بارات میں شیر

 خبر اس وقت بنی جب انکم ٹیکس کا نوٹس منظر عام پر آیا۔ ورنہ تو دراصل یہ خبر کئی روز قبل معرضِ وجود میں آچکی تھی، جس کی تفصیل اخبارات کی زینت نہیں بن سکی، خبر آئی بھی تو وہ تفصیلات سے تہی دامن تھی۔ ملتان میں ایک شادی ہوئی، فریقین کے پاس پیسہ زیادہ تھا، انہوں نے خرچ کرنے کے لئے مناسب یہی جانا کہ دولہا کی بارات میں ایک شیر بھی شامل کر لیا، جبکہ دولہا کے سہرے کی لڑیوں میں سونے کی کشیدہ کاری شامل تھی۔ خبر کے مطابق انکم ٹیکس والوں نے نوٹس بھجوا دیا، کہ پارٹی کتنا ٹیکس جمع کرواتی ہے؟ اسی وجہ سے معاملہ اخبار تک پہنچ گیا۔ خبر یہاں بھی ختم نہیں ہوئی، انکم ٹیکس کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ایسا کوئی نوٹس محکمے کی طرف سے جاری نہیں کیا گیا، جو نوٹس پہنچا ہے، وہ جعلی ہے۔ گویا دولہا کے کسی حاسد نے انکم ٹیکس والوں سے ملی بھگت کے ذریعے ایک لیٹر جاری کروا دیا، اور کچھ نہ ہوا تو مخالف پریشان تو ہو ہی جائے گا، رنگ میں بھنگ تو پڑ ہی جائے گی۔

بارات کے ساتھ شیر کیوں لے جایا گیا؟ یہ بھی قابلِ غور پہلو ہے، ممکن ہے دولہا پارٹی کا تعلق مسلم لیگ ن کے ساتھ ہو، کہ وہ شیروں وغیرہ کے کپڑے اور روئی کے بنے ہوئے کسی ماڈل کی بجائے اصلی شیر ساتھ لے گئے، ورنہ یار لوگ تو اپنی گاڑیوں کے اوپر شیر کے ماڈل رکھ کر پھرتے ہیں ، باقی گاڑی کے اندر ڈیش بورڈ پر شیر رکھتے ہیں، کچھ لوگ تصویر سے ہی گزارہ چلا لیتے ہیں، مقصود یہ دکھانا ہوتا ہے کہ ہم شیر سے پیار کرتے ہیں، کیونکہ اس شیر کی نسبت پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف تک جاتی ہے، الیکشن میں یہ لوگ شیر کی پرچی پر مہر لگا کر میاں صاحب سے اپنی محبت کا ثبوت فراہم کردیتے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ بے شمار متوالے ایسے بھی ہیں جو اصلی شیر یا اس کے ماڈل یا تصویریں ساتھ لئے نہیں پھرتے، مگر دل میں لیڈر کی محبت رکھتے ہیں۔ بارات کے ساتھ شیر لے جانے کا یہ ایک پہلو ہے، ممکن ہے کہ یہ شیر غیر سیاسی ہی ہو، کیونکہ بارات میں تو ہر پارٹی کے لوگ ہوتے ہیں، اگر یہ سیاسی شیر ہوتا تو دولہا کے وہ دوست یا عزیز جو کسی اور پارٹی خاص طور پر پی ٹی آئی سے دلچسپی رکھتے ہونگے، وہ ساتھ جانے سے معذرت کر سکتے تھے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ شیر دلہن پارٹی پر رعب جمانے اور انہیں ڈرانے کے لئے لے جایا گیا ہو، یعنی دولہا نے یہ سن رکھا ہوگا کہ اگر ابتدا میں ہی دلہن والوں پر دباؤ ڈال لیا توا ٓنے والا وقت بہتر گزر سکتا ہے، اس قسم کے تصور کے لئے یار لوگوں نے بہت سی مثالیں بنا رکھی ہیں، جنہیں بوقتِ ضرورت اورحسبِ موقع پیش کیا جاتا ہے، اور زیبِ داستاں کی زینت بنایا جاتا ہے۔ پہلے پہل ایسے مواقع پر فائرنگ وغیرہ کی جاتی تھی، اب بھی طاقتور لوگ یہ کام کر گزرتے ہیں، تاہم اب ذرا حالات مختلف ہیں اس لئے فائرنگ سے گریز ہی بہتر تصور ہوتا ہے۔ خبر چونکہ بہت مختصر ہے، اس لئے یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ یہ شیر دولہا کا ذاتی تھا، یا ’’رینٹ اے لائن‘‘ کے ضمن میں کسی سے بھاری کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا، یا پھر کسی قریبی دوست سے بارات کے لئے مستعار لیا گیا تھا۔ شیر سے ہٹ کر سہرے کی لڑیوں میں سونے کی کشیدہ کاری سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے، کہ دولت کی ریل پیل ہے اور نمائش کے لئے راستے تلاش کئے جارہے ہیں۔ اس صورت میں معاملہ انکم ٹیکس کی خبرتک پہنچا، بعد میں جس کی تصدیق نہ ہو سکی۔ گویا اگر محکمہ والے اسی شادی ، بارات اور جہیز وغیرہ کو مثال بنا کر تحقیق بھی کریں تو کوئی خبر برآمد ہو سکتی ہے، مگر بدقسمتی سے اپنے ہاں یہ روایت فروغ پذیر نہیں ہو سکی، یہاں محکمہ انکم ٹیکس کے آہنی شکنجے میں اگر عام آدمی آ گیا، تو اس کا خون پینے اور ہڈیاں چبانے کا اہتمام ہو جاتا ہے، مگر وہ لوگ جو بنگلوں میں رہتے، کروڑوں کی گاڑیوں پر سفر کرتے اور بود وباش اور رہن سہن کے لحاظ سے شاہانہ انداز میں دکھائی دیتے ہیں، انہیں کوئی پوچھتا نہیں۔ حکومت ایک طرف ٹیکس کے حصول میں رونا پیٹنا ظاہر کرتی ہے، دوسری طرف امارت کی تحقیق کے لئے یہ دیسی طریقہ نہیں اپنایا جاتا کہ اتنی جائدادوں کی آمدنی کے ذرائع تو بتائیں؟ اگر اس طریقے کا عوام کو علم ہے تو کیا حکومت کو معلوم نہیں؟

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428318 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.