مارچ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے پیدل مارچ ۔(حفیظ خٹک)
(Hafeez khattak, Karachi)
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے لکی مروت کے ہختونوں نے پشاور تک پیدل مارچ کا اعلان کیا اور اس وقت یہ مارچ کوہاٹ پہنچ گیا ہے اسی حوالے سے پوچھتے ہوئے یہ تحریر مرتب کی گئی |
|
|
مارچ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے پیدل مارچ ۔(حفیظ خٹک) |
|
2017کے ماہ مارچ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی
باعزت رہائی اور اس کے بعد امریکہ سے پاکستان آمد کا مارچ بنانے کیلئے
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ، ان کی والدہ محترمہ عصمت صدیقی اور بچوں احمد و مریم
سمیت وطن عزیز کا ہر شہری اپنے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے ۔ انہیں اس بات کا
یقین ہے کہ ان کی کاوشیں کامیاب ہونگی اور وہ دن اسی ماہ میں ہی آئیگا جب
امریکہ ڈاکٹر عافیہ کی باعزت رہائی کا اعلان کرے گا۔
لکی مروت صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ڈیرہ اسمعیل خان اور بنوں کے درمیان
واقع ہے اور اسی چھوٹے سے شہر میں بھی پورے اور صوبے سمیت قوم کی بیٹی
کیلئے کی باعزت رہائی کیلئے جدوجہد جاری ہے ۔ تاہم ان کی حالیہ
جدوجہدموجودہ صورتحال میں اپنے انداز کی منفرد کوششیں ہیں ۔ شہر قائد میں
خواتین رضاکاروں نے کراچی پریس کلب پر 86روز تک علامتی بھوک ہڑتال کرکے
وزیراعظم کو ان کے وعدے یاد دلانے کی کوشش کی تاہم وزیر اعظم کو کچھ یاد
نہیں آیا کہ انہوں نے سندھ گورنر ہاؤس میں قوم کی بیٹی کی ماں اور بچوں سے
جو وعدے کئے تھے ، نجانے کب وہ جاگیں گے اور اور جاگ کر اپنی ذمہ داری پوری
کرینگے؟
ماہ مارچ میں وزیر اعظم کو ان کے وعدوں کی یاد دہانی اور ڈاکٹر عافیہ رہائی
کیلئے فوری قدم اٹھانے کیلئے لکی مروت کے غیرت مند پختونوں نے اپنی روایات
کے مطابق اعلا ن کردیا کہ وہ لکی مروت سے پشاور تک پیدل مارچ کریں گے ۔
7مارچ کی صبح انعام اللہ مروت اور انور خان کی قیادت میں 300سے زائد بچوں ،
بزرگوں سمیت خواتین نے لکی مروت سے پیدل مارچ کا آغاز کیا ۔ راستے کی
مشکلات اور حفاظتی انتظامات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی پوری
تیاریاں کیں۔ لکی مروت کی پوری عوام نے کئی میل پیدل چل کر ان کے سفر کا
آغاز کیا اور لکی مروت کے حدود کے اختتام پر فی امان اللہ کہا ۔ انعام اللہ
مروت کا اس حوالے سے یہ کہنا تھا کہ انہیں ابتداء سے اب تلک کسی بھی طرح کی
کوئی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا جہاں بھی پہنچے ہیں وہاں پر پرجوش
انداز میں ہمارا استقبال کیا گیا ۔ اکرام کیا گیا ۔ قصبات و چھوٹے گاؤں کے
مکین ہمارے ساتھ پیدل چل کر ہمیں اس بات کا یقین دلاتے رہے کہ جس مقصد
کیلئے ہم نے یہ جدوجہد شروع کی ہے اس میں وہ سب ساتھ ہیں ۔ صبح و شا م اپنی
دعاؤں میں بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے دعائیں کرتے ہیں ۔
پیدل مارچ کے تفصیلات بتاتے ہوئے انور خان کا کہنا تھا کہ نماز فجر کے بعد
قرآن حکیم کی تلاوت اور مطالعے کے بعد ناشتے کا انتظام کیا جاتا ہے اس
کیلئے ہماری پوری تیاری ہوتی ہے تاہم قریب کے علاقہ مکین ہمیں اپنی مہمان
نوازی سے بھرپور انداز میں نوازتے ہیں۔ جس کے بعد ہم پیدل سفر کا آغاز کرتے
ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ سفر کے آغاز میں خواتین اور بچے بھی
تھے تاہم لکی مروت سے نکلنے کے بعد انہیں واپس اپنے گھروں کو روانہ کیا جس
