‘‘گھر کی مرغی دال برابر“ آپ نے
یہ محاورہ تو سنا ہوگا اور اس کے مفہوم سے بھی یقیناً آشنا ہوں گے مگر یہ
“گھر کی دال“ آخر ہے کیا جی ہاں جس طرح گھر کی مرغی ہوتی ہے اسی طرح ہر گھر
کی دال بھی ہوتی ہے ہر گھر میں نہ سہی مگر بیشتر گھرانوں میں گھر کی دال کا
وجود ذرا سا غور کیا جائے تو باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے گھر کی مرغی اور
گھر کی دال لفظی اعتبار سے مؤنث ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ
معنوی لحاظ سے بھی مؤنث جنس ہے بلکہ یہ مذکر اور مؤنث دونوں جنسوں میں پائی
جا سکتی ہے آخر یہ گھر کی دال ہے کیا اور کسی گھر میں اس کی حیثیت و مقام
کیا ہے کیسے وجود میں آئی ہے ۔۔۔؟ تو جناب وجود تو ایسے ہی آئی ہے جیسے کہ
گھر کی مرغی وجود میں آئی گھر کی مرغی چاہے کتنی ہی صلاحیتوں کی مالک کیوں
نہ ہو باہر کی دال کے آگے ماند پڑ جاتی ہے مگر کبھی کبھی اور کہیں کہیں کہ
مرغی تو آخر مرغی ہی ہے دال کے برابر کیسے ہو سکتی ہے اب رہا گھر کی دال کا
مقام تو آپ خود ہی اندازہ کر سکتے ہیں بالخصوص ان گھروں میں گھر کی دال کے
مقام کا جہاں گھر مرغیوں سے بھرا پڑا ہو اور مرغیوں کو دال کے برابر تصور
کیا جاتا ہو تو وہاں بھلا گھر کی دال کی دال کہاں گلتی ہوگی اور گھر کی دال
کی کیا حیثیت ہوگی ﴿ہاں مگر ان کے لئے جنہیں سرے سے مرغی پسند ہی نہ ہو اور
وہ دال کو ہی مرغی کے مقابل ہی سمجھتے ہوں﴾ گھر کی دال گھر کا وہ فرد مرد
یا عورت لڑکا یا لڑکی ہوتا ہے یا ہوتی ہے جو گھر کے دیگر افراد کے مقابلے
میں قدرے کم فہم کم تر یا ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے اپنے گھر کے دوسرے
افراد سے کم تر سمجھا جاتا ہو یا جاتی ہو اگرچہ وہ کمتر نہ ہو بلکہ اسے
اپنی برتری ثابت کرنے کا موقعہ ہی نہ میسر آ پاتا ہو-
عام طور پر گھر کی دال قسم کے افراد کم گو شرمیلے اور لوگوں کا ہجوم دیکھ
کر گھبرا جانے والے ہوتے ہیں گھر میں مہمان آجائیں تو گھر کے کسی کونے میں
چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے کترانے لگتے ہیں کسی سے
بات کرتے ہوئے اپنے وجود میں لرزہ محسوس کرنے لگتے ہیں سبق یاد ہونے کے
باوجود استاد کو اپنا سبق سنانے کے تصور سے ہی کانپ جاتے ہیں ﴿وہ بچے جنہیں
اپنے گھر میں دال کی حیثیت بھی نہ ملی ہو﴾ ایسا کیوں ہوتا ہے آخر وہ لوگوں
سے کیوں شرماتے گھبراتے یا ڈر جاتے ہیں-
وہ اس لئے کہ درحقیت وہ دال نہیں ہوتے لیکن ان کے اردگرد رہنے بسنے والے
افراد خود ان کے اپنے بہن بھائی اور بہت حد تک والدین بھی ان کی ایسی حالت
کے ذمہ دار ہوتے ہیں کیوں ۔۔۔؟ کیونکہ بہت سے ایسے گھروں میں جہاں بچوں کی
تعداد زیادہ ہوتی ہے وہاں واجبی صورت کے بچوں کو بچپن سے ان بچوں کے مقابلے
میں ہر معاملے میں نظر انداز کیا جانے لگتا ہے والدین بھی اپنے بچوں کو ان
