کوہ قاف
(Sohail Ahmad Mughal, Lahore)
تیرہ سو سال قبل سندھ کا ایک بادشاہ تھا جس
کا نام راجہ داہر تھا۔ راجہ داہر ایک چالاک ، شاطر، اقتدار کا رسیا، عیاش
اور رنگین مزاج لیکن انتہائی بزدل انسان تھا۔671ءمیںراجہ داہرجب اروڑ کا
گورنر بنا توسندھ کی پوری سلطنت پر حکمرانی کا خواب دیکھنے لگا ۔ اس سلسلہ
میںراجہ داہر نے برصغیر کے نامور جوتشیوں اور پنڈتوں کو اکٹھا کیا اور ان
سے کہا کہ مجھے ایسا طریقہ بتاﺅ کہ میں سلطنت سندھ کا بادشاہ بن جاﺅں۔
جوتشیوں اور پنڈتوں نے کئی دن تک سر جوڑے رکھا اور بآخر راجہ داہر سے کہا
کہ اگر تم اپنی بہن ’بائی رانی‘ سے شادی کرلو تو تم پوری سلطنت کے بادشاہ
بن سکتے ہو کیونکہ تمہاری بہن کی کنڈلی میں لکھا ہے کہ جو اس سے شادی کریگا
وہی سلطنت کا بادشاہ بنے گا۔ یہ بات سن کر راجہ داہر نے اپنے وزیر’ بدھی
مان‘ کو بلایا اور ساری بات بتائی اور کہا کہ اگر میں بائی رانی سے شادی
کروں گا تو لوگ اس بات کو برداشت نہیں کرینگے جس پر وزیر نے راجہ داہر کو
جواب دیا کہ یہاں کے لوگ انتہائی بیوقوف ہیں یہ بات کو زیادہ دن یاد نہیں
رکھ سکتے دو چار دن ہنگامہ کریں گے پھر بھول جائیں گے اپنی اس بات کو ثابت
کرنے کےلئے بدھی مان نے ایک زیادہ بالوں والی بھیڑ منگوائی اور اس کے بالوں
کو پانی سے تر کرکے نرم مٹی کا لیپ کیا اور اس پر رائی کے دانے چھڑک دئیے
چند دن بعد بھیڑ کے جسم پر رائی کے پودے گھاس کی شکل میں اُگ آئے اوروزیر
نے اس بھیڑ کو دربار کے باہر نمائش کےلئے کھڑا کر دیا جس پر دور دراز سے
لوگ نایاب بھیڑ کو دیکھنے ٹولیوں کی شکل میں آنے لگے اور کئی روز تک دربار
کے باہر میلے کا سماں رہا پھر کچھ وقت گزرا تو لوگوں نے آنا کم کردیا اور
ایک دن آیا جب بھیڑ کو دیکھے کےلئے کوئی بھی موجود نہ تھا تو وزیر نے راجہ
داہر کو کہا کہ دیکھئے پہلے لوگ بھیڑ کو دیکھنے ٹولیوں کی شکل میں آرہے تھے
اور ہرطرف اسی بھیڑ کے تذکرے کیے جارہے تھے لیکن آج چند ہی دنوں میں لوگ کس
طرح اس بھیڑ کو بھول گئے ہیں ۔ لہذا اگر آپ اپنی بہن سے شادی کرلیں گے تو
یہاں کے لوگ چند دن شور شرابہ اور تذکرے کریں گے پھر بھول جائیں گے ۔وزیر
کی بات سن کر آخر کار راجہ داہر نے اپنی بہن بائی رانی سے شادی رچا لی ۔
راجہ داہر کے اس عمل پر اس کے بڑے بھائی جے سینا نے اروڑ پر لشکر کشی کردی
اور اروڑ کے باہر پہنچ کر خیمہ زن ہو گیا ۔ راجہ داہر نے انتہائی شاطرانہ
چال چلی اور بھائی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی جس پر جے سینا اکیلا راجہ داہر
سے ملنے کےلئے آگے بڑھا اوربزدل راجہ داہر نے دھوکہ دہی سے اسے قتل کردیا
یوں وہ بلا شراکت غیر پوری سلطنت کا بادشاہ بن گیا اور بہن سے شادی کا
فائدہ حاصل کرلیا۔ راجہ داہر بنیادی طور پرچونکہ راجپوت سپوت تھا اور
راجپوتانہ پورے برصغیر میں پھیلا ہوا تھا۔آج اکیسویں صدی میں راجہ داہر کی
