کمپیوٹر اور موبائل فون کو جرم قرار دیا جائے

ہمارے معاشرے میں عدلیہ کو انتہائی معتبر سمجھا جاتا ہے اور انصاف فراہم کرنے والے منصفین کو انتہائی عزت اور تکریم کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔ عدل کا نظام کسی بھی معاشرے کی بقا کیلئے بہت ضروری ہوتا ہے جن معاشروں میں عدل اور انصاف قائم نہیں ہوتے وہاں معاشرے جرائم کا گڑھ بن جاتے ہیں اور زوال کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ایک منصف کسی بھی معاشرے میں عدل کے پورے نظام میں ایک مینار اور ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ منصف کیلئے ضروری ہے کہ وہ جھوٹ نہ بولتا ہو، اسکا کردار بلا شبہ بے داغ ہو اور وہ انتہائی دیانتدار ہو ، ہر قسم کی معاشرتی برائی سے پاک ہو، ایک جج کو اپنے کردار میں ، گفتار میں یکساں ہونا چاہئے اسے روز مرہ کی زندگی میں پیشہ وارانہ اہمیت کا حامل ہو نا چاہئے تاکہ وہ انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بلا کسی تمیز کے اپنے فیصلے صادر کر سکے۔ جہاں اسکا زاتی کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے وہیں اسکا دوسروں کے ساتھ برتاؤ اور سچا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اسے ہر قسم کی معاشرتی برائی سے پاک ہونا چاہئے ۔ ایک منصف کو جہاں ایماندار ہونا چاہئے وہیں قانون پر اسکی دسترس بھی بہت ضروری ہے تاکہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے فیصلوں کو صادر کر سکے۔ ایک جج کا قانونی پہلوؤں کے بارے میں اور قانون پر تحقیق تک رسائی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک جج کا بلا امتیاز رنگ و نسل، بلا امتیاز زبان، بلا امتیاز قوم، بلا امتیاز مذہب، بلا امتیاز کسی تعلق، بلا تمیز فرقہ، بلا امتیاز ذات پات، بلا امتیاز جنس نرو مادہ ان تمام سے بالا تر ہونا چاہئے ۔ اسکے فیصلے ایسے ہوں جو معاشرے کیلئے مثال کی حیثیت رکھتے ہوں اور انمیں کسی طرح کی بو نہ آتی ہو اور فیصلہ دیکھنے ، سننے اور پڑھنے والے کو کہیں سے بھی یہ محسوس نہ ہو کہ اسمیں امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ ایک جج کو انتہائی مہذب ہوناچاہئے، اسے انتہائی خوش گفتار، صابر ، متحمل اور اسمیں برداشت کا ہونا چاہئے ۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ وہ فریقین کو تحمل سے سنے اور انہیں ذیادہ سے ذیادہ اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دینا چاہئے تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔ جب بھی کوئی سوال اٹھایا جائے اسکا جواب انتہائی تحمل سے سنے اور دے۔ اور غصہ سے احتراز کرے تاکہ یہ غصہ اسکے فیصلے میں حائل نہ ہو اگر وہ اپنے غصے پر قابو رکھنے کے قابل نہیں ہوگا تو وہ فیصلوں میں عدل سے کام نہیں لے سکے گا اور انصاف کا خون ہونے کا احتمال رہیگا۔

مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں انصاف کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے بہت سے منصفین جج کے معیار پر پورا نہیں اترتے اور انمیں وہ تمام معاشرتی اور اخلاقی برائیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں جو ایک جج کے شایان شان نہیں اور ایسے منصفین ہمارے معاشرے کیلئے ایک کلنک کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ انکے صادر کردہ فیصلے انصاف پر مبنی نہیں ہوتے اور انمیں امتیازی بو آ رہی ہوتی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے اپنے ایک فیصلے میں حکومت کو حکم دیا ہے کہ انٹر نیٹ پر موجود ایسے مواد کو فوری طور پر ہٹایا جائے جو مذہب اور مقدس ہستیوں کے خلاف ہے۔ سماجی تحریکوں کی نامور شخصیت فاروق طارق نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ مذہبی جنونیوں کو خوش کرنے کیلئے دیا گیا ہے۔ اور اس فیصلے میں بلاگرز اور انکے گھر والوں کو انتہائی خطرات کا سامنا ہے۔ ان مقدمات کا اصل ہدف وہ بلاگرز اور لوگ ہیں جو معاشرے میں تنقیدی سوچ اور جمہوری آزادیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہماری ریاست ہر اس آواز کو دبانا چاہتی ہے جو انکے مطمح نظر سے مختلف ہو یا پھر تنقیدی ہو۔ اگر کوئی شخص کسی چیز سے مطمعن نہیں ہے تو اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اسکی سوچ پر پابندی عائد کر دی جائے اور اس پر الزامات لگا کر بجائے اس کے کہ جمہوری اندازمیں اسکی تحریر میں لگائے گئے اعتراضات کا جواب دیا جائے کسی بھی معاشرے میں انصاف فراہم کرنے والے اس بات کا حق نہیں رکھتے کہ اگر انکے پاس اسکا کوئی مدلل جواب نہیں ہے تو وہ اسکی آواز کو قانون کا سہارا لیکر خاموش کروا دے۔ پابندیاں لگا کر مذید شکوک شبہات تو پیدا کئے جا سکتے ہیں مگر یہ انکا کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ ہماری ریاست اپنے مقاصد کے پیش نظر ایک ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے جوکبوتر بازی کا شوق رکھتا ہے اور اسنے کبوتر وں کیلئے ایک عالیشان پنجرہ بنوایا جو سرکاری اخراجات پر بنوایا گیا جسکے لئے سی ڈی اے کے محمد انور گوپانگ نے انکے خلاف ایک ریفرنس بھی دائر کیا جسمیں کہا گیا کہ انہوں نے سرکاری اخراجات پر گھر کی اوپری منزل پر اپنے کبوتروں کیلئے ایک پنجرہ تعمیر کروایا ہے جو خلاف قانون ہے۔

انکے خلاف دائر ریفرنس میں یہ الزامات بھی لگائے گئے ہیں کہ موصوف سی ڈی اے کے ڈائریکٹر منظور حسین شاہ کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے ہیں جنہوں نے موصوف کو اسلام آباد کے سیکٹر نمبر 1-8/4میں ایک پلاٹ نمبر 1014 الاٹ کیا مگر موصوف نے اس پلاٹ کو لینے سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ انہیں پلاٹ نمبر 395یا 396سیکٹر نمبر 1/8-2میں الاٹ کیا جائے۔ اسطرح انہیں 50ملین روپے کا یہ پلاٹ الاٹ کر دیا گیا۔ سی ڈی اے کے ایک اور ڈائریکٹر شاہد سنگھا کے ساتھ بھی موصوف جج صاحب کے قریبی تعلقات ہیں اور ان تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جج موصوف نے انکے ایک بیٹے کو جو کہ وقتی طور پر سی ڈی اے کا ملازم تھا اسے ملازمت کے سلسلے میں حکم امتناعی جاری کیا اور بعد میں سی ڈی اے کے اعتراضات کے باوجود نبیل سنگھا کو سولہویں گریڈ کی پوسٹ پر کنفرم کر دیا گیا۔اسی طرح شاہد سنگھا کی پوتی کو اسلام آبا د ہائی کورٹ میں جج موصوف کے احکامات پر ریسرچ ایسوسی ایٹ کی سیٹ پر اسی ہزارماہوار تنخواہ پر ملازمت پر رکھا گیا۔ اور دوستی کا حق نمک ادا کیا گیا جو موصوف جج کے کردار پر ایک ایسا نشان ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ موصوف سے انصاف کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ اسی طرح شاہد سنگھا ڈائریکٹر سی ڈی اے اسلام آباد اپنی بیماری کے سلسلے میں ایک نجی ہسپتال میں داخل رہے جہاں پر موصوف جج کے احکامات پر انکے بیماری پر آنے والے اخراجات مبلغ 377,986روپے سرکاری خزانے سے ادا کئے گئے ۔ موصوف جج کو ایک سوزوکی کلٹس کار اور مکان بھی دیا گیا ۔ قانون کے مطابق ان جج موصوف نے اپنے جاری کردہ احکاما ت کہ جنکے ذاتی گھر ہیں انہیں سرکاری رہائش گاہ الاٹ نہیں کی جا سکتی مگر موصوف نے اپنے جاری احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان احکامت کو ہوا میں اڑا دیا جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ موصوف جج قانون کی بالا دستی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ موصوف جج کے خلاف اختیارات کے نا جائز استعمال او ر کرپشن کے ریفرینس تا حال زیر سماعت اور زیر تجویز پڑے ہیں جن میں درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ سخت ایکشن لیتے ہوئے صدر پاکستان کو مطلع کیا جائے تاکہ ایسے جج کو اسکی اتنی اہم پوسٹ سے بر طرف کیا جا سکے۔ موصوف جج عرفان صدیقی جو کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ایڈوائزر ہیں انکے کزن ہیں جو ا نہیں مکمل تحفظ فراہم کرتے ہوئے تا حال بچائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ملی ٹینٹ کے ایک گروپ نے ٹی وی اینکر مبشر لقمان کے خلاف ایک درخواست دائر کی جس میں انکے خلاف الزامات عائد کئے گئے کہ مبشر لقمان اپنے پروگرام کے ذریعے لوگوں میں منافرت پھیلا رہا ہے موصوف جج نے بغیر کسی تحقیق کے مبشر لقمان کو کوئی نوٹس بھیجے بغیر راتوں رات اس پر کسی بھی قسم کے پروگرام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ موصوف کسی طرح بھی فیصلے کو کرنے میں اپنی آذاد رائے نہیں رکھتے اور وہ امتیازی سلوک برتتے ہیں اور وہ ان جماعتوں اور تنظیموں سے خوفزدہ ہیں یا پھر انکا جھکاؤ ان تنظیموں کی طرف ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کا خون بہا رہے ہیں۔ ایسے میں ایسے جج صاحبان سے کسی بھی انصاف کی توقع نہیں رکھی جا سکتی ۔ حضرت علی ؑ کا فرمان ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے مگر ایک ایسی حکومت جس میں انصاف نہ ہو وہ کبھی نہیں چل سکتی۔ موصوف جج ایک خاص مذہبی فکر کے مالک ہیں جو 2002کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل جن میں طالبان کے سپورٹر مولانا سمیع الحق اور جماعت اسلامی کے منور حسن جو کو دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے تھے اور افواج پاکستان اور ہمارے عسکری اداروں کے دہشت گردی میں شہید ہونے والے جوانوں کو شہید تسلیم نہیں کرتے تھے حلقہ نمبر NA-54 سے انتخابات میں حصہ لیا مگر بری طرح ناکام ہوگئے اور لوگوں نے انہیں دہشت گرد تنظیموں کے پلیٹ فارم سے نا پسندیدہ قرار دیکر شکست سے دو چار کیا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 209کے تحت ایسا کوئی بھی جج جو اپنے فرائض کی انجام دہی میں خطا وار پایا گیا ہو تو اسے اسکے عہدے سے بر خواست کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح جج موصوف کو وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر اسلام آبا د میں ایک سرکاری بنگلہ نمبر ۹۱ ایچ سیکٹر F-6-3 اسلام آبا د میں الاٹ کیا گیا جسے بعد میں اسکے سیکڑٹری کے لکھے جانے والے ایک خط کی روشنی میں بنگلہ نمبر 1-A سیکٹر F/7-3اسکے باوجود موصوف کی تسلی نہ ہوئی اور انہوں نے تیسری مرتبہ پھر اس بنگلے کو تبدیل کروایا اور بنگلہ نمبر 2-A سیکٹر R/7-4الاٹ کردیا گیا اس بنگلے کی مرمت اور تزئین اور آرائش پر 12 ملین کے اخراجات آئے جو ایک بنگلے کی آرائش کیلئے بہت بڑی رقم ہے جہاں پر ایسے منصفین ہونگے جو سرکاری خزانے کا بے دریغ استعمال کرکے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کرتے ہوں بھلا انکا انصاف کیسا ہوگا ہم یہ قاری پر چھوڑتے ہیں۔