گرگٹ حیران ہیں کہ اُن جیسے بھی انسان ہیں

ضلع ترقیاتی بورڈ میٹنگ

’’اس وطن میں کے گرگٹ حیران و پریشان ہیں کہ اُن جیسے بھی انسان ہیں ‘‘جو کرسیوں پر براجمان ہیں اور عوام پر اس قدر مہربان ہے کہ آنکھوں سے نیند جانے کا نام نہیں لیتی۔جی ہاں !عوام کو یہ گمان ہے کہ یہ اُن کے ہمدرد لیڈران ہیں، عوام دوست آفیسران ہیں، لیکن شومئی قسمت خدمت ِ خلق کے تئیں بد گمان ہیں ، وا ہ کیا شان ہے، آنکھوں میں نیند اور ہونٹوں پر بددیانتی کی مسکان ہے، عوام پریشان ہے کہ یہ یہی تو تباہی کا سامان ہے ۔جب عوام کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے اپنے،سرداروں،سرکاری افسروں،سیاسی رہنماؤں،حکومت اور حکمرانوں کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ اور پھر جس کی کوئی ادا،کوئی بات دل کو بہاجائے اسے اپنا اپنا ہیرو مان لیتے ہیں۔یوں تو ہمارا اجتماعی شعور کبھی تھا ہی نہیں جس کی بدولت ہم کسی لیڈر یا کسی آفیسرسے اپنی مانگیں پوری کروا سکیں ،ہم تو سب ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے میں مصروف رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہتے کہ ہم پر ایسے لیڈران و آفیسران مسلط ہو جاتے ہیں جو مکمل طور سے ہماری سوچ اور نیت سے میل کھاتے ہیں۔ ہمارا ذہن ، ہماری سوچ کا ریموٹ کنٹرول ایسے ہی حکمرانوں کے ہاتھ میں جاتاہے جو ہمیں جہاں چاہیں گھما سکتے ہیں ۔ایک بہترین لیڈر شب کا انتخاب کبھی ہمارا مقدر ہو ہی نہیں سکا کیونکہ ہماری اشرافیہ، ہمارا بااثر طبقہ انتہائی بے ضمیر، دھوکے باز،کم ظرف، سطحی شخصیت کا مالک اور اپنے اقتدار یا اثر و رسوخ کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار رہتا ہے۔’’اور مرے پہ سو درے‘اس سارے تماشے سے کچھ قوم فروش اور ابن الوقت لوگوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور بغیر کسی جھجھک کے اپنی ابن الوقتی اور ضمیر فروشی کو نہائت بالا نرخوں پہ فروخت کیا۔ اس کی ایک تازہ مثال ضلع ترقیاتی بورڈ میٹنگ ضلع رام بن سے مل جاتی ہے جہاں بورڈ میٹنگ کے دوران اکثر لیڈر و آفیسر صاحب نیند کرتے دکھائی دیئے۔حد تو یہ ہے کہ بورڈ میٹنگ کی صدارت کرنے والے منسٹر صاحب نے بھی میٹنگ کے دوران نیند کے مزے لئے۔ گہری نیند میں مست ان لیڈر احضرات و آفیسران کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شائد یہ لوگ ضلع رام بن کی تعمیر و ترقی کے خواب دیکھنے کی مشق کر رہے تھے۔ ایسے لیڈر، ایسے آفیسر جو عوامی مشکلات کا ازالہ کرنے کے بجائے نیند کے خراٹے ماریں تو اُس قوم کیا حال کیا ہو گا جس قوم پر ایسے حکمران اور آفیسران مسلط ہو ں۔جس قوم کے آفیسرو لیڈر اس قدر غافل ہوں وہ کتنی ترقی کر سکتے ہیں۔سرکاری آفیسران و حکمرانوں کی عوام کے تئیں بے رخی ، لا پرواہی بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ کیونکہ تنزل ہماری اشرافیہ پہ طاری ہے اس لئے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ عام آدمی کیونکر اپنے مستقبل سے مایوس ہے۔ مگر اس کے باوجود اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کیلئے بجائے کچھ مثبت قدم اٹھانے کے بجائے یا ایسے لیڈران و آفیسران کیخلاف آواز اٹھانے کے بجائے ہم لوگ خود اسی تنزلی میں شامل ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب عوام گونگی ہوجائے ، حکمران غافل ہو جائیں تو معاشرے میں ہر طرف لاقانونیت،بد عنوانی، بے ایمانی،بد دیانتی،بد نظمی اور افراتفری نظر آتی ہے۔

