مشکلات اوراس کاحل

آج کسی بھی ٹی وی چینل یاکسی اخبارکودیکھ لیں توہمیں ہر جگہ دم توڑتی ہوئی انسانیت کے روح فرسامناظر دیکھنے اورپڑھنے کوملتے ہیں۔زندگی جوکہ بہت مختصر ہے بے شمارمسائل کاشکارہوچکی ہے ۔ان مسائل کاحل تودرکناراب تویہ دعویٰ بھی نہیں کیاجاسکتاکہ ان مسائل حیات کوگناجا سکتا ہے ۔روٹی کپڑے مکان کامسئلہ، تعلیم کامسئلہ، جنگ وامن کامسئلہ،انفرادی واجتماعی ،معاشی و معاشرتی ،ذہنی ونفسیاتی،خانگی وتمدنی،تہذیبی ومذہبی،فکری وجذباتی،قومی وبین الاقوامی،شعوری ولاشعوری مسائل اورپھرہرمسئلے کے شاخ درشاخ اجزاءان تمام مسائل کے دیوپیکرلامتناہی جال نے ہماری زندگی کی زمین وآسمان کوجکڑرکھاہے بلکہ اب تو ہلنے کی بھی تاب نہیں۔

اب ایک طرف توان مسائل نے زندگی پریورش کرڈالی ہے ،دوسری طرف حوصلہ فرسامناظرکہ ان میں کسی بھی ایک مسئلہ کاکامیاب حل آدمی کی خودساختہ تدابیرکے ہاتھوں انجام نہیں پاسکا،جوتدبیرعمل میں لائی گئی اس کوناکامی کامنہ دیکھناپڑا،جودوااستعمال کی اس کاالٹا ردعمل ہوا۔اب توہزاروں تدابیر کی ناکامیاں بھی ان گنت مسائل کے ڈھیر میں اضافہ کاموجب بن چکی ہیں اوران مصائب کی لاشوں کے درمیان سے مسائل سراٹھاکرآدمی کاپھر سے تعاقب شروع کردیتے ہیںاورآدمی ان مسائل کی طرف خوف مایوسی اور اضطراب وکرب کے ناگفتہ بہ عالم میں آنکھیں پھاڑپھاڑکر دیکھ رہاہے،کبھی گھبراکرآنکھیں بندکرلیتاہے ،کبھی ڈرتے ڈرتے قدم اٹھاتابھی ہے مگرجلدان سے پیٹھ پھیرکر بھاگ اٹھتاہے لیکن مسائل زندگی کے اس ہجوم سے اس کو برائے نام بھی نجات نہیں ملتی کیونکہ زندگی کے یہ عملی مسائل زندگی کے ایسے ٹھوس مسائل بن گئے ہیں کہ آدمی ان سے جتنادور بھاگتاہے یہ اتنے قریب آجاتے ہیں۔یہ جب ا ن سے راہِ فراراختیارکرناچاہتا ہے مسائل اس کا دامن پکڑکرتمام راستے مسدودکر دیتے ہیں۔اگریہ خاموش ہوتاہے تویہ اس کوآوازدیکراپنے وجودکااحساس دلاتے ہیں ۔اگرانسان چیخنے لگتاہے تومسائل خاموش تماشائیوں کے ہجوم کی شکل اختیارکرلیتے ہیں،انسان اگر سوتاہے تو پریشان خوابوں کے آسیبی حملوں کی شکل میں مسائل کادیوسوارہوجاتاہے۔بیداری کی شکل میں اپناہی منہ نوچ لینے کی ترغیب ذہن میں سوار رہتی ہے۔اگران مسائل پرقہقہہ مارناچاہے تومسائل کی آہ وزاری میں اس کی آوازدب کررہ جاتی ہے۔اگرروناچاہے تومسائل انسان کی بزدلی پر قہقہے لگاتے ہیں یعنی کہیں اورکسی طرح بھی وہ ان مسائل کی زد سے باہر نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