موصوف جج صاحب سے انصاف کی توقع اسلئے بھی نہیں رکھی جا سکتی کہ انہوں نے بطور سابقہ راولپنڈی بار کے صدر کی حیثیت سے 2011میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل پر ببانگ دہل خوشی منائی تھی جو ریکارڈ پر آج بھی موجود ہے موصوف کی ایک تصویر بھی بہت مشہور ہوئی تھی جس میں موصوف کو سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کا منہ چومتے ہوئے دکھایا گیا ہے مگر موصوف جج بننے کے بعد اس تصویر سے انحراف کرتے رہے ہیں اور اسکی سچائی سے انکار کرتے ہیں مگر ماننے والوں کا کہہنا ہے کہ یہ تصویرن انہی جج صاحب کی ہے ۔ موصوف لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کے بہت بڑے حامی اور سپورٹر بھی رہے ہیں جن پر بہت سے جرائم میں مقدمات بھی درج ہیں موصوف مولانا کی ضمانت کروانے میں پیش پیش رہے اور اہم کردار ادا کرنے کا موجب بھی ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا استفسار ہے کہ موصوف جج صاحب کے خلاف جو ریفرینس دائر کئے گئے ہیں موصوف جج اپنے فیصلے کی آڑ میں ملاؤں اورمذہبی جنونیوں کے جذبات سے کھیل کر انہیں اپنے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ انکے خلاف دائر ریفرنسوں کے خلاف خاموشی اختیار کر لی جائے۔ ہم اس بارے میں اپنی رائے دینے سے قاصر ہیں مگر ایک مشورہ ضرور دے سکتے ہیں کہ انٹر نیٹ پر موجود مواد کو ختم کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے کیونکہ اسے اگر ایک سائٹ سے بند کیا جائیگا تو یہ نا مراد لوگ اسے دوسری ویب سائٹس سے پھر ایکٹیویٹ کروا لینگے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اس تما م گھمبیر صورت حال سے بچنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ہمیں ایسی ترقی کو بھاڑ میں ڈالنا چاہئے جس کے ذریعے ہمارے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے اور ہمارے دین سے اتفاق نہ کرنے والے ایسی باتیں لکھیں جو ہمارے ازہان کو ناگوار گزریں تو ایسے میں ہمیں چاہئے کہ انٹر نیٹ جیسی خرافات جن سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجرو ح ہوتے ہیں انہیں فی الفور کلی طور پر بند کر دیا جائے۔ کمپیوٹر پر سختی سے پابندی لگا دی جائے اور موبائل فون جتنی جلد ہو سکے اسکی سہولت صرف مذہبی لوگوں کو ہونی چاہئے۔ پاکستان کے پولیس کے سراغ رساں اداروں کو فی الفور طور پر (مگر اس ادارے میں تو 80فیصد لوگ بد دیانت اور بد کردار ہیں) متحرک کیا جائے کہ جس جس کے پاس موبائل فون اور کمپیوٹرز ہیں انہیں فو ری طور پر ضبط کر لیا جائے ۔ اور ایسے لوگوں کیلئے فی الفور قانون سازی کرکے انہیں واجب القتل قرار دیا جائے اوراس قانون کی موجودگی کے باوجود اگر وہ ان خرافات کو استعمال کرنے سے باز نہ آئیں تو انہیں ہمارے پیارے بنی کی اہانت اور اسلام سے اختلاف رائے رکھنے کے جرم میں سزائے موت دی جائے کہ یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہمارا اسلام انکی ناپاک جراتوں اور ارادوں سے بچ سکتا ہے۔ ہمیں تو بس یہی کہنا ہے کہ ہم اپنے قران، اﷲ کے احکامات کی رو گردانی اور اپنے پیارے بنی کے فرامین کی روگردانی اور ان احکامات پر عمل نہ کرنے کے باوجود ان شاتم رسول اور دین اسلام کی تضحیک کرنے والوں کی گردنیں مارنے کیلئے تیار ہیں کہ ہم کلمہ گو ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپکو اتنے بڑے منسصب پر فائز کیا ہے اور جناب اسلام سے اتفاق نہ کرنے والوں کیلئے کوئی بھی حکم صادر فرما سکتے ہیں۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری یہ گزارشات قابل عمل ہونگی۔

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.