ڈاکٹر عافیہ، امریکا اور امریکی عدالت کی دہشت گردی کا شکار

قوم کی بیٹی کو چھیاسی برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ کیلئے چھیاسی برس کی قید شاید اُتنی بھیانک نہ ہو جو اس نے بگرام ایئربیس پر قیدی نمبر چھ سو پچاس کے طور پر پانچ برس گزارے۔ اس دوران امریکی اور افغان وحشی درندوں نے حافظ قرآن کو نوچا کھسوٹا۔ بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ مردوں کے درمیان پنجرے میں قید رکھ کر حاجت اور غسل پر مجبور کیا اور نہ جانے کس کس انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا۔ ڈاکٹر عافیہ پر کیا جانے والا تشدد محسوس کرنا ہو تو بگرام ایئربیس پر قید رہنے والوں کی گفتگو کا ریکارڈ کتابوں، اخباروں اور دیگر جگہ موجود ہے۔ اس خاتون کی کرب ناک چیخیں سننے والے یہ قیدی اکثر سوتے سے اٹھ بیٹھتے ہیں۔ ان کے جسم کا ایک ایک بال کانپ اٹھتا ہے اور وہ اس تکلیف کا اندازہ ہی نہیں لگا پاتے جو ڈاکٹر عافیہ سہہ رہی تھی۔

قوم کی اس بیٹی کو کس نے ان وحشی درندوں کے حوالے کیا؟ یہ سوال پوچھنا ہے تو پرویز مشرف دور کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات سے پوچھا جائے جب انہوں نے دو ہزار چار میں ڈاکٹر عافیہ کی والدہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی بیٹی کو جلد چھوڑ دیا جائے گا اور وہ بحفاظت اپنے گھر کو لوٹ آئے گی لیکن فیصل صالح حیات کی یہ تسلیاں اور تشفیاں بھی کارگر نہ ہوئیں۔ کیوں کہ جن لوگوں نے مارچ دو ہزار تین میں ڈاکٹر عافیہ کو کراچی میں ایئرپورٹ جاتے ہوئے اغواء کر لیا تھا وہ اسے ڈالروں کے بدلے امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کر چکے تھے۔ پاکستان سے کتنے ہی افراد اغواء کر کے امریکا کے حوالے کئے اور انعام کے بدلے ڈالر کمائے اس بات کا ثبوت پرویز مشرف کی ان دی لائن آف فائر میں موجود ہے۔ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ فوجی آمر خود اعتراف کرتا ہے کہ اس نے پاکستان سے لوگ پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کئے اور ڈالر کمائے لیکن کئی افراد پر امریکا الزام ثابت نہ کر سکا اور کئی برس قید میں رکھنے کے بعد انہیں چھوڑ دیا۔ یہ لوگ مشرف اور اس جیسے دیگر انسان فروشوں کے کرتوت بتانے کیلئے اب آزاد ہیں۔ ان ہی میں سے معظم بیگ بھی ہے جسے پاکستان سے شکار کر کے امریکا کے حوالے کیا گیا لیکن پھر امریکا بہادر نے اسے چھوڑ دیا۔ اپنی کتاب دشمن جنگجو میں معظم بیگ نے بگرام ایئر بیس پر پراسرار قیدی نمبر چھ سو پچاس اور خاتون کی چیخوں کا ذکر کیا تو برطانوی صحافی اور نو مسلم مریم رڈلی کانپ اٹھی۔ وہ طالبان کی قید سے رہائی کے بعد اسلام سے بہت متاثر ہوئی اور اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد امریکی قید میں موجود بے گناہ افراد کی رہائی کا عزم کر رکھا تھا۔ اس سلسلے میں وہ لاپتہ افراد کے کیسز کا مشاہدہ کر رہی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کے کیس نے مریم کو پریشان کر رکھا تھا۔ معظم بیگ کی کتاب پڑھتے ہی اس نے حقیقت سے پردہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور اپنی تحقیق سے ثابت کر دیا کہ قیدی نمبر چھ سو پچاس کوئی اور نہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے اور اس پر امریکی قید میں نہ صرف وحشیانہ تشدد کیا گیا بلکہ جنسی زیادتی کا بھی بارہا نشانہ بنایا گیا۔ مریم رڈلی نے لارڈ نذیر احمد اور عمران خان کے ساتھ دو ہزار آٹھ میں پریس کانفرنس کی تو ہر طرف کھلبلی مچ گئی۔ پرویز مشرف کی حکومت نے ہر بار ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ اس کے پاس نہیں۔ امریکا نے بھی پرویز مشرف کا ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی قید میں نہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا اور پاکستانی حکومت نے اعتراف کر لیا تھا کہ قیدی نمبر چھ سو پچاس ڈاکٹر عافیہ ہی ہے لیکن پھر کچھ سوچ کر یہ خبر روک لی گئی۔ اٹھائیس دن بعد افغانستان میں اس ڈرامے کا ڈراپ سین اس طرح کیا گیا کہ افغان گورنر کے دفتر کے پاس سے ڈاکٹر عافیہ جو نیورو سائنس میں پی ایچ ڈی بھی ہیں، کو بارودی مواد اور دیگر سامان کے ساتھ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا اور کہا یہ گیا کہ وہ خودکش حملہ کرنا چاہتی تھیں ان کے پاس سے نیو یارک کے نقشے بھی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