نسل میں سے ایک اور راجہ داہر فتو خاں کی صورت پیدا ہوا۔فتوخاں نے اپنے
آباﺅ اجداد کی روایات کو دہرایا اور 31 دسمبر 2014 ءکو ایک سر سبز و شاداب
شہر پر لشکر کشی کی اور قابض ہو گیا اور شہر کا نیا نام کوہ قاف رکھ دیا
گیا۔فتو خاں نے اپنے اٹھارہ خاص کارندوں کو کوہ قاف کے اٹھارہ مورچوں میں
انچارج مقرر کر دیا اور بندر گڑھ کے ایک میراثی کو بطور ”بدھی مان“ اور چند
سرمایہ داروں کو بطور پنڈت ساتھ رکھ لیاجن میں پنڈت آمرو اعلیٰ رتبے پر
فائز ہوا۔ کوہ قاف کے چند خوشامدی لکھاریوں کو بھی فتو خاں نے دربار میں
جگہ دے دی جو خوشامد کرکے فتو خاں کا دل بہلانے کا کام کرتے تھے۔فتوخاں
انہی پنڈتوں ، خوشامدی ٹولے اور بدھی مان سے صلاح مشورے کے بعد پورے کوہ
قاف کا حکمران ہونے کا اعلان کردیا ۔ فتو خاں کے حکم پر بدھی مان اور
پنڈتوں نے شہر کے تمام ڈاکوﺅں، بھتہ خوروں،جواریوں ، منشیات فروشوںاور
دلالوں کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے کوہ قاف کا نیا آئین پیش کیا جس کے
مطابق فتو خاں سلطنت کوہ قاف کا ملک تھااور 50 فیصد حصہ دینے کی صورت میں
ہی دھندا کرنےکی اجازت مل سکتی تھی۔ تمام ڈاکوﺅں، بھتہ خوروں،جواریوں ،
منشیات فروشوںاور دلالوں نے بخوشی آئین کوہ قاف منظورکرلیا کیونکہ یہ کوئی
نقصان کا سودا نہیں تھا بلکہ اس کے بدلے انہیں کھل عام اپنی سرگرمیاں جاری
رکھنے کا شاہی لائسنس ملنا تھا ۔ بدھی مان اور پنڈتوں نے فتو خاں کو بتایا
کہ تمام جرائم پیشہ عناصر حصہ داری کرنے پر آمادہ ہیں جس کے بعد انہیں فتو
خاں نے شاہی لائسنس جاری کردئیے ۔ لائسنس حاصل کرنے کے بعد پیشہ ور
قاتلوں،ڈاکوﺅں، بھتہ خوروں،جواریوں ، منشیات فروشوںاور دلالوں ودیگر جرائم
پیشہ افراد کی خوشی دیدنی تھی ان کے کاروبار شاہی لائسنس کی بدولت دن دگنی
رات چوگنی ترقی کرنے لگے جس کے باعث تمام لائسنس ہولڈرز فتو خاں کو بروقت
حصہ پہنچانے لگے۔جس کے بعد کوہ قاف میں لوٹ مار، قتل غارت گری اور
لاقانونیت کا آغاز ہوا۔ جب کوہ قاف میں خونریزی اور لوٹ مار اپنے عروج پر
پہنچ گئی تو کوہ قاف کے باسیوں نے فتو خاں کےخلاف سر اٹھانا شروع کیا ۔ جس
کے بعد فتوخاں نے فوراََ اپنے وزیر بدھی مان، پنڈتوں، خوشامدی ٹولے اور
اٹھارہ مورچہ انچارجزکو دربار میں بلوا کر کہا کہ کوہ قاف کے لوگوں نے میرے
خلاف بغاوت شروع کردی ہے چنانچہ کسی بھی طرح اس بغاوت کو ناکام بنایا جائے۔
جس پر بدھی مان اور پنڈتوں نے کوہ قاف کے شاہی لائسنس ہولڈرز کو بلوا کر
ٹاسک دیا کہ فتو خاں کےخلاف سر اٹھانے والے لوگوں کی بغاوت کو ناکام بنانے
کےلئے اپنے کارندے پورے کوہ قاف میں پھیلا دئیے جائیں اور کوہ قاف کے ہر
کونے میں فتوخاں کی سلطنت کے حق میں پوسٹرز آویزاں کیے جائیں اور مجمعے کیے
جائیں دوسری جانب فتو خاں کے پالتو اٹھارہ مورچوں کے نگران بھی متحرک تھے