آخران مسائل سے نجات کاکوئی راستہ بھی ہے؟ایک ہی طریقہ ہے اوروہ یہ کہ ان کوواقعی حل کیاجائے۔ان کوبھلایایاٹالانہیں جاسکتا،ان کوگھٹانے اور ہٹانے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔مسائل زندگی کے ساتھ شروع تو ہوتے ہیں لیکن زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہوتے بلکہ زندگی کے بعد یہ آدمی اپنے مسائل کابوجھ اپنے لواحقین کیلئے چھوڑجاتاہے اورکچھ مسائل کی جوابدہی کاگراں بوجھ اپنے سرپرلئے دوسری دنیا میں داخل ہوجاتاہے جہاں سے وہ اپنی خبر کو بھی پہنچانے سے قاصرہے اورنہ ہی کسی دوسرے شخص کی ہمت ہے کہ اس کی معمولی سی بھی مدد کرسکے۔ ان مسائل کے شورنے انسانی زندگی کو گوشۂ محشربناکررکھ دیا ہے۔جہاں خاندانی نظام ٹکڑے ٹکڑے ہوچکاہے وہاں معاشرتی نطام پارہ پارہ ہوچکاہے۔جہاں قومی ڈھانچہ بگڑا،وہاں بین الاقوامی زندگی تلپٹ ہورہی ہے۔نظریں سراسیمہ اورکان پھٹے جارہے ہیں۔دل ودماغ سردبگریباں ہیں۔جنسی انارکی قیامت بن چکی ہے۔ عدالتی نظام تماشہ ہوگیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں مجرموں کی پرورش ہورہی ہے،بیویاں شوہروں سے بے وفائی کررہی ہیں اورشوہر بیویوں کی حق تلفی کررہے ہیں اوراولادماں باپ سے نہ صرف گستاخ ہے بلکہ حملہ آورہے۔ پولیس مجرموں کی پشت پناہی کررہی ہے۔عملی ایجادات کی کوکھ سے تباہ کاریاں جنم لے رہی ہیں،روحانی سکون کاتصورتک محال ہوچکا ہے ۔ جسمانی کھنڈروں میں بیماریوں اوروباؤں کاطوفان برپا ہے اوریہ سب کچھ اس دورمیں ہورہاہے جہاں زندگی کے اسباب ووسائل اپنے نقطہ عروج پر ہیں۔آسمان کے دورافتادہ گوشے بھی آج سائنس کی بدولت منورہوچکے ہیں مگرزندگی زمین کی سیاہ رات میں دربدر ٹھوکریں کھا رہی ہے ۔انسان کے ہاتھ کی تخلیق آج کشش ارضی سے نکل کر کسی اورجہاں میں محوپروازہے لیکن زندگی کوزمین پرچلنادوبھرہوگیا ہے۔ انسانی آلات آج خطرناک امراض کاسینہ چیرکر غیرمرئی جراثیم کوموت کے گھاٹ اتاررہے ہیں لیکن انسان کی زندگی پھربھی گھٹ رہی ہے۔ آخران تمام ناکامیوں کاسبب کیاہے؟یہ جو مسائل کادائرہ کاربڑھتے بڑھتے ہماری زندگیوں کوگہنارہاہے آخراس کی حدکہاں ختم ہوگی؟ان مسائل کانقطہ آغازہے کیا؟

یہ ہیں چندسوالات جوکہ پھرسے آج ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں۔آج فرد اپنے انفرادی مسائل اورقومیں اپنے اجتماعی مسائل کوحل کرنے کیلئے سنجیدگی سے خواہاں ہیں توان کواس زاویے سے اپنی سوچ کاآغازکرناہوگاکہ بنیادکی درستگی ہی پوری عمارت کی درستگی ہے۔جس طرح بیج کے اندرجھانک کر پورے درخت کی گزشتہ وآئندہ تاریخ کابھرپورمطالعہ ممکن ہے،ایٹم کے اندر کائنات کی اصل تصویرکامطالعہ ممکن ہے،اسی طرح ہرشئے اپنی اصل ہی سے چلتی ہے اوراصل ہی کی طرف لوٹتی ہے۔زندگی کی ہرحقیقت ایک گولائی کاسفرہے''کل شئی یرجع الی اصلہ'' ہرشئے جہاں سے شروع ہوئی ہے وہی لوٹ کرآتی ہے۔ توگویامسائل کے نقطہ آغازکاسراغ ان کی انتہااورانجام کاسراغ ہے۔