عام آدمی میں اجتماعی شعور کی تربیت کرنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک اشرافیہ یعنی بااثر طبقہ سماجی و سیاسی رہنماء اپنے انداز نہیں بدلتے اور بد قسمتی سے تب تک کسی علاقہ یا کسی قوم کا مجموعی رویہ بدلنا اور اجتماعی شعور کا فروغ پانابغیر کسی معجزے کے ممکن نظر نہیں آتا۔ اگر عام عوام کو اس بات کا ادراک دلانا مقصود ہے کہ وہ ایک باعزت قوم ہیں اور انھیں ایک اجتماعی شعور بخشنا ہے تاکہ وہ ایک قومی اخلاق اپنا کر اپنے علاقہ کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ غافل حکمرانوں اور آفیسران کو بیدار ہونا پڑے گا، لاکھوں کی سرکاری رقم بطور ِ تنخواہیں ہڑپنے کو قوم کی خدمت نہ سمجھیں بلکہ انہیں جس کام کیلئے یہ تنخواہیں دی جاتی ہیں اُسے اپنے اُوپر حلال کرنے کی سعی کریں ۔قابل غور بات ہے کہ جب کوئی نئی سرکاری اقتدا رمیں آتی ہے تو وہ اپنے طورطریقے سے نظام چلانے کا عمل جاری کرتی ہے ۔ یوں تو ہر سر کارکا یہ مشن ہوتا ہے کہ کس طرح سے عوام کو سہولیات فراہم کی جا سکیں اور کس طرح سے عوامی مشکلات کا ازالہ کیا جا سکے اسی سلسلے کی کڑی میں موجودہ سرکار میں ضلع ترقیاتی بورڈ میٹنگوں کا اہتمام گزشتہ کئی ماہ سے ریاست کے الگ الگ اضلا ع میں انجام پا رہی ہیں جہاں لوگوں کے مسائل کا ازالہ کرنے کیلئے حکمران و آفیسران مل بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ خیر یہ ایک اچھا اقدام ہے کیونکہ ہر کام کو بہتر ڈھنگ سے انجام دینے کیلئے مشورہ اچھی بات ہے ، تبادلہ خیال کرنا ایک بہترین عمل ہے لیکن ضلع رام بن میں بورڈ میٹنگ کے دوران حکمرانوں اور آفیسران کے درمیان عوامی مسائل کو لیکر تبادلیہ خیال تو نہیں ہوا بلکہ نیند کا مقابلہ ضرور ہو ا۔کرسیوں پر بیٹھے جہا ں عوام مسائل پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے تھا وہاں آفیسران اور لیڈران منہ لٹکائے نیند کرتے دکھائی دئے۔دوران میٹنگ نیند کر رہے اکثر آفیسران گویا یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ آنے والے وقت میں میٹنگ حال میں کرسیوں کے بجائے بیڈوں کا اہتمام کیا جا نا چاہیے ۔ایسے میں ضروری تھا کہ نااہلی ،بدنیتی اور بد عنوانی کا حساب نہ لیا جائے ۔ایسا تو سرکار کر سکتی تھی لیکن سرکار میں شامل وزراء جب خود خواب غفلت میں منہ لٹکائے نیند کے خراٹے ما ررہے ہوں تو آفیسران کو ہدایت کو ن کرے گا؟؟میرے خیال سے ایسا کرنا تو دراصل دنیا کی بدترین، ایک نمبر کے بدعنوان آفیسران کو تحفظ فراہم کرنے جیسا ہے۔اسلئے یہ از بس ضروری ہے کہ بد نیتی،بدیانتی اور بد عنوانی ختم کرنے کی کوشش تب تک کامیاب نہیں ہوسکتی اور بورڈ میٹنگوں کا مقصد تب تک فوت ہو تا جائیگا جب تک نہ سرکار میں شامل وزراء خود سنجیدہ نہ ہوں ورنہ ایسی ہر مہم ناکام ہو جائے گی اوربدیانت غفلت کا شکار رہیں گے۔

MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 33390 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More