر انسان کی اپنی صلاحیت اور قابلیت پر منحصر ہے ورنہ تو کیا کچھ نہیں کیا جاسکتاہے۔مگر یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم کی جگہ صرف ایک مرحلہ سے گزر کر سند جاری کردی جاتی ہے ،اور یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بعض تعلیمی ادارے بلکہ ڈگری یا سند فروخت کرنے والے باقاعدہ ادارے صرف سرٹیفیکیٹ جاری کرنے پر اکتفا کرتے ہیں،حالانکہ حکومت ان کے خلاف کئی بار سنجیدگی کے ساتھ کاروائی بھی کرچکی ہے لیکن ’’دم ہے کہ سیدھی ہی نہیں ہوپارہی‘‘۔اس لئے یہ ثابت ہوتاہے کہ ہمار امتحانی نظام بھی قابلیت جانچنے کا قابل اعتماد ذریعہ نہیں رہا۔اور ہوگا بھی کیسے جب نااہل او رکم تعلیم یافتہ یاپھریوں کہہ لیں کہ اپنے شعبہ سے دور دور کی غیر وابستگی جیسے افراد اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھانے لگے ہیں تو ایسے میں تعلیمی معیار اور سول سروسز کے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھلا کیسے سامنے جاسکنے میں مدد ملے گی۔اسی طرح میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے لئے انٹری ٹیسٹ اور آسامیوں کے لئے سکریننگ ٹیسٹ کا اضافی تکلف بھی موثر ثابت نہیں ہوا۔اس پر کھلا تضاد کہ میڈیکل کالجز کے لئے انٹری ٹیسٹ سے رہ جانے یا ناکام ہونے والے طلباء وطالبات آگے جاکر بی ایس یا پھر آرٹس کے مضامین کو ترجیح دیتے ہیں۔یوں تعلیم تو گئی ’’بھینس کی طرح پانی میں‘‘۔ایسا طالب علم مستقبل میں اپنے آپ کو ڈاکٹر دیکھ رہاہوتاہے ،مگرمتعلقہ شعبہ یا مضمون پر مکمل دسترس نہ ہونے کی وجہ اسے انٹری ٹیسٹ میں ناکام کردیتی ہے،اور پھر رہی سہی کسر غیر معیاری ادارے پوری کرلیتے ہیں کہ جہاں اس بے چارے کی اس طرز پر تربیت نہیں ہوپاتی جس پر کے ہونے کی اسے اشد ضرورت ہوتی ہے۔

اس کی مثال جرمنی کے سکولز لے لیں جہاں پرائمری سطح سے ہی بچے کو اس کی استعداد کے مطابق شعبہ دے دیاجاتاہے ۔مگر یہاں تو’’ آوے کا آوا‘‘ہی بگڑا ہواہے۔اس لئے اس ساری صورتحال میں ایک مرتبہ پھر پرائمری سطح سے لے کر میٹرک کی سطح تک درس وتدریس کے نظام پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔صوبائی حکومت خیبرپختونخوااہل اور قابل اساتذہ کی میرٹ پرتقرری کرچکی ہے جس کے دورس نتائج برآمد ہونگے،مگر ساتھ ان تمام سکولوں خواہ وہ سرکاری ہوں یانجی ان کے معیار کا وقتاً فوقتاً ماہرین سے جائزہ لیاجائے اور اس بارے ایک مربوط اور پراثر نظام ترتیب دیاجائے تاکہ محولہ قسم کی صورتحال کا اعادہ نہ ہو۔
Waqar Ahmad Awan
About the Author: Waqar Ahmad Awan Read More Articles by Waqar Ahmad Awan: 65 Articles with 46584 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.