یہ سب یہی بس نہیں کر دیا گیا۔ اگلے دن مغربی میڈیا نے یہ خبر دی کہ نازک اور نحیف سی ڈاکٹر عافیہ نے پردے کے پیچھے چھپ کر امریکی فوجیوں پر پستول سے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں کوئی امریکی فوجی یا اہلکار زخمی تو نہیں ہوا لیکن ڈاکٹر عافیہ کو گولی لگی اور وہ زخمی ہو کر بے ہوش ہوگئیں۔ اس واقعے کے بارے میں افغان صوبے کے پولیس سربراہ کا بیان بھی قابل غور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کسی انجانے خوف سے پردے کے پیچھے دبکی ہوئی تھیں کہ اچانک ایک امریکی فوجی چلایا کہ ملزم بھاگ رہا ہے پھر اچانک ایک فوجی نے خاتون پر فائر کھول دیئے جس سے وہ زخمی ہوگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے خاتون بے ہوش ہو کر گر گئی اور امریکی فوجیوں نے اسے طبی امداد پہنچائی۔ افغان پولیس چیف کہتا ہے کہ وہ وہاں موجود تھا اور امریکی فوج کی ہڑبونگ پر بعد میں خوب ہنسا۔ اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی قوم کی بیٹی کو افغان جیل سے امریکا کی جیل منتقل کر دیا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا صرف اقدام قتل اور امریکی فوجی اور دیگر اہلکاروں پر حملے کا۔ جب کہ اس ہی خاتون کو امریکا دو ہزار تین میں وار آن ٹیرر ازم اور پھر موسٹ وانٹڈ لسٹ میں شامل کر رکھا تھا۔ مقدمے کی اس کاروائی کے دوران امریکا کے نام نہاد آزاد میڈیا کا رویہ انتہائی متعصبانہ رہا اور وہ تین بچوں کی ماں کو جو پانچ چھ سال سے اپنے تین بچوں سے دور تھی، کو القاعدہ لیلڈی قرار دیتا رہا۔ مین ہٹن کی عدالت کی جیوری اور جج برمین بھی یکطرفہ کاروائی کرتے رہے اور آخر کار ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو چھیاسی برس قید کی سزا سنا دی۔ یہ کیس یہیں ختم نہیں ہوگیا۔ ڈاکٹر عافیہ کے دو بچے بیٹا احمد اور بیٹی مریم تو مل گئے لیکن چھوٹے بیٹے سلیمان کا کچھ علم نہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسے قتل کر دیا گیا اور اس کے بارے میں بڑے بھائی احمد کو رہا کرنے سے پہلے بتا دیا گیا تھا۔ اس ساری کہانی میں جہاں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں حکومت پاکستان اور واشنگٹن میں امریکی سفیر حسین حقانی کا کردار مشکوک رہا وہیں ڈاکٹر عافیہ کے سابق شوہر کا بھی پراسرار ہے جس سے اس کی پہلی بیوی کے بارے میں تفتیش کے بعد امریکی ایف بی آئی نے ڈاکٹر عافیہ کا نام وار آن ٹیرر ازم کی فہرست میں ڈالا۔
Saifullah Khan
About the Author: Saifullah Khan Read More Articles by Saifullah Khan: 6 Articles with 5020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.