اور جو فتو خاں کے خلاف بولنے کی جرات کرتا نظر آتا فوری اسے اٹھا کر قید
خانے میں ڈال دیا جاتا اور دہشت گرد و غدار قراردے دیا جاتا ۔ان اقدامات کے
باعث لوگوں کا غم و غصہ بڑھتا گیا اور لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی تو
فتو خاں نے اپنے لشکر کو قتل عام کا حکم دے دیا جس کے بعد کوہ قاف میں قتل
و غارت گری کے سیاہ ترین دور کا آغاز ہوا۔ فتوخاں کے لشکر اور حواریوں نے
ان گنت معصوم شہریوں کو سرعام قتل کردیا ۔ اسی طرح فتو خاں نے ایک سو پندرہ
سے زائدگھروں کے چراغ بجھا دئیے ۔ جن کی مزید تفصیلات راقم جون 2017 ءمیں
شائع ہونیوالی کتاب میں درج ہونگی۔راجہ داہر خاندان کا سپوت ہونے کے باعث
فتوخاں بھی اپنے خاندانی آقا راجہ داہر کی طرح رنگین مزاج تھا چنانچہ اس نے
اپنے خاص پنڈت آمروکو اپنی رنگین مزاجی اور عیاش طبیعت کے بارے بتایا اور
انتظام کروانے کی بھی فرمائش کی۔پنڈت آمرونے ایک شاندار محل نما کوٹھا تیار
کروایا جس کی خوب تزئین و آرائش کروائی گئی اور کوٹھے میں ایک شاندار کمرہ
تیار کروایا گیا جس کو عطر گلاب سے دھویا گیا اور پھولوں کی پتیوں سے سجا
کر ریشمی ململ کا بستر لگایا گیااور بستر پر گلاب اور کلیاں بکھیر دیں گئیں
اور اعلیٰ اقسام کی شراب کے ساتھ ساتھ ہلکے میوزک کا اہتمام بھی کیا گیا۔اس
کے بعد خوبصورت دہکتی پھل جھڑیوں کو بلوا کر فتوخاں کو مدعو کیا گیا اور
پھل جھڑیاں فتو خاں کی خدمت میں پیش کر دی گئیں ۔ فتوخاںشراب اور پھل
جھڑیوں کے نشہ میں ایسا مگن ہوا کہ کئی روز وہیں گزر گئے ۔اور یہ سلسلہ آخر
تک قائم رہا اس سلسلہ میں موجودہ دور کی شاہ سواری کالے شیشوں والی بگھی کا
بھی تذکرہ ملتا ہے جسے انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ فتو خاں نے شاہی خزانے سے
بھی کروڑوں روپے انہی پھل جھڑیوں اور پنڈت آمروپر لٹا دئیے۔ جب شاہی خزانہ
خالی ہونے کے قریب پہنچا تو فتو خاں نے بدھی مان اور تمام پنڈتوں و مورچہ
انچارجز کو دربار میں بلایا اور کھل عام لوٹ مار کا ٹاسک دیا جس کے بعد شہر
کے اٹھارہ مورچوں کو ڈاکوﺅں ، منشیات فروشوں، جواریوں، دلالوں اور بھتہ
خوروں کا سیل قرار دیدیا گیا اور ڈاکو سر عام لوٹ مار کرنے کے بعد انہی
مورچوں میں پہنچ کر مال غنیمت فتو خاں کے کارندوں کے حوالے کرنے لگے، انہی
مورچوں سے منشیات اور لڑکیوں کی سپلائی ہونے لگی ۔ بآخر فتو خاں نے اربوں
روپے اکٹھے کرلیے ۔اس دوران جس کسی نے بھی فتوخاں کےخلاف آواز بلند کی اسے
سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا متعدد کو فتوخاں نے قید خانے میں ڈال دیا
اورمختلف طریقوں سے ٹارچر کیاگیا اور چند تاحال قید خانے میں قید ہیں۔ اس
کے باوجود چند با ضمیر لوگوں نے مسلسل فتو خاں کےخلاف آواز حق بلند کیے
رکھی ۔ ان تمام واقعات کا تفصیلی تذکرہ راقم کی جون 2017 ءمیں شائع ہونے
والی کتاب میں درج ہو گا- |
|