ملک بھرمیں خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا۔افسوس
ناک امر ہے کہ اس دن کی مناسبت سے ہونے والے تمام پروگرامز،ٹاک شوز اور
سیمینارز میں حسب سابق خواتین کے حقوق کی آڑ میں اسلام پر تنقید اوریہ باور
کرانے کی کوشش کی گئی کہ خواتین کو حقوق تو مغرب نے دیے ہیں ،اسلام نے عورت
کو کیا دیا ہے؟
’’مشرق سے محاسبہ اور مغرب سے درگزر ‘‘کے اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل
ہوناچاہیے۔محترمہ فرزانہ باری ہوں یا عاصمہ جہانگیر ،محترمہ ماروی سرمد ہوں
یا مہ ناز رحمن،آپ شوق سے خواتین کے حقوق کی جدو جہد کیجیے،مگر اس کی آڑ
میں ہر ناکردہ جرم کا الزام اسلام اور اہل اسلام کو تو نہ دیجیے۔خواتین
حقوق کی جدو جہد میں مسلم معاشرہ آپ کے لیے سد راہ نہیں دست وبازو بنے
گا،شرط یہ ہے کہ زن کو نا زن بناکر اس کی نسوانیت چھیننے اور اسے شرم وحیا
کے زیور سے محروم کرنے کی کوشش نہ کیجیے!
وطن عزیزکی ماں،بہن، بیٹی کوسمجھ لیناچاہیے کہ اسے حقوق مغرب ویورپ کی
اندھی تقلید سے نہیں ،بلکہ اسلام کے عادلانہ نظام ہی سے ملیں گے۔آج آپ کو
جو مقام ملا ہوا ہے وہ اسلام ہی کی دین ہے،ورنہ پہلے عورت کے بارے میں جو
نظریات تھے وہ اس سے کہیں مختلف تھے ،ملاحظہ فرمائیے!
چھٹی صدی میں رومیوں کا نظریہ تھا کہ عورت شرانگیز روح ہے۔اسپین کے لوگ کہا
کرتے تھے :بری عورت سے بچو اور اچھی عورت کی طرف مائل نہ ہوا کرو۔تحریف شدہ
تورات میں اب بھی ایسے جملے ملتے ہیں:عورت موت سے بھی زیادہ تلخ ہے۔عوت سے
بچنے والا ہی اﷲ کی نظر میں برگزیدہ ہے۔جرمن معاشرے میں عورت کے حصول علم
پر پابندی تھی ۔زمانہ جاہلیت میں عورت کوکوئی مقام حاصل نہیں تھا،اس دور
میں بیٹی کی پیدائش کو عار سمجھااور نومولود بچی کو زندہ درگور کردیا جاتا
تھا،غرض اس معاشرے میں عورت کی عزت وتکریم کا کوئی تصور بھی نہیں پایا
جاتاتھا۔اسلام واحد مذہب ہے جس میں عورت، جس کو پاؤں کی جوتی جتنی حیثیت
بھی حاصل نہ تھی، کو عزت واحترام کی معراج پر فائزکر کے بلندی رتبہ کے اوج
ثریاکاہم نشیں بنایاگیا۔اسلام ہی وہ دین ہے جس نے پہلی مرتبہ عورت کو اپنی
ذاتی ملکیت ،اپنی شادی کا فیصلہ اپنی آزادانہ مرضی سے کرنے کا حق، اپنی
ذاتی جائیداد رکھنے اور کاروبار کرنے کا حق، وراثت کا حق اور اپنے دائرے
میں رہتے ہوئے ، مردوں کے شانہ بشانہ ، زندگی کے نشیب وفراز میں اپنا بھر
پور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ۔اگرآج معاشرے میں کہیں عورت کواس
کاشرعی حق نہیں مل رہاہے،توقصوراسلام کانہیں۔
غیر جانب دارای سے تجزیہ کیجیے ،آپ کو معلوم ہوگا کہ خواتین کے حقوق سب سے
زیادہ مغرب اور یورپ میں پامال ہورہے ہیں۔ حقوق نسواں کے دعویدار ہی ان کا
استحصال کررہے ہیں۔مغربی معاشرے نے اپنی بے لگام شہوت کی تسکین کی خاطر
عورت کو گھر کی محفوظ چار دیواری سے آزادی کے نام پر باہر نکالا۔وہ جو گھر
میں شرافت کا مجسمہ بنکر احترام وتوقیر کی علامت تھی،اس سے اس کی نسوانیت
جیسی متاع بے بہا چھین کر ہوسناک شہوانی نگاہوں کا شکار بنادیا ،اسے عزت
