عالمی یوم خواتین اور خواتین کا استحصال
(Syed Ahmed Qadri, India)
آج 8؍ کو عالمی یوم خواتین ایسے
ماحول میں انعقاد کیا جا رہا ہے ، جب ہمارے ملک میں ہر سمت ملک کے لئے شہید
ہونے والے ایک جانباز فوجی کی بیٹی اور لیڈی سری رام کالج کی طالبہ گر مہر
کور کی آبرو ریزی کی دھمکی پر طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ افسوسناک پہلو یہ ہے
کہ کور کو صرف اس بات کے لئے اسے آبرو ریزی کی دھمکی دی گئی کہ اس نے مرکز
میں برسر اقتدار پارٹی کی طلبہ یونین اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کی غندہ
گردی کے خلاف آواز اٹھائی اور ببانگ دہل کہاکہ ’میں دہلی یونیورسٹی کی
طالبہ ہوں ، میں اے بی وی پی سے مہیں ڈرتی ہوں ، میں اکیلی نہیں ہوں ، ملک
کا ہر طالب علم میرے ساتھ ہے‘۔ اتنی سی بات کے لئیاس بچی کو دھمکی کے ساتھ
ساتھ برسر اقتدار پارٹی کے ذمّہ داروں نے جیسے جیسے بے ہودہ، نازیبا اور
ہتک آمیزالفاظ سے نوازہ ہے ، وہ ہمارے ملک کے شاندار ماضی اور تہذیبی
روایات کے بہر حال منافی ہے ۔ دوسری طرف اتر پردیش کے ایک وزیر پرجاپتی زنا
بالجبر کے ایک معاملے میں بھاگے پھر رہے ہیں ۔ یہ دونوں واقعات اس امر کے
مظہر ہیں کہ قانون کے محافظ اور ذمّہ داراشخاص کی نگاہ میں ملک کی خواتین
کے تئیں کیسا گھٹیا اور غیر اخلاقی رویہ ہے اور ان کی کیسی سوچ ہے۔ یوں تو
ہمارے ملک میں کہیں نہ کہیں پورے سال ہی خواتین پر ہونے والے ظلم
،تشدّد،بربریت، اذیت اورجسمانی و ذہنی استحصال کے واقعات کی خبریں بازگشت
کرتی رہتی ہیں ۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مرد اساس ہمارے سماج اور معاشرے میں
خواتین کو جو حقوق اور انصاف ملنا چاہئے تھا ، وہ نہیں ملا ۔ مردو ں کی
برتری حاصل شدہ سماج میں، خواتین کے اندراپنے ساتھ ہو رہے ظلم ، تشدّداور
استحصال کے خلاف پہلے آواز بلند کرنے کی پہلے ہمّت تھی ، نہ حوصلہ تھا اور
نہ ہی جرأت تھی۔لیکن خواتین کی مسلسل جد وجہد نے عالمی سطح پر خواتین کے
حقوق اور استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا ایک اہم موقع دیا ۔ اس
کی تاریخ پر ہم ایک نظر ڈالیں تو ہم دیکھئنگ کہ 8 ؍ مارچ 1957 ء ہی عالمی
سطح پر وہ اہم تاریخ ہے ، جب امریکہ کے ایک کپڑا مِل میں مزدور خواتین نے
کام کے اوقات کو سولہ گھنٹے سے دس گھنٹہ کرنے اور اجرت بڑھانے کے لئے پہلی
بار صدائے احتجاج بلند کی تھی ، اعتراض اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور
آخر کار ان مزدور خواتین کو 1908 ء میں جد و جہد کا صلہ ملا ۔ 8 ؍ مارچ
1915 ء کو اوسلو (ناروے) کی عورتوں نے پہلی عالمی جنگ میں انسانی تباہی و
بربادی پر سخت ردّ عمل کا اظہار کیا تھا ۔ 8 ؍مارچ 1917 ء کو روسی خواتین
نے امن اور بقائے باہمی کے لئے آواز اٹھائی۔ دھیرے دھیرے یہ 8 ؍مارچ عالمی
سطح پر خواتین کے لئے حق ، خود اختیار ی اور عزت و افتخار کے پیغام کا دن
بن گیا ۔ مسلسل خواتین کے مطالبات نے اقوام متحدہ کو آخر کار مجبور کر دیا
اور اس نے خواتین کے حقوق اور انصاف کے لئے8 ؍مارچ 1975ء سے 8؍ مارچ1985 ء
تک عالمی خواتین دہائی کا اعلان کیا کہ اس دہائی میں عالمی سطح پر خواتین
کے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک ، ظلم ، تشدّد، بربریت، استحصال، اذیت اور نا
انصافی کو ختم کرانھیں حقوق انسانی کا تحفہ دینے کے ساتھ ساتھ قومی اوربین
ا لاقوامی سطح کی ترقیٔ رفتار میں شامل کیا جائے ۔
اقوام متحدہ کی ایسی کوششوں کا ترقی یافتہ ممالک میں مثبت نتائج دیکھنے کو
ملے ، لیکن دوسرے بہت سارے ممالک بشمول بھارت عالمی خواتین دہائی بس ایک
رسم ادائیگی بھر رہی ۔
حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کے حقوق اورانصاف کے لئے بہت
ساری کوششیں ہو ئی ہیں۔ جان اسٹوارٹ مل جیسے مفّکر نے انسانی آزادی کے تصور
کو ظاہر کرتے ہوئے حقوق نسواں کی طرف داری کی اور سچ کو سچ کہنے کے لئے
حوصلہ اور جرأت کو وقت کی ضرورت بتایا ۔
1967 ء کے بعد 1980 ء میں کوپ ہینگن میں دوسرا بین القوامی خواتین کانفرنس
کا انعقاد کیا گیا اور
1985 ء میں نیروبی میں خواتین کی ترقی کے لئے بہت ساری پالیسی اور حکمت