کی محبت کا پورا حق دینے میں انصاف نہیں کر پاتے یہ نہیں کہ انہیں اپنے
بچوں سے محبت نہیں لیکن لاشعوری طور پر کچھ بچے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا
بن جاتے ہیں اور کچھ بس یوں ہی والدین کی محبت و شفقت سے محروم رہ کر عمر
کی منزلیں طے کرتے چلے جاتے ہیں اور ان کی یہ محرومی تا حیات ان کے ساتھ
رہتی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ان سے پیار نہیں کرتا کوئی انہیں اپنا
کچھ نہیں سمجھتا-
جبکہ رشتے دار اور ملنے جلنے والے افراد بھی بغیر سوچے سمجھے بچوں کے سامنے
ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جنہیں سن کر نازک دل بچے ایسی اذیت کا شکار ہو
جاتے ہیں جس کا انہیں خود بھی علم نہیں ہوتا پھر یہ بچے تنہا رہنا سیکھ
لیتے ہیں اور اسی طرح لوگوں سے دور اپنے گھر کے کسی کونے میں یا چھت پر
پناہ لینا شروع کر دیتے ہیں بعض اوقات مسقبل میں ایسے افراد کی یہ تنہائی
گھر والوں کے عدم توجہی اپنوں سے دوری و بے اعتنائی خود ایسے افراد اور ان
کے گھر والوں کے لئے نقصان کا باعث بن جایا کرتی ہے لیکن ہر بار ایسا نہیں
ہوتا ماحول تربیت فطری رجحان اور تعلیم زندگی کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات
انسان کی شخصیت پر اچھے برے ہر قسم کے اثرات مرتب کرتے رہتے ہیں اور وقت کے
ساتھ ساتھ انسان کی شخصیت میں بیشمار تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اب ان
تبدیلیوں کا رخ مثبت سمت میں ہوتا بہت اچھی بات ہے لیکن اگر بدقسمتی سے یہ
تبدیلیاں منفی رخ اختیار کر جائیں تو بہت برا ہوتا ہے نہ صرف فرد واحد کے
لئے بلکہ اسے تمام گھر والوں کے لئے بھی اگر گھر کے کسی ایک فرد کی شخصیت
بگڑ جائے تو کسی ایک فرد کی شخصیت کے بگاڑ سے پورا گھر متاثر ہوتا ہے کہ جب
گھر کی دال گھر کے آنگن سے باہر کی دنیا میں قدم رکھتی ہے تو پھر انہیں
اپنے گھر سے کچھ مختلف ماحول نظر آتا ہے سکول، کالج اور پھر دوران ملازمت
یا پھر شادیاں ہو جانے کے بعد نئے رشتے اور ان رشتوں کے ساتھ نبھاؤ کے
مختلف صورتیں انسان میں بے شمار تبدیلیاں لیکر آتی ہے-
کہاوت ہے کہ کمزور بنیاد پر عمارت بھی کمزور ہی کھڑی ہوتی ہے سو بنیاد کو
مضبوط رکھنا بیحد ضروری ہے اور اس کے لئے بہترین تربیت بہترین تربیت کے لئے
بہترین تعلیم اور بہترین تعلیم کے لئے بہترین ماحول کا ہونا بہت ضروری ہے
ماحول انسان کے روئیے بناتے ہیں شعور تعلیم سے حاصل ہوتا ہے اور تعلیم کے
لئے محنت لگن اور شوق ہونا چاہیے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ
دیں ان کے مشاغل پر نظر رکھیں کوشش کریں تمام بچوں پر یکساں محبت نچھاور
کریں اپنے کسی بچے کو بے توجہی کا شکار نہ ہونے دیں لڑکا ہو یا لڑکی دونوں