جب سے انسان نے اپنے مسائل کوخداسے بے نیازہوکرخودحل کرلینے کی ہولناک حماقت کاارتکاب کیاہے،آج تک کسی مسئلے کادائمی حل نہیں کرسکا اور نہ ہی کرسکے گا۔ان تمام مسائل کوحل کرنے کیلئے زندگی کے اس سفر کاازسرنوآغازکرناہوگااوراسی اندازمیں کرناہوگاجیسااس کائنات کے خالق نے بتا رکھا ہے کیونکہ زندگی ایک ایساپیچ وخم سے بھرپورراستہ ہے کہ قدم قدم پرمسائل کے پڑاؤہیں،فکرونظراس سفرکا نقشہ اورخاکہ ہیں اوراخلاصِ نیت اس خاکہ میں رنگ بھرکراس سفرکی منزل تک پہنچانے میں معاون ثابت ہو گی اورمنزل کانام ہے ''ہدائت'' ۔

ہدائت خدانے کسی کے ہاتھ میں نہیں رکھی، یہ وہ تحفہ ہے جوصرف خداکے دستِ خاص سے ہی مل سکتاہے۔ خود خدا کادرہی اس متاع بے بہا کوطلب کرنے کاواحد آستانہ ہے۔اس درکوچھوڑکرہدائت کیلئے آدمی نے جس دروازے پربھی دستک دی ہے اس کوضلالت ہی ملی ہے۔علم جہل اورعقل دیوانگی کی شکل میں اس کے دامن میں آئی ہے۔اسی طرح دولت افلاس اور سامان بے سروسامانی کی شکل میں ڈھل گیاہے ۔ آج کامیابی اورفلاح کاسامان جتناانسان کے پاس موجودہے اتناکبھی نہیں تھالیکن آدمی آج جس قدرکامیابی سے محروم اورتہی دامن ہے اتنا شائد کبھی نہ تھا۔اس کی صرف اورصرف یہی وجہ ہے کہ انسان نے خداسے اپناتعلق یاتومنقطع کرلیاہے یاپھراگرہے تو اس کے یقین کی کمی آ گئی ہے۔یہ ہے وہ اصل چیزجس نے عہدحاضر کو کامیاب سازوسامان کے باوجودمکمل طورپر ناکام کردیاہے۔

اب جب کہ حالات وواقعات نے ثابت کردیاہے کہ آدمی کبھی خودکچھ نہیں کر سکااورجب بھی کچھ ہواہے وہ اس نے خداسے کروایاہے تو پھر کیوں نہ خدا سے تمام مسائل کوحل کرانے کی راہ پکڑی جائے۔اس کیلئے پہلی صورت تو یہ ہے کہ آدمی جوعلم کوعمل کامحتاج سمجھتاہے اورپھر اس عمل کوخداکا درجہ دیکراس کی پرستش شروع کردیتاہے،اس سے تائب ہوکرخداکوروح عمل اوراصل فعال قوت سمجھ کرخداکاپجاری بن جائے۔وہ جان لے کہ جس طرح عمل علم کامحتاج ہے اسی طرح علم بھی اللہ کامحتاج ہے ۔اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے صرف تھوڑی دیرکیلئے اپنی زندگی کے سفرپرہی نگاہ ڈال لے جو زمین پراس کے ظاہرہونے سے قبل کہاں سے شروع ہوا۔رحم مادرسے لیکرپیدائش تک کس کامحتاج تھا، پھرپیدائش سے لیکر لڑکپن اورجوانی تک ماں باپ اوردوسرے وسائل کادستِ نگررہا،کہیں بھی اس نے اپنامسئلہ خودحل نہیں کیابلکہ خداکا ہاتھ ہی اس کے مسائل کوحل کرتارہا۔پھراس مختصرزندگی کے بعد موت کے وقت سے اپنے مٹائے جانے کے مراحل تک پھر خدااوراس کی ہدائت کاقطعی محتاج۔کوئی اس کوبناتاہے تویہ بن جاتاہے،کوئی مٹاتاہے تو اس کی مجال نہیں کہ اس کے حکم کی روگردانی کرسکے۔پھراس کو مٹائے جانے کے بعد بنائے جانے کے باب میں تووہ قطعی طورپرخدا کا محتاج ہوگا۔