عملی تیار کی گئیں ۔ 1992ء میں خواتین اور ماحولیات کا جائزہ لینے کے لئے
اس بات کو بطور خاص نشان زد کیا گیا کہ خواتین اور ماحولیات ، ان دونوں پر
تباہی کے اثرات نمایاں ہیں۔ لہٰذا موحولیات کے تحفظ میں خواتین کی حصّہ
داری کی اہمیت کو بطور خاص سمجھا جائے۔ 1993 ء میں یوم خواتین کے موقع پر
انسانی حقوق پر منعقدہ ویئنا عالمی کانفرنس میں حقوق نسواں کے مُدّے کو
حقوق انسانی کی فہرست میں شامل کیا گیا اور خواتین پر ہو رہے تشدّد اور
استحصال کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کا اعلان کیا گیا ۔ 1995 ء میں منعقدہ
چوتھے عالمی خواتین کا نفرنس میں خواتین کے وجود اور ترقی میں سدّ راہ بن
رہے نکات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی اور ان کے سد باب کے لئے ـ’’ پلیٹ فارم
برائے ایکشن ‘‘ اپنایا گیا ۔ جس پر پوری دنیا میں بہت سنجیدگی سے غور و فکر
کیا گیا ۔
ایسی تمام کوششوں کے بہت سارے ممالک میں بہتر نتائج سامنے آئے ، لیکن افسوس
کہ بھارت سمیت بہت سے ایسے ممالک ہیں ، جہاں ان مساعی کوششوں کی روشنی میں
، خواتین کے تئیں سطحی ذہنیت کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
خواتین کے جنسی استحصال کے خلاف سخت سے سخت قوانین بنتے رہے ہیں ، لیکن ان
پر سنجیدگی سے کبھی بھی عمل در آمد نہیں ہو پاتا ، جس کی بنا پر خوف ِ
قوانین ختم ہو چکا ہے ۔ ہماری حکومت اس وقت جاگتی ہے ، جب جلسہ، جلوس ،
احتجاج اور مظاہرے زور پکڑتے ہیں ۔ 1980 ء میں آزاد بھارت میں پہلی بار
خواتین نے متحّد ہو کر متھرا عصمت دری کے خلاف اپنی زبردست طاقت کے ساتھ
ساتھ جد و جہد کا مظاہرہ کیا تھا، جس سے حکومت اور انتظامیہ کو مجبور ہو کر
متھرا جنسی زیادتی معاملہ پر دوبارہ غور کرتے ہوئے سنوائی کرنا پڑی تھی،
ساتھ ہی ساتھ عصمت دری سے متعلق قوانین میں ترمیم کے لئے بھی مجبور ہونا
پڑا تھا۔ یہ یقیناََ بھارت کی خواتین کے اتحاد اور جد و جہد کی بڑی کامیابی
تھی۔
لیکن ان تمام کوششوں اور قوانین کے باوجود عصمت دری کے واقعات میں کوئی کمی
واقع نہیں ہوئی ۔ جنسی زیادتی کی شکار عورتوں اور بچّیوں کا مستقبل کس قدر
تاریک ہو جاتا ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایسی لڑکیا
ں موت کو گلے لگانے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں اور جو کسی وجہ کر خودکشی نہیں
کر پاتی ہیں ، وہ زندگی بھر بے حِس سماج میں بے وقعت اور ذلّت بھری زندگی
گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں ۔
ایسی لڑکیوں کے لئے میروالا،پاکستان کی بہادر ، جانباز ، جرأت مند اور
حوصلہ مند مختارن مائی جہادی عورت کی علامت بن کر سامنے آتی ہے ۔ اس وقت
پوری دنیا میں مختارن مائی دبی کچلی اور نا خواندہ عورتوں کی نگاہوں کی
مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس خاتون کے علاوہ بھی ایسی ہزاروں کی تعداد میں خواتین
کا نام بے اختیار زبان پر آتا ہے ، جنھوں نے اپنے عزم ، حوصلہ، ہمّت، جرأت،
شجاعت کی مثالیں پیش کر تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف میں شامل کر لیا ہے
۔ ان میں بے اختیار جو نام ذہن کے پردے پر نمودار ہوتے ہیں ، ان میں ہمارے
ملک کی رضیہ سلطان،رانی لکشمی بائی، اینی بیسنٹ، ارونا آصف علی، حاجی بیگم،
سروجنی نائیڈو،پنڈتا راما بائی، لیڈی انیس امام، بی اماں،بیگم حسرت موہانی
جیسی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایسی خواتین ہیں ، جن پر ہم ناز کر سکتے ہیں
۔ اسی طرح عالمی سطح پر میری کیوری، فلورنس نائٹینگل، ہیلن کیلر وغیرہ کا
نام خواتین کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمالیائی
ترقی کے باوجود امریکی جیسا ترقی یافتہ ملک کے عوام آج بھی ہیلری کلنٹن کو
اپنے ملک کا سربراہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ وہ ایک عورت ہے ۔ امریکہ یہ
وہی ملک ہے جس نے صدیوں تک اپنے ملک کی خواتین کو انتخابات کے موقع ووٹ
دینے کے حق سے محروم رکھا تھا ۔ ایسے حالات میں خواتین کے سلسلے میں میرا
خیال ہے کہ عالمی یوم خواتین کی اہمیت اور افادیت کے لحاظ سے خانہ پری ہی
ہے ، اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭
|
|