کی تربیت ایک ہی خطوط پر کریں ان کی بہترین تعلیم کا بندوبست کریں بچپن سے
ہی بچوں میں مذہب سے لگاؤ اور مذہب کے متعلق شعور بیدار کریں بچوں کو مذہب
سے دور نہ ہونے دیں-
اپنی اولاد کو موبائل فون اور انٹرنیٹ اس وقت لیکر دیں جب واقعتاً وہ ان
سہولیات سے استفادہ حاصل کر سکیں ناکہ اپنا قیمتی وقت اور صلاحیتیں فضولیات
میں صرف کرتے رہیں فائدہ کی بجائے کہیں اپنا نقصان ہی نہ کر بیٹھیں اور گھر
کی مرغی ہوتے ہوئے بھی کہیں نہ صرف اپنے گھر والوں کے لئے بلکہ اپنے معاشرے
کے لئے بھی دال کی حیثیت اختیار نہ کر پائیں جب کوئی اپنوں کی بے اعتنائی
اور بے توجہی کا شکار ہو کر حسن اتفاق سے کسی ایسے فرد سے ملتا ہے جو سب کے
ساتھ محبت، رواداری اور حسن سلوک و خوش خلقی و احسان کا رویہ رکھتے ہیں ہر
ایک سے ساتھ یکساں عدل و مساوات کا معاملہ رکھتے ہیں تو وہ لوگ ہی اپنے گھر
میں 'دال' کی حیثیت رکھنے والے افراد کو 'معاشرے کے لئے مرغی کی حیثیت حاصل
کرنے کے گر سیکھا سکتے ہیں اور یہی وہ افراد ہیں جنہیں مومن کہا گیا ہے جن
کی نگاہ تقدیر بدل دیتی ہے لیکن ہر بار ایسا نہیں ہوتا کبھی اس کے برعکس
نتائج بھی سامنے آجایا کرتے ہیں گھر والوں کی بے اعتنائی سے دل برداشتہ
افراد کو جب کسی غیر کی نگاہ میں اپنے لئے تھوڑی سی محبت توجہ لحاظ یا
ہمدردی نظر آتی ہے تو وہ انہیں لوگوں کو اپنے دل میں بسا کر اپنی زندگی کا
محور و مرکز مان کر اپنی زندگی ان کے نام لگا دیتے ہیں اور اسی بے نام
زندگی کو اپنی زندگی کا نام دیتے ہیں جبکہ ایسی زندگی سے نہ کچھ حاصل ہے نہ
وصول بس ایک سفر ہوتا ہے جو رائیگاں بھی ہوتا ہے اور ناتمام بھی بس یہی
کوششش کریں کہ اپنے پیاروں کو کبھی یہ محسوس نہ ہونے دیں کہ آپ ان سے محبت
نہیں کرتے ان کا خیال نہیں رکھتے ان کی تعلیم و تربیت سے آپ کو کوئی دلچسپی
نہیں اولاد کی تربیت کا معاملہ بہت نازک بھی ہے اور لازمی بھی اگر ہر
مسلمان اپنی اولاد کی پرورش و تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کرے تو گھر
میں نہ ہی کوئی دال ہو اور نہ ہی کوئی گھر کی مرغی دال برابر ہو یہی سب سے
بڑی سچائی ہے کہ اسلام بہترین مذہب اور اسلامی تعلیمات بہترین تعلیم ہے سو
اپنی اولاد میں مذہب سے دوری کا رجحان پیدا نہ ہونے دیں کہ مذہب سے دوری ہی
انسان میں ہر قسم کا بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے-
اسلامی تعلیمات پر قائم رہیں اور اپنی اولاد کی بھی ایسی بہترین تربیت کریں
کہ وہ بھی ہمیشہ اسلامی تعلیمات پر قائم رہیں اور خود پر ایک مسلمان ہونے
کی حیثیت سے فخر کر سکیں اللہ تعالٰی ہم سب کو تا دم مرگ اسلامی تعلیمات پر
عمل پیرا رہنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمارے دل ہمیشہ ایمان کی روشنی سے
جگمگاتے رہیں ﴿آمین یا رب العالمین﴾- |