مَردوں کا عالمی دن منائے جانے کا مشور ہ سامنے
آگیا ہے، مردوں کو خود یہ دن منانے کا خیال نہیں آیا بلکہ یہ مشورہ ایک
خاتون نے دیا ہے ، خاتون بھی عام نہیں، کینیڈا کی خاتونِ اوّل۔ موصوفہ نے
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے زندگی کے ساتھی کے ساتھ اپنی تصویر
سماجی رابطوں کی ایک ویب سائیٹ پر ڈالی اور ساتھ ہی مشورہ بھی دیا کہ ’’․․․
جو مَرد خواتین کا احترام کرتے ہیں، اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ان
کا بھی عالمی دن منایا جانا چاہیے ․․․‘‘۔ انہوں نے خواتین کو بھی مشورہ دیا
کہ وہ بھی اپنے ساتھی کے ساتھ تصویریں بنوائیں، تاکہ یکساں حقوق کی تحریک
کو فروغ ملے۔ چونکہ مشورہ ایک اہم ملک کی خاتون اول کی طرف سے دیا گیا ہے،
اس لئے امید ہے کہ عالمی دن منانے والی تنظیمیں اس سلسلے میں غور وفکر ضرور
کریں گی۔ اگر غور ہمدردانہ ہوا تو عین ممکن ہے کہ اسی سال سے یہ کام شروع
ہو جائے۔ عالمی دن چونکہ بہت زیادہ ہو چکے ہیں، شاید ہی کچھ دن خالی ہوں جن
میں عالمی دن نہیں منایا جاتا، اس لئے اگر کوئی دن خالی نہ بھی ملا تو کسی
کمزور اور کم اہم ایشو پر منائے جانے والے عالمی دن کے ساتھ اس دن کو بھی
نتھی کیا جاسکتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ متعلقہ کمیٹی کے کسی مرد کااس اہم مسئلے کی طرف دھیان
نہیں گیا، جبکہ بے شمار ایشوز زیر بحث آتے ہونگے، جن کے نتیجے میں ہی اتنے
دن منائے جاتے ہیں، مگر خود کو(یعنی مردوں کو) نظر انداز کردینا یا بھول
جانا عجیب لگتا ہے۔ یا شاید ایام منانے والی کمیٹی یہ قربانی دیتی آرہی ہے۔
مردوں کے دن منانے میں کئی مسائل بھی ہیں، ایک اہم مسئلہ تو صرف اردو بولنے
والوں کو درپیش ہوگا، وہ یہ کہ ’’مردوں‘‘ کا لفظ جہاں بھی لکھا ہوتا ہے، وہ
یا تو اعراب کا محتاج ہے یا پھر سیاق وسباق کا۔ ورنہ اچھے بھلے مَرد بیٹھے
بٹھائے مُردوں کا روپ دھار سکتے ہیں۔ اگر مَرد مُردے بن جائیں تو پھر عالمی
دن کی کہانی بھی تبدیل ہو جائے گی، مشورہ دیا جائے گا کہ مُردوں کا عالمی
دن بھی ہونا چاہیے، یعنی جو لوگ گزر چکے ہیں انہیں بھی ایک روز کے لئے یاد
کیا جائے، تاہم مُردوں میں صرف مَرد ہی شمار نہیں ہوں گے، گزر جانے والی
خواتین کا بھی دن منایا جائے گا، یوں خواتین کو عالمی سطح پر منانے کے لئے
دو دن میسر آجائیں گے۔ اسی طرح بچے بھی زندگی میں اپنا دن مناتے رہے ، اگر
قدرتِ حق سے دنیا سے کوچ کر جائیں گے تو ان کا بھی دوبارہ دن منایا جائے گا۔
مگر ٹھہرئیے، یہ مفروضہ صرف اسی وقت کام آئے گا جب ہم لوگ مَرد کو مُردہ
پڑھیں گے، چونکہ انگریزوں وغیرہ کے ہاں یہ لفظ مستعمل نہیں ہے، اور وہ
اعراب جیسی نفاستوں اور نزاکتوں سے بھی محروم ہیں اس لئے وہ ایسا کوئی دن
نہیں منا سکتے۔
جن محترمہ خاتون نے مَردوں کا عالمی دن منانے کا مشورہ دیا ہے، انہوں نے
ساتھ ہی احتیاطاً کچھ شرائط بھی رکھ دی ہیں، یعنی جو مرد خواتین کا احترام
کرتے ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں۔ گویا اس میں پورے عالم کے تمام
مَرد نہیں، بلکہ صرف وہی شامل ہیں جو مندرجہ بالا خصوصیات کے حامل ہیں۔ اس
سلسلے کا میرٹ خود مرد حضرات نے ہی بنانا ہے کہ آیا وہ خواتین کا احترام
کرتے ہیں، اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، یا نہیں۔ جو یہ کام کرتے ہیں،
وہ یہ دن مناسکتے ہیں اور جو نہیں کرتے، ان کے لئے الگ دن کا بندوبست کیا
جاسکتا ہے۔ اگرمعاملے کو طول دنیا مقصود ہو تو مختلف عادتوں کے مختلف لوگوں
کے مختلف ایام منائے جاسکتے ہیں۔ ا س روز ان کی واک ہو، سیمینارز ہوں،
مضامین لکھے جائیں، اور لوگوں کو بتا دیا جائے کہ آج ’’ہمارا‘‘ دن منایا
جاتا ہے۔ اپنے معاشرے میں ایسے افراد بہت زیادہ نہیں ہیں، جو خواتین کا
صحیح معانوں میں احترام کرتے ہوں، بہت سے نام نہاد احترام کے دعوے دار بھی
عورت کو حقیقی روح کے مطابق عزت نہیں دیتے۔ بہت سے لوگ خواتین کی عزت کرنے
کو مَرد کی توہین قرار دیتے ہیں، اس کے پیچھے خالصتاً جاہلانہ تصورات اور
مائنڈ سیٹ ہی کارفرما ہوتا ہے۔ ایسے ہی جو مرد اپنی بیوی کا خیال رکھتے اور
ان کے معاملات میں فکر مند رہتے ہیں، انہیں اپنے معاشرے میں ’زن مرید‘ کہا
جاتا ہے۔ کچھ بیچارے ایسے بھی ہوتے ہیں جو خواتین کے تشدد کانشانہ بنتے ہیں۔
خیر یہ ایک الگ موضوع ہے، اس لئے ہم بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر قسم کے
مَردوں کا الگ دن منایا جائے ۔
|