پھرکیسایہ ظلم ہے کہ باوجودان تمام حقائق کے کہ وہ شروع میں بھی خدا کی ہدائت کامحتاج،اس کاانجام بھی خداکی ہدائت کامحتاج لیکن رحمِ مادر سے لیکر قبرتک وہ اس خداسے بے نیازہوکرچلناچاہتاہے ۔بس اسی احمقانہ ارادے کی بدولت اس نے دنیامیں تباہی پھیلارکھی ہے اوراب ان تمام مسائل میں ایساالجھاہے کہ اس کوسلجھانے کی کوئی تدبیرکارگر نہیں رہی۔

قرین انصاف تویہ ہے کہ ایسے باغی کیلئے ہدائت کے تمام دروازے بندکر دیئے جائیں لیکن اس کریم رب نے اس محتاج ہستی کیلئے فرشتوں کو زمین پر اتارا، اپنے انبیاء ورسل کاسلسلہ جاری فرماکر ہدائت کے دروازے کھول دیئے اوروعدہ فرمایاکہ اگرتم واپس میرے طرف ہدائت کیلئے رجوع کروگے تو تمہارااستقبال کیاجائے گا۔''والذین جاھدوافیناالنھدینھم سبلنا''یعنی ہماری راہ میں سعی وعمل کروگے،ہم سے ہدائت طلب کروگے تم پرکامیابی کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔قوموں سے وعدہ فرمایا''ان تنصرواللہ ینصر کم'' کہ اگرتم خداکی مدد کروگے توتمہاری مددکی جائے گی۔

یہ ہے دراصل وہ ہدائت جس کے بغیرکوئی بھی فرد مسائل حیات کی صحیح راہ دریافت نہیں کرسکتا، پھرکیوں نہ اس خداسے راہِ ہدائت طلب کی جائے جس کے وعدوں کوہم کئی دفعہ آزماچکے ہیں۔کیوں نہ خداسے مانگنے کا ڈھنگ سیکھیں اورزندگی کی دوعملی سے توبہ کرکے آج ہی اس کے دربار میں جھک جائیں ۔آج جن الفاظ میں ہم اپنے رب کی ہدائت کے طالب ہیں ان میں تبدیلی لائیں،زبان سے نہیں بلکہ اپنے قلب کو اس کی طرف متوجہ کرکے ہدائت کے طالب بنیں۔ہم اپنی حقیقی زندگی سے جوچاہ رہے ہیں وہی دراصل اپنے رب سے مانگ رہے ہیں۔ خدا ہمارے لفظوں کونہیں بلکہ ہمارے قلوب اوراعمال کو دیکھ رہاہے۔ہم اپنے اصل وجودمیں جس چیزکے طلبگارہیں اس کیلئے بے قرار بھی ہیں؟

جس طرح یہ ممکن نہیں کہ بچہ ماں سے روٹی طلب کرے اورماں اس کے ہاتھ میں انگارہ رکھ دے اسی طرح خداجو ماں سے سترگنازیادہ مہربان ہے اس کوکیسے گوارہ ہے کہ بندہ اس سے ہدائت طلب کرے اوروہ اس کو گمراہیوں میں بھٹکنے دے۔بندہ خداسے خشیت مانگے توخدا اسے قساوت دے ،بندہ خداکی یادمانگے تووہ اسے نسیاں میں مبتلاکر دے ،بندہ آخرت کی تڑپ مانگے اوروہ اس کودنیاکی محبت میں ڈال دے۔ بندہ کیفیت سے بھری دنیا داری مانگے اور وہ بے روح دنیاداری میں مبتلاکردے۔بندہ خداسے حق پرستی مانگے اوروہ شخصیت پرستی کی تاریک راہوں پرڈال دے۔گویاہماری مطلوب چیزکانہ ہونااس کاثبوت ہے کہ ہم نے اپنے رب سے مانگاہی نہیں۔ اگرہمیں دودھ خریدنا ہوتوچھلنی لیکر بازارجائیں توپیسے خرچ کرنے کے باوجودہم خالی ہاتھ لوٹیں گے۔ اسی طرح زبان پردعائیہ کلمات جاری ہوں لیکن اصل ہستی کسی اور طرف متوجہ ہوتوگویانہ ہم نے مانگااورنہ ہی ہمیں ملا۔یہ تومالک کائنات کی غیرت کے خلاف ہے کہ بندہ آخرت میں اس کو حسرت کی نظرسے پوچھے کہ اس نے دنیامیں کچھ مانگااوراسے محروم رکھاگیا،یہ توناممکن ہے۔ کائنات کامالک توہرصبح وشام اپنے سارے خزانوں کے ساتھ ہمارے قریب ترین ہوکرآوازدیتاہے:کون ہے جومجھ سے مانگے تاکہ میں اسے دوں۔