کے بعد اب ہمارے موجودہ قافلے میں خواتین اور بچے نہیں ہیں کئی بزرگوں نے
بھی اس غیر ت پیدل مارچ کا آغاز ہمارے ساتھ کیا لیکن انہیں بھی ہم نے بڑی
منت کے بعد اس پیدل مارچ کے الگ کیا ۔ تاہم اس کے باوجود ان کی دعائیں
ہمارے ساتھ ہیں ۔ قافلے ساتھ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ وں کے رکھوالوں نے بھی
ہمارا ساتھ پیدل مارچ کیا ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے نعرے لگاتے
رہے۔پولیس وین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ لکی مروت میں پولیس کی گاڑی
ہمارے ساتھ رہی تاہم جب ان کے حدود ختم ہوئے تو وہ الگ ہوگئے، اس کے باوجود
ہمیں کسی بھی موقع پر کسی بھی طرح کی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا
کہ جس سے ہمیں تکلیف کا سامنا ہوا ہو۔
انعام اللہ مروت کا کہنا تھا کہ لکی مروت ،سرائے نورنگ، اور بنوں کے بعد
ڈومیل ، لتمبر کے بعد کرک کا آیا جہاں ہمارا استقبال مولانا شاہ عبدلعزیز
نے کیا ۔مولانا شاہ عبدلعزیز کرک کے سب سے بڑے مدرسے کے مہتمم ہیں استقبال
میں کرک کی عوام کے ساتھ مدرسے کے سینکڑوں طلبہ بھی شامل تھے انہوں نے بھی
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے پرجوش تقریر کی ، طلبہ و عوام نے نعرے
لگائے اس کے بعد ہماری ضیافت کی گئی جس بعد ہم نے وہاں سے اپنے مارچ کا
آغاز کیا تو مولانا صاحب اپنے طلبہ اور دیگر عوام کے ساتھ 3کلومیٹر تک
ہمارے ساتھ پیدل چلے۔ اس کے بعد دعاؤں میں ہمیں رخصت کیا۔ ضلع کرک میں ہمیں
ہر طرح کی سہولت فراہم کی گئی ،پولیس موبائل کے ساتھ عوام کی بڑی تعداد
ہمارے ساتھ کرک کی حدود تک چلتے رہے ۔
انور خان کا کہنا تھا کہ دوران پیدل مارچ میں جونہی اذان عصر ہوتی ہم وہیں
پر رک جاتے اور اس کے بعد نماز عصر کا اہتمام کرتے اور پھر رات وہیں پر
گذارتے ۔ کرک کے بعد اگلی عارضی لاچی تھی اور اس کے بعد خوبصورت شہر کوہاٹ
۔ان نے کہا کہ سیاسی ، مذہبی ، سماجی جماعتوں سمیت پاک فوج کے ریٹائرڈ
ملازمین سبھی ہمارے ساتھ تھے اور سبھی یہ چاہتے تھے کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کو پختونوں کی اس عظیم روایتوں کے مدنظر رکھتے ہوئے باعزت
رہائی فراہم کی جائے ۔ انہوں نے (ر) کرنل محمد سہیل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا
کہ انہوں نے اپنی جوش و خروش کا پھر بور مظاہرہ کیا اور کہا کہ وہ عافیہ کی
رہائی کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا
کہ وہ پشاور تو کیا اسلام آباد اور اس سے بھی آگے جانے کیلئے تیار ہیں ،
اور یہ سب صرف قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے ہے۔
علاقے کے بچوں کو بھی ان کے والدین استقبال کیلئے لے آتے رہے ، انہی بچوں
میں ایک بچہ داکٹر عافیہ صدیقی کے لاپتہ بچے سلمان کی طرح لگا ۔ اس بچے کی
عمر بھی 7ماہ تھی اسے دیکھ کر ہمارے قافلے کے سبھی ساتھی جذباتی ہوئے اور
اس وقت اس لاپتہ بچے کی بازیابی کیلئے خصوصی دعائیں کی گئیں۔
7مارچ کو لکی مروت سے شروع ہونے والا یہ پیدل مارچ 12مارچ کو پشاور پہنچ کر
اختتام پذیر ہوگا ۔ روز اول سے اب تک ہزاروں روپے کے اخراجات ہوئے جو کہ
انہوں نے اپنے طور پر کئے۔ ان اخراجات کو ایک جانب رکھتے ہوئے پیدل مارچ
کرنے والا ہر فرد صرف ایک خواہش اور ایک عزم کیلئے میلوں کا سفر کر رہے ہیں
ان کا یہ مطالبہ ہے کہ 2017کا یہ مارچ ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا
مارچ ہونا چاہئے اور ان کی رہائی کیلئے وزیر اعظم اپنی ذمہ داری پوری کریں
اور امریکہ سے ان کی باعزت واپسی کو یقینی بنائیں ۔ |
|