وشرافت اور عفت وحیا کے ساتھ والدین ، اولاد، بھائی بہن اور شوہر کی خدمت
سے باغی بناکر اجنبی مردوں کی خدمت پر مامور کردیا ۔ ہسپتالوں میں نرس اور
تیماردار کے نام سے بھرتی کرکے مریضوں سے زیادہ ڈاکٹر وں کے نخرے برداشت
کرنے اور ان کی آبھگت کرنے کی ذمہ داری اس پر ڈال دی ۔ ائیر ہوسٹس کی حیثیت
سے اجنبی مسافروں کے سامنے جسم کی نمائش پر مجبور کردیا ۔ آج حقوق نسواں
اورمساوات کی آڑمیں مغربی عورت کی شرم وحیا اور عفت وعصمت سربازار نیلام
ہورہی ہے ۔انجام کارمغرب میں خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے،ناجائزبچوں
اورکنواری ماں کی تعداد آئے روز بڑھ رہی ہے،جس کی وجہ سے خودکشیاں اور
طلاقیں بڑھ رہی ہیں۔
اس کے بالمقابل الحمدﷲ !تمام ترانحطاط وتنزل کے باوجوداب بھی ہمارے گھر
اسلام کے مورچے ہیں اور ہمارا دشمن اسلام کے ان مورچوں کو تباہ کرنا چاہتا
ہے۔''ہم توڈوبے ہیں صنم،تم کوبھی لے ڈوبیں گے''کے مصداق مغرب ویورپ کے
وظیفہ خور چاہتے ہیں کہ مشرقی معاشرے کابھی وہی حال ہواورہمارامعاشرہ
اورخاندانی نظام بھی اسی طرح کی شکست وریخت کاشکارہو۔اس نوع کی کوششیں آج
سے نہیں،روزاول سے ہورہی ہیں،مگراب یہ برگ وباراس لیے لارہی ہیں کہ ہم نے
خواتین اسلام کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ نہیں کی ۔ ہم نے انہیں اسلامی
تعلیمات سے روشناس کرانے میں تغافل برتا ،جس سے دشمنان اسلام نے بھر پور
فائدہ اٹھا یا۔عورت انسانی معاشرہ کے نصف سے زیادہ حصہ پر محیط ہے بلکہ
مستقبل میں ایسے دور کی نشاندہی تعلیمات نبوی علیٰ صاحبہاالصلو والسلام میں
موجود ہے جب مرد وعورت کی تعداد ایک اور چالیس کی نسبت سے ہوگی، پھر عورت
کو اپنی جنس مخالف پر اثر انداز ہونے اور اپنی بات منوانے کی فطرت نے جو
صلاحیت دی ہے،اسلام دشمن عناصر نے اس راز کو سمجھ کر ''نسوانی قوت''کا بہت
ظالمانہ استعمال کیا ہے ۔ خواتین کو اسلام کے بالمقابل لا کھڑا کردیا گیا
ہے ۔
مانا کہ وطن عزیز میں عورت کو اس کے حقوق حاصل نہیں ،لیکن اس کی راہ میں
رکاوٹ اسلام اور علمائے کرام نہیں،وہ لوگ ہیں جو سماجی جکڑ بندیوں کی وجہ
سے عورت سے تعلیم کا حق چھین رہے ہیں،عورت کو ملازمت اور باعزت روزگار کے
مواقع فراہم کرنے سے اسلام نے نہیں روکا بلکہ اس کی راہ میں وہ جاگیردار
طبقہ حائل ہے جو عورت کو محض جنسی تسکین کا ذریعہ یا دوسرے درجے کے شہری سے
زیادہ کوئی مقام دینے کے لیے تیار نہیں،عورت پر تشدد اسلام کی تعلیم نہیں
اسلام نے اس کی حوصلہ شکنی کی ہے،عورت کو ونی کرنے یا غیرت کے نام پر قتل
کرنے والوں کی چھان بین کرلیجیے،آپ کو ان میں بھی کوئی اسلام پر عمل کرنے
والا نظر نہیں آئے گا۔اسلام تو عورت کے احترام کا درس دیتا ہے چاہے وہ مشرک
کی بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔اسلام حالت جنگ میں بھی عورت کے قتل سے روکتا
ہے۔اسلام غیر مسلم عورت کو قید میں بھی وہ تقدس فراہم کرتا ہے جس سے متاثر
ہوگر ایوان ریڈلے جیسی تعلیم یافتہ خواتین بھی اسلام قبول کرنے پر بہ رضا
ورغبت راضی ہو جاتی ہیں۔ |