تاریخ گواہ ہے اللہ نے ہمیشہ اپنے وعدوں کوپورافرمایا۔انسانی تاریخ توایک کھلی ہوئی کتاب ہے جس کے ہرورق کی ہرسطرمیں خداکے تکمیل وعدہ کے انمٹ ثبوت روزِروشن کی طرح ہمیں ملتے ہیں۔بنی اسرائیل کی بے سروسامانی، پامالی اورشکستہ حالی سے کون واقف نہیں تھا لیکن فرعون کی جابروقاہر حکومت ان کابال بیکانہ کرسکی۔خودفرعون کی لاش کوخشکی پر چندفٹ زمین قبرکیلئے نہ مل سکی۔نمرودنے آگ کاایک مہیب الاؤ جوسیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کیلئے تیارکیاتھا وہاں رب کے وعدوں نے امن و سکون کاگلشن پیدافرمایا۔آج نمروداورنمرودیت کانشان تک نہیں مگر ابراہیم علیہ السلام اور ابراہمیت کی خاک سے سینکڑوں رسالت کے چاندنمودارہو چکے ہیں۔وہ لوگ جن پرکوئی حکومت کرناپسند نہیں کرتاتھا،وہ جب خداکی ہدائت کے ساتھ اٹھے تودنیاکی تہذیب کے کئی ایک باب تحریرکر گئے۔ وہ جن کے قدموں پرظلم و وحشت کی دھول جمی ہوئی تھی،خداکی ہدائت کے بعد جہاں بھی ان کے قدم گئے خوشحالی اورامن اس جگہ کامقدرٹھہرا۔

آئیے!اگرواقعی آپ ان مشکلات سے گلوخلاصی چاہتے ہیں توراہِ ہدائت کیلئے اپنے قلوب کودوبارہ اپنے رب کی تعلیمات سے جوڑیں۔اپنی جبینوں کواسی رب کے سامنے خاکستر آلودہ کریں کہ واقعی ہدائت کے خزانوں کاصرف وہی مالک ہے۔ آج ہی اپنی ذات سے اس نیک کام کاآغازکریں،تاکہ کل کی صبح کاسورج ہماری کامیابی کاگواہ ہواوروہ راستہ ہے کہ پاکستان کو''ریاست مدینہ ثانی''بنائیں اوریہ کام قطعاً مشکل نہیں ۔ دورنہ جائیں ،آپ اسرائیل کی طرف نگاہ اٹھاکردیکھ لیں کہ یہودیوں نے اپنی ناجائزریاست کے قیام کے وقت ہی تحریف شدہ توریت کو ریاست کاآئین قراردیااورآج دنیاکی تمام بڑی طاقتیں اس کی باجگزارہیں،اس دنیاپر٣٨بڑی تجارتی کارپوریشنزکی حکمرانی ہے اور ان تمام کارپوریشنزکی باگ ڈوران کے ہاتھ میں ہے ۔ہمارے پاس قرآن کریم کی روشن تعلیمات موجودہیں جو زندگی کے تمام مسائل کے حل کی کلیدہے لیکن ہم ابھی تک اس کے نفاذکے اعلان سے راہِ فراراختیار کئے ہوئے ہیں، گویا سورج ہماری بغل میں ہے اورہم دنیاکی موم بتیوں سے روشنی کے طالب ہیں۔یادرکھیں!ہم اس وقت تک ان جاری مشکلات کے جان لیواچنگل سے جان نہیں چھڑاسکیں گے جب تک ہم اپنے رب سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے اس کی عطاکردہ معجزاتی ریاست پاکستان میں قرآن کے عملی نفاذ کا اعلان کرکے اسے ''ریاست مدینہ ثانی''کادرجہ نہیں دے دیتے۔ رب کریم سے دعاہے کہ ہمیں ''ہدائت''کی دولت سے مالا مال فرمائے ثم آمین۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 347221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.